dxbgraphics
محفلین
جناب عالی عراق سے ہتھیار نہیں ملے لیکن پھر بھی امریکہ عراق کی شلوار میں پیر گھسائے بیٹھا ہے نکالتا کیوں نہیں
جناب عالی عراق سے ہتھیار نہیں ملے لیکن پھر بھی امریکہ عراق کی شلوار میں پیر گھسائے بیٹھا ہے نکالتا کیوں نہیں
ایک تو ہر ملک پر چڑھ دوڑتے ہیں اور جب لوگ دفاع کریںتو انکو دہشت گرد کہہ کر انہی کے لوگوں کو انکے خلاف تربیت دیتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اہم مشنز ميں معاونت اور اہم سول اور فوجی ٹارگٹس کو تحفظ فراہم کيا جائے گا۔
ایک تو ہر ملک پر چڑھ دوڑتے ہیں اور جب لوگ دفاع کریںتو انکو دہشت گرد کہہ کر انہی کے لوگوں کو انکے خلاف تربیت دیتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
آپکے کا کہنا ہے کہ عراق ميں تشدد کی کاروائياں "غير ملکی جارحيت" کے خلاف مسلح جدوجہد ہے۔ اگر يہ بات درست ہوتی تو يہ "جدوجہد" صرف مسلح افواج کے خلاف ہوتی، ليکن ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ دہشت گردی کی زيادہ تر کاروائياں دانستہ طور پر معصوم اور بے گناہ شہريوں پر مرکوز ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ عراقيوں کی اکثريت ان گروپوں کی حمايت نہيں کرتی۔
اس وقت عراق امدادی تنظيموں کے خلاف سب سے زيادہ پرتشدد کاروائيوں کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صرف 2007 ميں ايسی تنظيموں پر 51 حملے کيے گئے۔
دنيا بھر ميں امدادی تنظيموں پر براہراست حملہ اس ملک کی آبادی پر حملہ تصور کيا جاتا ہے کيونکہ يہ تنظيميں کسی مسلح کاروائ ميں ملوث نہيں ہوتيں بلکہ مقامی لوگوں کی مدد کر رہی ہوتی ہيں۔ انتہا پسند گروپوں کی جانب سے جاری يہ کاروائياں کسی جارح فوج کے خلاف مقدس جدوجہد کا حصہ نہيں بلکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے ہے۔
الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے ذريعے 100 سے بے گناہ عراقی شہريوں کا قتل اورعراقی عوام کے خلاف دہشت گردی کی ايسی ہی سينکڑوں کاروائياں کس "مسلح فوج" کے خلاف ہيں؟
اعداد وشمار سے يہ واضح ہے کہ ان انتہا پسند گروپوں کی دانستہ حکمت عملی يہی ہے کہ عام شہريوں پر تشدد کی کاروائيوں کے ذريعے اپنے اثر ورسوخ ميں اضافہ کيا جائے۔
پچھلے چند ہفتوں اور مہينوں کے دوران بازاروں، مذہبی اجتماعات اور درس گاہوں ميں خودکش حملے کے واقعات عراق کو آزاد کرانے کی جدوجہد کا حصہ ہيں؟ ايسے سينکڑوں واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔
اپنی تمام تر کمزوريوں، خاميوں اور مسائل کے باوجود اس وقت عراق ميں کئ ملين ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت موجود ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود عراق کا نظام چلا رہی ہے۔ يہ حکومتی نظام تمام تر چيلنجز کے باوجود صدام کے دور حکومت سے بہتر ہے۔ عراق کا مستقبل اسی حکومتی ڈھانچے کی کاميابی سے وابستہ ہے جس ميں يقينی طور پر بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان دہشت گرد گروپوں کی کاروائياں اس حکومتی نظام کو کمزور کر رہی ہيں تاکہ اپنا نظام قائم کر سکيں۔
يہاں ميں آپ کو گزشتہ چند برسوں کے حوالے سے کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں جن سے آپ کو يہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان "مزاحمتی گروپوں" کا اصل ہدف کون ہے۔
http://www.cnn.com/2003/world/meast/08/19/sprj.irq.main/index.html
http://www.cnn.com/2008/world/meast/08/08/iraq.main/
http://www.pbs.org/newshour/updates/middle_east/jan-june08/iraq_06-17.html
http://www.outsidethebeltway.com/archives/2008/07/at_least_53_dead_in_suicide_bombing_attacks
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
امریکہ جن وسائل سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ اسمیں زیادہ تر مسلمان ممالک پر ناجائز قبضوں سے حاصل ہونے والے قدرتی وسائل ہیں۔ گو کہ فواد صاحب کے گرافس اس بات کو اسپورٹ نہیںکرتے۔ بہرحال حقیقت کبھی بھی عوام کے سامنے نہیںلائی جاتی۔ جو لوگ امریکہ کی دجالی قوتوں سے مفاہمت کی باتیںکرتے ہیں۔ وہ خود اپنی ہار کا اقرار کر چکے ہیں!اس وقت مسلمان کسی قسم کی مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اب اگر طاقت نہیں ہے تو کوشش کی جائے کہ تصادم کی فضا نہ پیدا ہو ۔ آپ حالات میں خرابی پیدا نہ ہونے دیں ۔ آپ ہر قیمت پر امن خریدیں ۔ تاکہ اپنے اندر طاقت اور قوت پیدا کرسکیں ۔ بصورتِ دیگر یہ تو ایسا ہوگا کہ جرم ِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات ۔ اگر طاقت نہیں ہے تو پھر آپ خودکشی کریں گے ۔
"ہم نے اپنی افواج صدام حسين کی حکومت ختم کرنے کے ليے عراق بجھوائ تھيں اور آپ نے يہ مشن مکمل کر ليا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
پہلے تو ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے کہ عراق میں خطرناک کیمیائی ہتھیار ہیں اب اچانک ٹائٹل چینج ہوگیا۔ کیا کھلی منافقت نہیں ہے
عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے حوالے سے آپ نے جو سوال کيا ہے اس ضمن ميں امريکی حکومت نے متعدد بار يہ واضح کيا ہے کہ امريکی افواج کا عراق ميں غير معينہ مدت تک رہنے کا کوئ ارادہ نہيں ہے۔ امريکی اور عراقی حکومتوں کے مابين امريکی برگيڈز کی عراق سے واپسی کا ٹائم ٹيبل طے پا چکا ہے۔ اگست 31 2010 تک امريکی افواج کا عراق ميں "کامبيٹ مشن" ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد يہ ذمہ داری عراق کی سيکورٹی فورسز کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس تاريخ کے بعد امريکی افواج کی عراق ميں موجودگی کے تين مقاصد ہوں گے جس ميں اولين ترجيح عراقی سيکورٹی فورسز کو تربيت اور سازوسامان کی فراہمی کو دی جائے گی۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف اہم مشنز ميں معاونت اور اہم سول اور فوجی ٹارگٹس کو تحفظ فراہم کيا جائے گا۔ صدر اوبامہ "اسٹيٹس آف فورسز" معاہدے کے تحت سال 2011 کے اختتام تک تمام امريکی افواج کی عراق سے واپسی کے عزم پر قائم ہيں۔
اس ضمن ميں حال ہی ميں امريکی فوجيوں سے اپنے خطاب ميں انھوں کہا کہ
"ميں يہ بالکل واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ اگست 31 2010 تک ہمارا عراق ميں کامبيٹ مشن ختم ہو جائے گا"۔
"ہم نے اپنی افواج صدام حسين کی حکومت ختم کرنے کے ليے عراق بجھوائ تھيں اور آپ نے يہ مشن مکمل کر ليا ہے۔ ہم نے اپنی افواج کوعراق ميں رکھنے کا فيصلہ ايک خود مختار حکومت کے قيام کے مقصد کو حاصل کرنے کے ليئے کيا۔ اور آپ نے يہ مقصد حاصل کر ليا ہے۔ ہم عراقی عوام کو ايک سخت جدوجہد کے بعد ايک بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر کے جائيں گے، اور يہ آپ لوگوں کی کاميابی ہے۔ آپ نے اس امکان کا موقع فراہم کيا ہے"۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
امریکہ جن وسائل سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ اسمیں زیادہ تر مسلمان ممالک پر ناجائز قبضوں سے حاصل ہونے والے قدرتی وسائل ہیں۔
جبھی تیس ہزار فوجیوں کو روز گار کیلئے افغانستان روانہ کر دیا، اوبامہ جی نے۔ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے
خود امریکہ بغیر اپنی عوام کی مرضی کے فری میسنری کا آلہ کار بنتے ہوئے دنیا میں قتل غارت کر رہا ہے وہ تو کسی بھی روشن خیال کو نظر نہیںآتا۔امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے عمومی تاثر اور نظريات کی بنياد پر يک طرفہ سوچ کا اظہار يقينی طور پر سہل ہے
کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق سے لوٹے ہوئے وسائل کی بدولت معاشی ترقی کے عروج پر ہے؟
لیکن امریکہ کی جنگ کی قیمت صرف اور صرف پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ ہماری معیشت امریکہ کی جنگ کی قیمت میں تباہ و برباد ہوگئی ہے۔ليکن موجودہ دور ميں ہر ملک کو معاشرتی، سياسی اور معاشی فرنٹ پر جنگ کی قيمت چکانا پڑتی ہے
منافقت ہے ۔ اگر نفی اثرات کا احساس ہوتا تو تیس ہزار مزید فوج بھیجنے کی بجائے باقی کو بلوالیتا ۔صدر اوبامہ نے امريکی فوجيوں سے اپنے حاليہ خطاب ميں جنگ کے حوالے سے درپيش چيلنجز اور منفی اثرات کے حوالے سے ہی اظہار خيال کيا تھا
جو کہ آنے کا اصل مقصد ہے۔ صرف اور صرف پاکستانیوں کی اور افغانیوں کی زندگیہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے
جب اپنے ملک کی سیکیورٹی اتنی ٹائٹ کر دی ہے تو اب کیا بچا ہے نکلو عراق و افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بے کار مرنے سے بچاو۔ پھر کہیں بھی رہنے کا جواز ہی نہیں بنتا ۔ اپنی سرحدوں اور اندر کو مضبوط بناو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا
2001 سے پہلے نہیں، 2000 سے پہلے!لیکن 2001 سے پہلے پاکستان معاشی ترقی کی طرف گامزن تھا جو کہ امریکہ کے ناپاک قدم پڑنے سے دن بدن کمزور ہورہی ہے۔
آپ کی یک طرف پالیسی کے تحت ہمارے بے غیرت حکمرانوں کو بھی ننگا ہونے پڑے گا ایئر پورٹ میں یہ بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آتا۔
پاکستان صف اول کا اتحادی ہونے کے باوجود اس کی عوام کو برہنہ سیکیورٹی پراسس سے گذرنا یہ منافقت بھی کسی روشن خیال کو نظر نہیں آئے گی۔
آپ جن جذبات کا اظہار کر رہے ہيں ان کی بنياد مبہم اور غلط اخباری شہ سرخياں اور بعض افراد کی جانب سے ميڈيا پر کيے جانے والے يک طرفہ تبصرے ہيں۔
ٹی – ايس – اے نے ائرپورٹ سيکورٹی کے حوالے سے جو اصل بيان جاری کيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.tsa.gov/press/happenings/010310_statement.shtm
يہ بالکل واضح ہے کہ امريکی حکام کا مقصد اور ان کا ارادہ تمام مسافروں کے تحفظ کو يقينی بنانا ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کا مذہب يا شہريت کيا ہے، اور اس ميں پاکستانی مسافر بھی شامل ہيں۔ ميں يہ نشاندہی بھی کرنا چاہوں گا کہ اس بيان ميں پاکستان سميت کسی ملک کا نام شامل نہيں ہے۔ اصل ايشو تمام ممکنہ وسائل اور اينٹيلی جينس کو بروئے کار لا کر جرم کو روکنا ہے نا کہ کسی مخصوص ملک کے شہريوں کو نشانہ بنانا۔ سيکورٹی کے حوالے سے نئے قواعد وضوابط کا مقصد دہشت گردی کے اس ممکنہ خطرے سے نبرد آزما ہونا ہے جو محض خام خيالی نہيں بلکہ ايک واضح حقيقت ہے جسے نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔
يہ نقطہ قابل توجہ ہے کہ جب کوئ دہشت گرد اپنے مذموم ارادے کی تکميل کے لیے جہاز ميں سوار ہوتا ہے تو وہ مذہب يا شہريت کی بنياد پر اپنے ٹارگٹ کا انتخاب نہيں کرتا۔ اس تناظر ميں دہشت گردی کی کاروائ کو روکنے کے ليے جو بھی قواعد وضوابط طے کيے جائيں گے اس کا براہ راست فائدہ جہاز ميں موجود تمام مسافروں کو ہو گا جن ميں پاکستانی اور مسلمان بھی شامل ہوں گے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov