یہ تو ایک سوال میں کئی سوالات سمو دئے ہیں بلکہ ان کے جواب میں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، فی الحال کوئی ایسی کتاب میرے ذہن میں نہیں۔ صنائع بدائع کی بہت سی کتابیں مل جائیں گی، لیکن شاعر کو شاعری کے لئے یہ سب جاننے کی ضرورت نہیں۔یہ محض استادانہ کرتب شمار کئے جاتے ہیں آج کل۔ بس شاعر کو جو اچھا لگے، جس طرح اچھا لگے، شعر میں کوئی صنعت خود بخود در آئے تو فبہا، ورنہ شعوری کوشش کی ضرورت نہیں۔
مختصراً تشبیہ اور استعارے کی تعریف اس طرح ہو گی کہ اگر شعر یا نثر میں بھی، یہ کہا جائے کہ فلاں کسی چیز کی طرح ہے، تو یہ تشبیہ ہو گی۔ یعنی جہاں بھی ’جیسا، کی طرح، سا، مانند‘ قسم کے الفاظ آئیں، وہ تشبیہہ ہے۔ جہاں نہ آئیں، وہ استعارہ ہے۔ محبوب کا چہرہ چاند کی طرح کہیں تو تشبیہ ہے، چہرہ چاند ہے، یا چہرے کی کرنیں قسم کی تراکیب استعمال کی جائیں تو استعارہ، جس میں یہ پوشیدہ ہو کہ اِس چیز کی اُس چیز سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
اسی مثال میں تراکیب کی مثال بھی آگئی ہے۔ ترکیبیں محض الفاظ کے مجموعے کو کہتے ہیں، ایسے مجموعے کو جن سے حسن پیدا ہو۔ وصال کی شمعیں، چاند کو گُل کرنا۔ درد کے خیمے، مائل بکرم راتیں، وغیرہم، جو اصل میں نہ ہوں لیکن ان سے معنی واضح ہو جائے، ایسے الفاظ کو تراکیب کہتے ہیں۔