چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
آنگلو بانگلو، ہیکل اینڈ جیکل ، چلوسک ملوسک کے کارناموں سے سجی کہانیاں آپ میں سے اکثر نے پڑھ یا سن رکھی ہونگی ، اب ان دادی جی کے زمانے والی کہانیوں سے باہر آ جائیے ، کیونکہ میں لایا ہوں آپ کیلئے الف اور نون کے کرتوت نما کارنامے۔ مثل مشہور ہے "اللہ ملائی جوڑی ، اک انھا تے اک کوڑھی" لیکن خبردار !!!الف اور نون پر یہ مثل فٹ نہیں آتی، نہ ہی کوئی فٹ کرنے کی کوشش کرے ۔
ان سے ملیے اس لم ڈھینگ کانام والدین نے اویس قرنی پتا نہیں کیا سوچ کر رکھا تھا ، قد چھ فٹ ایک انچ تین سوتر ہے ، اپنے محلے کی واحد شخصیت ہے جو خدانخواستہ کبھی نہا کر باہر آجائے تو لوگ اپنے کام ادھورے چھوڑ کر "عید مبارک" کہتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں ، دنیا صرف دو سو عورتوں کی عزت کرتا ہے ، اور باقی خواتین سے یہ واقف نہیں ۔ اور اس عجیب و غریب و مسکین انسان کا نام نیرنگ یعنی نین ہے ، جسم بالکل پتلا اور سوکھا ہوا جس پر رکھا ہواایک منحنی سا چہرہ عجیب بہاریں دکھا رہا ہوتا ہے ، جیسے کسی کیلے کو چھیل کر اس کے اوپر سیب رکھ دیا گیا ہو اگر اس کے جسم میں تھوڑی سی چربی ، خون اور کافی سارا گوشت بھر دیا جائےاور رنگ تھوڑا سا سفید نہیں تو سانولا ہی ہو جائے توامید ہے ایک صحت مند انسان نظر آئے گا۔
دونوں ہی تعلیم یافتہ مگر بیروزگار ہیں ، اور خیر سے محلے دار ہیں ۔ پھٹکارنے اور کوسنے میں آسانی کی خاطردنیا نے ان بھلے مانسوں کا نام الف اور نون رکھ چھوڑا ہے۔ جمعہ پڑھنے مسجد کی طرف جا رہے ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے چندہ مانگنے جا رہے ہیں ۔ جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو امام مسجد ان پر نظر پڑتے ہی لوگوں کو بتا دیتا ہے کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں ۔ عید کے دن کسی سے گلے ملنے کی کوشش کریں تو گلے ملنے والا سب سے پہلے تو اپنی جیب سے ساری چیزیں نکال کر دوسرے کو پکڑاتا ہے، پھر ان سے گلے ملتا ہے ۔ کبھی کبھار فاتحہ پڑھنے قبرستان جا ئیں تو یوں لگتا ہے جیسے چرس پینے جا رہے ہیں۔
"چوبیس ۔۔۔۔۔۔۔"
الف ریلوے لائن پر بیٹھا مکھیاں مارنے میں مگن تھا کہ نون آ گیا ۔ اور منہ لٹکا کے بیٹھ گیا۔
پچیس ۔۔۔۔۔"
الف بدستور مکھیاں مارنے میں لگا رہا ۔
"چھبیس۔۔۔۔۔۔"
نون نے جب دیکھا کہ الف نے نہ حال احوال پوچھا ہےنہ لٹکے منہ کی وجہ پوچھ رہا ہے، تو بیزاری سے بولا :۔ "یار کیا پہلی جماعت میں داخلہ لے لیا ہے ؟ جو پھر سے گنتی کو رٹا لگا رہے ہو۔؟"
"ستائیس ۔۔۔۔۔۔"
الف نے نون کی جانب دیکھا اور بولا:۔"خیر تو ہے آج تمہارا منہ توری کی طرح لٹکا ہوا ہے ۔ شکل شریف پر ساڑھے تیرہ کیوں بجے ہوئے ہیں ۔؟"
"اٹھائیس ۔۔۔۔۔۔"
نون کا منہ کچھ اور لٹک گیا :۔ "بس یار کچھ نہ پوچھ۔"
الف:۔" اچھا یار نہیں پوچھتا ، تو بھی کیا یاد کرے گا۔"
"انتیس۔۔۔۔۔۔"
نون (تنگ آ کر):۔" یار اب بند بھی کر معصوم مکھیوں کا قتلِ عام ، لنڈے کی جرسی پہن کے تو بھی خود کو امریکی میرین سمجھنے لگتا ہے ۔"
الف:۔" یار تیس تو پوری کرنے دے ۔ بس ایک مکھی اور مار لوں۔"
نون:۔" تیرا کیا خیال ہے تیس مکھیاں مارنے کے بعد لوگ تجھے تیس مارخان سمجھنے لگیں گے۔؟؟ "
الف :۔" اور یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیس۔۔۔۔۔۔
ارےلوگ تو الو کے پٹھے ہیں ، کسی کو بھلا کیا قدر میرے اندر چھپی ٹیلنٹ کی کان کی ۔ لوگوں کی بات کر کے میرا موڈ نہ خراب کرو۔"الف کا بھی اچھا خاصا منہ بن گیا
نون:۔" اور میرا جو موڈ خراب ہے اس کی کوئی فکر نہیں تمہیں ۔؟ "
الف:۔" پوچھا تو تھا ۔ ویسے اگر برا نہ مناؤ تو تمہارا منہ دیکھ کر ایسالگتا ہے جیسے زپ والا سموسہ ایجاد ہو گیا ہو۔
میرے دوست ہماری تو قسمت ہی خراب ہے موڈ تو پھر بھی بنتی بگڑتی چیز ہے ۔"
نون :۔" یار دنیا میں ایک تم ہی دوست ہو میرے اور اب تم بھی جگتیں لگانے لگے ہو (گنگناتے ہوئے ) دوست، دوست نہ رہا۔۔۔۔۔ یار، یار نہ رہا۔۔۔۔۔"
الف ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا :۔"رحم۔۔۔۔ جناب بڑے مہدی حسن صاحب۔۔۔۔ رحم۔۔۔۔ کشور کمار کی روح کو تڑپانے کی بجائے سیدھی طرح بکو کہ مسئلہ کیا ہے۔؟ "
نون:۔" بس یار میرا تو اب اس نامراد زندگی سے جی اکتا گیا ہے ، جی چاہتا ہے کسی گندے نالے میں چھلانگ لگا دوں ۔"
الف:۔" اوہ یار تم تو واقعی سنجیدہ ہو ، میں سمجھا ایویں ڈرامے بازی کر رہا ہے ۔ خیر تو ہے کیا ہوا؟"یہ کہتے ہوئے الف نے جونہی نون کے کندھے پر تسلی دینے کیلئے ہاتھ رکھا تو نون تڑپ اٹھا اور بولا :۔" آرام سے یار، ابے نے آج پھر میری اچھی خاصی خاطر تواضع کی ہے ، جسم دکھ رہا ہے۔"
الف کُڑک مرغی کی طرح ہنسا:۔" ہمت کر یار ! مجھے دیکھ ! میری بھلا گھر میں کونسا عزت افزائی ہوتی ہے ۔ اب تک تو ہم دونوں کو اس روز روز کی مار کا عادی ہو جانا چاہیے تھا ۔"
نون کا منہ کچھ اور بن گیا :۔" ڈھٹائی کے جس مقام پر تم فائز ہو ، وہاں تک پہنچنے میں مجھے ابھی کافی عرصہ لگے گا۔"اور ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا :۔" پتا نہیں کب وہ دن آئے گا جب گھر میں ہماری بھی کچھ عزت ہوگی۔"
الف:۔"پیارے لال! یہ خواب دیکھنا بے کار ہے ، نہ ہمیں کہیں نوکری ملے گی ، نہ ہم کچھ کما کر گھر لے جائیں گے، نہ ہی ہمیں گھر میں عزت نصیب ہو گی ۔"
نون:۔" یار پیسہ کمانے کا ذریعہ صرف نوکری ہی تو نہیں ہے ، ہم کوئی اور کام دھندہ بھی تو کر سکتے ہیں ۔ دماغ لڑا یار ! کوئی ترکیب سوچ، مجھ سے اب اور مار نہیں کھائی جاتی ۔"
الف کچھ سوچتے ہوئے بولا:۔" یار ایک ترکیب ہے تو سہی ، مگر ہم کامیاب ہو جائیں گے یا نہیں، اس بات کا دارومدار تجھ پر ہے ۔"
نون :۔" بتاؤ گے نہیں تو کیسے پتا چلے گا مجھے ، میں کوئی نجومی یا بزرگ تو ہوں نہیں نہ ہی ٹیلی پیتھی جانتا ہوں جو تیرے دماغ کے گھن چکر پڑھ لوں۔ چلو اب جلدی بتاؤ بھی۔" نون کی بے تابی دیکھنے لائق تھی۔
الف:۔" ڈاکٹر لوگوں کی آج کل چاندی ہی چاندی ہے ۔ اگر ہم ایک عددد کلینک کھول لیں تو پھر مزہ ہی آجائے ، اندھی کمائی ہے ، منہ مانگی فیس ، اور عزت الگ سے ۔ لوگ ڈاکٹر صاحب ، ڈاکٹر صاحب کرتے نہیں تھکتے ۔"
نون: ۔ (منہ بنا کر) "یہ منہ اور مسور کی دال ۔ محلے میں سب ہمیں جانتے ہیں، اب اچانک کون ہمیں ڈاکٹر صاحب سمجھے گا؟ پلان وہ بنا ؤ ، جو قابلِ عمل بھی ہو۔خیالی پلاؤ تو میں خود بھی تم سے اچھا پکا سکتا ہوں ۔ "
الف:۔" سیانے سچ ہی کہتے ہیں ، عقل نئیں تے موجاں ای موجاں ۔ جس کی سوچ کبھی محلے کی حدود سے نہ نکلی ہو وہ بھلا زندگی میں کیسے ترقی کر سکتا ہے ، ہمارے محلے سے باہر بھی محلے ہیں ، وہاں بھی لوگ رہتے ہوں گے، لازمی بات ہے وہ بیمار بھی ہوتے ہونگے ۔"
یہ سن کر نون کی باچھیں خوشی سےشرقاً غرباً پھیلنے لگیں ، اچھلتے ہوئے بولا :۔ اچھا تو تمہارا مطلب ہے ہم کسی اور محلے میں کلینک کھولیں گے؟ یار بات تو تمہاری زبردست ہے۔(پھر اچانک جیسے غبارے کی ہوا نکل جائے ) مگر کلینک صرف باتوں سے تو نہیں بن جاتا ، سامان وغیرہ کہاں سے آئے گا ؟"
الف:۔ کیا تم صرف حصہ بٹورو گے؟ ، ترکیب میں نے سوچی ہے ، اب کچھ تم بھی تو حصہ ملاؤ ، آگے کا پلان تم بناؤ ۔ سامان کچھ زیادہ تو نہیں چاہیے ، بس ایک میز ، دو چار کرسیاں ، ایک عدد الماری ۔۔۔۔۔۔
نون:۔ (بات کاٹ کر) اور دوائیاں وغیرہ کہاں سے آئیں گی؟ میز کرسیاں تو میں گھر سے لے آؤں گا ، باقی کا انتظام تم کرو۔
الف :۔ یہ ہوئی نا بات ، سرکاری ڈنگر ہسپتال کا چوکیدار ہمارا کلاس فیلو ہے ، اس سے دوائیوں کے ڈبے اور دوائیاں وغیرہ مانگ لیں گے ، آخر دوست کب کام آئے گا، الماری میں گھر سے اٹھا لاؤں گا ۔اور پندرہ بیس روپے کا تھرما میٹر بھی کسی میڈیکل سٹور سے خرید لیں گے۔
نون :۔ خرید لیں گے۔۔۔۔۔ ، جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں اور باتیں شہنشاہوں والی۔۔۔۔۔، خرید لیں گے۔ کبھی دس روپے کے نوٹ کی شکل بھی دیکھی ہے؟ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ میں اس بار کسی سے ادھار نہیں مانگنے والا ۔ پچھلی بار بھی تیرے کہنے پر ذلیل ہوا تھا ۔نون کے لہجے کی تلخی ماضی قریب کے کسی سانحے کی غماز تھی
الف:۔ ارے چھوڑ یار ، اب ہم ڈاکٹر بننے والے ہیں ، اور تو ماضی کا منحوس ذکر کر کےاتنے اچھے پلان پر نحوست کے سائے ڈالنے میں لگا ہے ۔بس اب جیسے بھی ہمیں کامیاب ہو کر دکھانا ہے ۔ میں تو ان کمبخت دنیا والوں کو وہ ٹیکے لگاؤں گا، وہ ٹیکے لگاؤں گاکہ یاد رکھیں گے۔اور پیسوں کی فکر نہ کر ، مہ جبین آپی سو ڈیڑھ سو تو ادھار دے ہی دیں گی۔ اور کلینک کیلئے جگہ کی فکر نہ کر ۔ وہ اپنا دوست ہے نا عاطف بٹ ان کی فردوس مارکیٹ میں کچھ دکانیں پڑی ہیں ، ایڈوانس سے تو جان چھوٹی ، اور کرایہ بھی مناسب ہوگا۔
نون خوفزدہ ہوتے ہوئے بولا :۔ یار مجھے تیری اس ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی عادت سے ڈر لگتا ہے ، پھر جب مار پڑتی ہے تو تیری یہ لمبی لمبی ٹانگیں تجھے بچا لے جاتی ہیں ، اور پٹنے کیلئے میں اکیلا رہ جاتا ہوں ۔ پلان فول پروف ہونا چاہیے ۔ دکان کو چونا کتھا تو خیر میں خودکر لوں گا ، مگر سائن بورڈ اور وال چاکنگ کیلئے پینٹرکا انتظام تیرے ذمے۔
الف کے حامی بھرتے ہی یہ "قرارداد ِ روزگار" متفقہ طور پر منظور ہو گئی ، شرکا نےخوشی سے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور شیخ چلی کی طرح مستقبل کے سہانے خوابوں میں غوطے کھانے لگے
ان سے ملیے اس لم ڈھینگ کانام والدین نے اویس قرنی پتا نہیں کیا سوچ کر رکھا تھا ، قد چھ فٹ ایک انچ تین سوتر ہے ، اپنے محلے کی واحد شخصیت ہے جو خدانخواستہ کبھی نہا کر باہر آجائے تو لوگ اپنے کام ادھورے چھوڑ کر "عید مبارک" کہتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں ، دنیا صرف دو سو عورتوں کی عزت کرتا ہے ، اور باقی خواتین سے یہ واقف نہیں ۔ اور اس عجیب و غریب و مسکین انسان کا نام نیرنگ یعنی نین ہے ، جسم بالکل پتلا اور سوکھا ہوا جس پر رکھا ہواایک منحنی سا چہرہ عجیب بہاریں دکھا رہا ہوتا ہے ، جیسے کسی کیلے کو چھیل کر اس کے اوپر سیب رکھ دیا گیا ہو اگر اس کے جسم میں تھوڑی سی چربی ، خون اور کافی سارا گوشت بھر دیا جائےاور رنگ تھوڑا سا سفید نہیں تو سانولا ہی ہو جائے توامید ہے ایک صحت مند انسان نظر آئے گا۔
دونوں ہی تعلیم یافتہ مگر بیروزگار ہیں ، اور خیر سے محلے دار ہیں ۔ پھٹکارنے اور کوسنے میں آسانی کی خاطردنیا نے ان بھلے مانسوں کا نام الف اور نون رکھ چھوڑا ہے۔ جمعہ پڑھنے مسجد کی طرف جا رہے ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے چندہ مانگنے جا رہے ہیں ۔ جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو امام مسجد ان پر نظر پڑتے ہی لوگوں کو بتا دیتا ہے کہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں ۔ عید کے دن کسی سے گلے ملنے کی کوشش کریں تو گلے ملنے والا سب سے پہلے تو اپنی جیب سے ساری چیزیں نکال کر دوسرے کو پکڑاتا ہے، پھر ان سے گلے ملتا ہے ۔ کبھی کبھار فاتحہ پڑھنے قبرستان جا ئیں تو یوں لگتا ہے جیسے چرس پینے جا رہے ہیں۔
"چوبیس ۔۔۔۔۔۔۔"
الف ریلوے لائن پر بیٹھا مکھیاں مارنے میں مگن تھا کہ نون آ گیا ۔ اور منہ لٹکا کے بیٹھ گیا۔
پچیس ۔۔۔۔۔"
الف بدستور مکھیاں مارنے میں لگا رہا ۔
"چھبیس۔۔۔۔۔۔"
نون نے جب دیکھا کہ الف نے نہ حال احوال پوچھا ہےنہ لٹکے منہ کی وجہ پوچھ رہا ہے، تو بیزاری سے بولا :۔ "یار کیا پہلی جماعت میں داخلہ لے لیا ہے ؟ جو پھر سے گنتی کو رٹا لگا رہے ہو۔؟"
"ستائیس ۔۔۔۔۔۔"
الف نے نون کی جانب دیکھا اور بولا:۔"خیر تو ہے آج تمہارا منہ توری کی طرح لٹکا ہوا ہے ۔ شکل شریف پر ساڑھے تیرہ کیوں بجے ہوئے ہیں ۔؟"
"اٹھائیس ۔۔۔۔۔۔"
نون کا منہ کچھ اور لٹک گیا :۔ "بس یار کچھ نہ پوچھ۔"
الف:۔" اچھا یار نہیں پوچھتا ، تو بھی کیا یاد کرے گا۔"
"انتیس۔۔۔۔۔۔"
نون (تنگ آ کر):۔" یار اب بند بھی کر معصوم مکھیوں کا قتلِ عام ، لنڈے کی جرسی پہن کے تو بھی خود کو امریکی میرین سمجھنے لگتا ہے ۔"
الف:۔" یار تیس تو پوری کرنے دے ۔ بس ایک مکھی اور مار لوں۔"
نون:۔" تیرا کیا خیال ہے تیس مکھیاں مارنے کے بعد لوگ تجھے تیس مارخان سمجھنے لگیں گے۔؟؟ "
الف :۔" اور یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیس۔۔۔۔۔۔
ارےلوگ تو الو کے پٹھے ہیں ، کسی کو بھلا کیا قدر میرے اندر چھپی ٹیلنٹ کی کان کی ۔ لوگوں کی بات کر کے میرا موڈ نہ خراب کرو۔"الف کا بھی اچھا خاصا منہ بن گیا
نون:۔" اور میرا جو موڈ خراب ہے اس کی کوئی فکر نہیں تمہیں ۔؟ "
الف:۔" پوچھا تو تھا ۔ ویسے اگر برا نہ مناؤ تو تمہارا منہ دیکھ کر ایسالگتا ہے جیسے زپ والا سموسہ ایجاد ہو گیا ہو۔
میرے دوست ہماری تو قسمت ہی خراب ہے موڈ تو پھر بھی بنتی بگڑتی چیز ہے ۔"
نون :۔" یار دنیا میں ایک تم ہی دوست ہو میرے اور اب تم بھی جگتیں لگانے لگے ہو (گنگناتے ہوئے ) دوست، دوست نہ رہا۔۔۔۔۔ یار، یار نہ رہا۔۔۔۔۔"
الف ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا :۔"رحم۔۔۔۔ جناب بڑے مہدی حسن صاحب۔۔۔۔ رحم۔۔۔۔ کشور کمار کی روح کو تڑپانے کی بجائے سیدھی طرح بکو کہ مسئلہ کیا ہے۔؟ "
نون:۔" بس یار میرا تو اب اس نامراد زندگی سے جی اکتا گیا ہے ، جی چاہتا ہے کسی گندے نالے میں چھلانگ لگا دوں ۔"
الف:۔" اوہ یار تم تو واقعی سنجیدہ ہو ، میں سمجھا ایویں ڈرامے بازی کر رہا ہے ۔ خیر تو ہے کیا ہوا؟"یہ کہتے ہوئے الف نے جونہی نون کے کندھے پر تسلی دینے کیلئے ہاتھ رکھا تو نون تڑپ اٹھا اور بولا :۔" آرام سے یار، ابے نے آج پھر میری اچھی خاصی خاطر تواضع کی ہے ، جسم دکھ رہا ہے۔"
الف کُڑک مرغی کی طرح ہنسا:۔" ہمت کر یار ! مجھے دیکھ ! میری بھلا گھر میں کونسا عزت افزائی ہوتی ہے ۔ اب تک تو ہم دونوں کو اس روز روز کی مار کا عادی ہو جانا چاہیے تھا ۔"
نون کا منہ کچھ اور بن گیا :۔" ڈھٹائی کے جس مقام پر تم فائز ہو ، وہاں تک پہنچنے میں مجھے ابھی کافی عرصہ لگے گا۔"اور ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا :۔" پتا نہیں کب وہ دن آئے گا جب گھر میں ہماری بھی کچھ عزت ہوگی۔"
الف:۔"پیارے لال! یہ خواب دیکھنا بے کار ہے ، نہ ہمیں کہیں نوکری ملے گی ، نہ ہم کچھ کما کر گھر لے جائیں گے، نہ ہی ہمیں گھر میں عزت نصیب ہو گی ۔"
نون:۔" یار پیسہ کمانے کا ذریعہ صرف نوکری ہی تو نہیں ہے ، ہم کوئی اور کام دھندہ بھی تو کر سکتے ہیں ۔ دماغ لڑا یار ! کوئی ترکیب سوچ، مجھ سے اب اور مار نہیں کھائی جاتی ۔"
الف کچھ سوچتے ہوئے بولا:۔" یار ایک ترکیب ہے تو سہی ، مگر ہم کامیاب ہو جائیں گے یا نہیں، اس بات کا دارومدار تجھ پر ہے ۔"
نون :۔" بتاؤ گے نہیں تو کیسے پتا چلے گا مجھے ، میں کوئی نجومی یا بزرگ تو ہوں نہیں نہ ہی ٹیلی پیتھی جانتا ہوں جو تیرے دماغ کے گھن چکر پڑھ لوں۔ چلو اب جلدی بتاؤ بھی۔" نون کی بے تابی دیکھنے لائق تھی۔
الف:۔" ڈاکٹر لوگوں کی آج کل چاندی ہی چاندی ہے ۔ اگر ہم ایک عددد کلینک کھول لیں تو پھر مزہ ہی آجائے ، اندھی کمائی ہے ، منہ مانگی فیس ، اور عزت الگ سے ۔ لوگ ڈاکٹر صاحب ، ڈاکٹر صاحب کرتے نہیں تھکتے ۔"
نون: ۔ (منہ بنا کر) "یہ منہ اور مسور کی دال ۔ محلے میں سب ہمیں جانتے ہیں، اب اچانک کون ہمیں ڈاکٹر صاحب سمجھے گا؟ پلان وہ بنا ؤ ، جو قابلِ عمل بھی ہو۔خیالی پلاؤ تو میں خود بھی تم سے اچھا پکا سکتا ہوں ۔ "
الف:۔" سیانے سچ ہی کہتے ہیں ، عقل نئیں تے موجاں ای موجاں ۔ جس کی سوچ کبھی محلے کی حدود سے نہ نکلی ہو وہ بھلا زندگی میں کیسے ترقی کر سکتا ہے ، ہمارے محلے سے باہر بھی محلے ہیں ، وہاں بھی لوگ رہتے ہوں گے، لازمی بات ہے وہ بیمار بھی ہوتے ہونگے ۔"
یہ سن کر نون کی باچھیں خوشی سےشرقاً غرباً پھیلنے لگیں ، اچھلتے ہوئے بولا :۔ اچھا تو تمہارا مطلب ہے ہم کسی اور محلے میں کلینک کھولیں گے؟ یار بات تو تمہاری زبردست ہے۔(پھر اچانک جیسے غبارے کی ہوا نکل جائے ) مگر کلینک صرف باتوں سے تو نہیں بن جاتا ، سامان وغیرہ کہاں سے آئے گا ؟"
الف:۔ کیا تم صرف حصہ بٹورو گے؟ ، ترکیب میں نے سوچی ہے ، اب کچھ تم بھی تو حصہ ملاؤ ، آگے کا پلان تم بناؤ ۔ سامان کچھ زیادہ تو نہیں چاہیے ، بس ایک میز ، دو چار کرسیاں ، ایک عدد الماری ۔۔۔۔۔۔
نون:۔ (بات کاٹ کر) اور دوائیاں وغیرہ کہاں سے آئیں گی؟ میز کرسیاں تو میں گھر سے لے آؤں گا ، باقی کا انتظام تم کرو۔
الف :۔ یہ ہوئی نا بات ، سرکاری ڈنگر ہسپتال کا چوکیدار ہمارا کلاس فیلو ہے ، اس سے دوائیوں کے ڈبے اور دوائیاں وغیرہ مانگ لیں گے ، آخر دوست کب کام آئے گا، الماری میں گھر سے اٹھا لاؤں گا ۔اور پندرہ بیس روپے کا تھرما میٹر بھی کسی میڈیکل سٹور سے خرید لیں گے۔
نون :۔ خرید لیں گے۔۔۔۔۔ ، جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں اور باتیں شہنشاہوں والی۔۔۔۔۔، خرید لیں گے۔ کبھی دس روپے کے نوٹ کی شکل بھی دیکھی ہے؟ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ میں اس بار کسی سے ادھار نہیں مانگنے والا ۔ پچھلی بار بھی تیرے کہنے پر ذلیل ہوا تھا ۔نون کے لہجے کی تلخی ماضی قریب کے کسی سانحے کی غماز تھی
الف:۔ ارے چھوڑ یار ، اب ہم ڈاکٹر بننے والے ہیں ، اور تو ماضی کا منحوس ذکر کر کےاتنے اچھے پلان پر نحوست کے سائے ڈالنے میں لگا ہے ۔بس اب جیسے بھی ہمیں کامیاب ہو کر دکھانا ہے ۔ میں تو ان کمبخت دنیا والوں کو وہ ٹیکے لگاؤں گا، وہ ٹیکے لگاؤں گاکہ یاد رکھیں گے۔اور پیسوں کی فکر نہ کر ، مہ جبین آپی سو ڈیڑھ سو تو ادھار دے ہی دیں گی۔ اور کلینک کیلئے جگہ کی فکر نہ کر ۔ وہ اپنا دوست ہے نا عاطف بٹ ان کی فردوس مارکیٹ میں کچھ دکانیں پڑی ہیں ، ایڈوانس سے تو جان چھوٹی ، اور کرایہ بھی مناسب ہوگا۔
نون خوفزدہ ہوتے ہوئے بولا :۔ یار مجھے تیری اس ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی عادت سے ڈر لگتا ہے ، پھر جب مار پڑتی ہے تو تیری یہ لمبی لمبی ٹانگیں تجھے بچا لے جاتی ہیں ، اور پٹنے کیلئے میں اکیلا رہ جاتا ہوں ۔ پلان فول پروف ہونا چاہیے ۔ دکان کو چونا کتھا تو خیر میں خودکر لوں گا ، مگر سائن بورڈ اور وال چاکنگ کیلئے پینٹرکا انتظام تیرے ذمے۔
الف کے حامی بھرتے ہی یہ "قرارداد ِ روزگار" متفقہ طور پر منظور ہو گئی ، شرکا نےخوشی سے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور شیخ چلی کی طرح مستقبل کے سہانے خوابوں میں غوطے کھانے لگے