حسان خان
لائبریرین
الفتِ شبیر کی جس دل میں پھیلی چاندنی
اُس کی قسمت میں یہاں بھی ہے وہاں بھی چاندنی
عزمِ شبیری کو دھمکاتا ہے تخت و تاج سے
اے امیرِ شام ہے یہ چار دن کی چاندنی
کربلا سے خلد تک اک خط کھنچا ہے نور کا
چاند زیرِ خاک ہے تا عرش اُس کی چاندنی
اتنی تاریکی میں روشن ہے مثالِ ماہتاب
پیکرِ اسلام میں یہ کس نے بھر دی چاندنی
تذکرہ جب فاطمہ کے ماہ پاروں کا چھڑا
خونِ دل آنسو بنے، آنکھوں سے برسی چاندنی
بہہ گیا اشکوں کی طغیانی میں دربارِ یزید
کربلا میں اس قدر پیاسوں کو روئی چاندنی
خون کے آنسو ہے صغریٰ کو رلاتی چاندنی
دیکھ کر چاند آ گئی یاد اپنے گھر کی چاندنی
اب نہیں لگتی کسی پہلو بھی اچھی چاندنی
شہ سفر میں ہیں کہاں کا چاند کیسی چاندنی
دل منور ہو گیا، حُر کی چھٹیں تاریکیاں
دیکھنے میں تھی گھٹا کالی، پہ برسی چاندنی
خواب سا لگتا ہے، یہ گھر بھی کبھی آباد تھا
ہر طرف تھے چاند روشن، ہر طرف تھی چاندنی
اکبر و اصغر، محمد، عون، عباسِ علی
روشنی ہی روشنی تھی، چاندنی ہی چاندنی
قاسمِ گل پیرہن سا بھائی، کبریٰ سی بہن
اپنے گھر کا چاند تھا اور اپنے گھر کی چاندنی
گھوڑوں کی ٹاپوں میں آ کر پس گیا زہرا کا چاند
کربلا کی خاک پر بکھری پڑی تھی چاندنی
اب فلک تو ہی بتا وہ سب کہاں پر سو گئے
اب کہاں وہ چاند پھیلاتے ہیں اپنی چاندنی
(سید علی محمد رضوی 'سچے')