اب ہماری اردو زبان میں ثعلب مصری کھانے والی مصری کو کہا جاتا ہے جبکہ عربی لوگ اس سے مراد لومڑی لیتے ہیں ۔ اب انکی لومڑی ہم لوگ شوق سے کھاتے ہیں مگر ہماری وہ مصری ہی ہوتی ہے ۔
جمال پرستی ہر ذی حس میں ہوتی ہے ۔ اور صحرائی پس منظر میں اونٹ کی حیثیت ایک زندگی کی علامت کے طور پر لی جاتی ہے ۔ عربی میں
جمل اونٹ کو کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے زیادہ نام بھی عربی زبان میں اسی جانور کے ہیں ۔
کھوتے دا پتر کھوتا ہی ہوتا ہے ۔ اسے حمار کہتے ہیں ۔ عربی کھوتا جب بولتا ہے تو اس کی زبان میں اور پاکستانی کھوتے کی زبان میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ رونے ہنسنے اور ڈرنے کی آوازیں ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہیں
خروف کہتے ہیں بھیڑ کو اور چکی والی بھیڑ کو اس معاملے میں فوقیت حاصل ہے کہ صحرائی علاقوں میں نہیں پائی جاتی اور جب بے ےےےےےے بےےےےے کرتی ہے تو ہلکا ہلکا مسکراتی بھی ہے ۔ آپ نہیں یہ بھیڑ ۔
لو ایک اور پرابلم اب عربیوں کو پانڈا کا اور ریچھ کا فرق پتہ نہیں چلتا ۔ یہ لوگ دونوں کو ایک ہی نام دیتے ہیں یعنی کہ پانڈا ہو یا ریچھ یہ لوگ انہیں ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ دوسری آنکھ سے اسکا پاسپورٹ چیک کرتے ہیں کہ ویزہ ہے یا نہیں ۔
لیجئے بھیڑیا حاضر ہے ۔ ویسے تو خلیجی ملکوں کے کفیل حضرات نے انکی جگہ لے رکھی ہے مگر پھر بھی کہیں کہیں چڑیا گھر میں یہ ناتواں جانور عربی میں کہتا نظرا آتا ہے ۔ انا ذئب و ذنبی واحد جئت بالبلاد العرب للبحث عن الرزق اکثر ( میں بھیڑیا ہوں مگر مجھ سے ایک گناہ ہوگیا ۔ عرب ملک میں آگیا کہ شاید زیادہ رزق مل سکے )
لیجئے یہ حضرت بظاہر بندر کہلاتے ہیں ۔ اب اسے “قرد“ بھی کہتے ہیں اور رباح بھی قرآن میں قرد کے نام سے پکاری جانے والی یہ نسل اپنی اچھل کود کے لیئے مشہور ہے ۔ اور غریب ملکوں سے آنے والے افراد بھی ایسی حرکتوں سے امیر ملکوں کے “رباحوں“ کو رباب کہتے ہیں اور انکی غیر اعلانیہ عملی غلامی کرتے ہیں ۔ مگر ایک ہی چیز کے دو دو نام یا دو دو چیزوں کا ایک ہی نام ہر زبان میں ممکن ہے تو عربی میں کیوں نہیں
بوچھی جی آپ کے انکل کی سائیکل پر سواری کرنے کے لیئے استعمال ہونے والی سیڑھی کو اردو اور عربی میں ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یعنی محترم ذرافہ صاحب حرکتوں میں یہ بھی پورے کے پورے دیسی ہی ہیں ۔ اونچی شاخوں سے پتے کھانا ان کا مشغلہ ہی نہیں مجبوری بھی ہے اور اپنے بالکل نیچے پڑی ہوئی گھاس پھوس کی گٹڑی انہیں نظر نہیں آتی ۔
سب لوک گلاں دے گالہڑ تے کم دی گل نہ کردے ۔
جے اصلی گالہڑ ویکھن تے روز ایسے توں ڈردے
ڈرئیے نہیں اسے گلہری کہتے ہیں عربی میں اسے “سنجاب“ بھی کہتے ہیں ۔ اسے انگریزی میں سکوئیریل اور پنجابی میں گالہڑ کہتے ہیں ۔ پاکستانی گالہڑ میں اور عربی گالہڑ میں بنیادی فرق کھانے پینے کی عادات کا ہوتا ہے ۔ پاکستانی گالہڑ بیروں پر بھی گزارا کرتی ہے جبکہ عربی گالہڑ سارا سال کھجوریں کھاتی ہے ۔
لو جی شریفانہ بھیڑ حاضر ہے ۔ اسکی شرافت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکے نام میں بھی شاء ہے یعنی جورج برنارڈ شاء بھی ایک بھیڑ صفت انسان تھا جو ساری عمر لکھتا رہا اور بستہ کمر پر ڈالے ہاتھ میں چھڑی پکڑے منہ اٹھائے اپنے تحریر سفر کرتا رہا ۔ اور اگر اس بیچاری کے نام کے آخر میں ایک ی لگا دیں تو بہت شائی فیل کرتی ہے بیچاری شرمیلی جو ہوئی نا۔
اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا ۔ ۔ ۔یار نے ہی لوٹ لیا گھر یار کا ۔
یہ یار جس نے یار کا گھر لوٹ لیا سانپ صفت تھا ۔ جس نے پلایا دودھ اسی کو کیا یتیم ۔ مگر یہ سانپ جسے “ثعبان“ بھی کہتے ہیں دوسرے نام سے بھی جانا جاتا ہے یعنی “صل“ اب صلہ مانگنے والو یاد رکھنا صلہ نا ملے تو دوسرا صل ورنہ دوست ۔ (یہی آجکل عموما سمجھا جاتا ہے ورنہ دنیا میں اچھوں کی بھی کمی نہیں ہے جیسے کہ میں ۔ میں صل نہیں ہوں ۔ ایڈوانس صفائی دے رہا ہوں کہیں میرا نام نہ ڈال دینا
گیدڑ بڑا خبیث ہے یہاں پر بھی آگیا ۔ جو چندبچے تھے چوزے وہ انکو بھی کھا گیا ۔ اب یہ محترم گیدڑ ہیں عربی میں اسے ضبع بھی کہتے ہیں اور عموما عرب حکمرانوں کا انداز حکمرانی اپناتے ہیں ۔ مرے ہوئے کو اور مارو اور نوالہ بنا لو اور جو آنکھیں دکھائے وہاں سے بھاگ جاؤ اور کہو “ آج تو بچ گئے اب کے مار تو جانوں“
عربوں کے شوق بھی ان کے جیسے انوکھے ہیں ۔ ناک کو چڑھنے والی پرفیوم ۔ بڑی سی جی ایم سی گاڑی ۔ اس میں لدی ہوئی گھاس ۔ نئے ترین موڈیل کا موبائیل فون ۔ اپنی عورتوں کو پردہ کی نصیحت دوسروں کی اسکرٹ کو دیکھتے ہوئے دانتوں میں خلال ۔ شیطانی نظریں اور ریس کا گھوڑا (یاد رہے یہ عادتیں تمام عربوں میں نہیں بلکہ چند رئیسوں میں ہیں ۔ اور عربوں میں بڑے بڑے دیندار بھی ہیں جنکا نام بھی سنیں تو احترام سے نظریں جھک جاتی ہیں)
خیر ریس کے گھوڑے کو طمر کہا جاتا ہے د یکھ لیجئے گا کہیں تمر نا کہ دیجئے گا کہ یہ کھجور کو کہتے ہیں