الله تعالی آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان۔الانفال۔۲۴

ام اویس

محفلین
اس آیت کی جو تفاسیر بیان کی گئی ہیں مجھے ان میں سے جو سب سے اچھی طرح سمجھ آئی وہ مفتی شفیع صاحب کی ہے الله کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔ معارف القرآن میں لکھتے ہیں۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ، یعنی یہ بات سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان۔
اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں میں عظیم حکمت و موعظت پائی جاتی ہے جو ہر انسان کو ہر وقت یاد رکھنی چاہئے۔-
ایک معنی تو یہ ہوسکتے ہیں کہ جب کسی نیک کام کے کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو۔ دیر نہ کرو اور اس فرصت وقت کو غنیمت سمجھو کیونکہ بعض اوقات آدمی کے ارادہ کے درمیان قضاء الہی حائل ہوجاتی ہے وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کوئی بیماری پیش آجائے یا موت آجائے یا کوئی ایسا مشغلہ پیش آجائے کہ اس کام کی فرصت نہ ملے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ فرصت عمر اور فرصت وقت کو غنیمت سمجھ کر آج کا کام کل پر نہ ڈالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہونا ہے -
من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش
ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش -

اور دوسرا مطلب اس جملہ کا یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے نہایت قریب ہونا بتلایا گیا
جیسے دوسری آیت میں
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ

میں اللہ تعالیٰ کا انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہونے کا بیان ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کا قلب ہر وقت حق تعالیٰ کے خاص تصرف میں ہے جب وہ کسی بندے کی برائیوں سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے قلب اور گناہوں کے درمیان آڑ کردیتے ہیں اور جب کسی کی بدبختی مقدر ہوتی ہے تو اس کے دل اور نیک کاموں کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے۔
اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعاؤں میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک،
یعنی اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھئے۔
حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں دیر نہ لگاؤ اور فرصت وقت کو غنیمت جان کر فورا کر گزرو معلوم نہیں کہ پھر دل میں نیکی کا یہ جذبہ اور امنگ باقی رہتی ہے یا نہیں۔
 

ام اویس

محفلین
من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش
ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش

اس شعر کا معنی و مفہوم کیا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش
ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش
میں نہیں کہتا کہ نقصان کر یا فائدے کی فکر میں رہ ۔
اے موقع سے بیخبر ! جو کچھ کرنا ہے جلد کر گزر ۔
اس شعر میں شاعر عمل خیر میں تردد پر تنبیہہ کا اشاارہ دیتا ہے یعنی کہ بھلائی کے کام میں پس و پیش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ جلد از جلد غنیمت جان کر عمل خیر کو انجام دینا چاہیئے مبادا کہ عمل کا موقع ہی ہاتھ سے نکل جائے ، اور کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو ۔
 

سیما علی

لائبریرین
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعاؤں میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک،
یعنی اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھئے۔
آمین الہی آمین !!!!!!!!
 

ام اویس

محفلین
کیا آپ باقی تفاسیر جو آپ کے ذوق نظر کے مطابق نہیں، یہاں درج کرسکتی ہیں
یہ بہت اہم آیت ہے

استغفر الله ! میں کیا اور میرا ذوقِ نظر کیا ۔۔۔ مجھے سمجھ آئی
ہوسکتا ہے میری سمجھ ہی محدود ہو ۔

تدبر قرآن میں امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں۔

ایک نہایت ہی سخت تنبیہ : وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ، یہ تنبیہ ہے اور بڑی ہی سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی دعوت خیر بالخصوص پیغمبر کی حیات بخش دعوت کی قدر نہیں کرتے بلکہ گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ فرمایا کہ یادرکھو، جو لوگ یہ روش اختیار کرتے ہیں ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان خدا حائل ہوجایا کرتا ہے۔ خدا کے حائل ہونے سے مراد یہاں خدا کے قانون کا حائل ہوجانا ہے۔ اس کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات میں ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ جو باتیں خدا کے قانون اور اس کی مقررہ سنت کے تحت ظہور میں آتی ہیں، بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کو براہ راست اپنے فعل کی حیثیت سے تعبیر فرماتا ہے۔ ختم اللہ علی قلوبہم کے تحت یہ بحث تفصیل سے گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے دل پھر ایسے عنان گسیختہ اور بےقابو ہوجاتے ہیں کہ وہ ان کو کسی طرح بھی قابو میں نہیں لا سکتے۔ انسان کا دل جب برائیوں کے پیچھے لگتا ہے تو ایک خاص حد تک تو اس کا حال یہ رہتا ہے کہ انسان اگر متنبہ ہوجائے اور اس کو روکنا چاہے تو روک سکتا ہے اور اس کو اصلاح کی راہ پر لگا سکتا ہے لیکن جب اس حد سے دل آگے بڑھ گیا اور انسان کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس کو لگام دے تو پھر نہ آدمی کا ہاتھ باگ پر رہ جاتا ہے نہ پاؤں رکاب میں بلکہ وہ دل کے ہاتھوں بےبس ہوجاتا ہے، نبی کی دعوت، جیسا کہ اوپر گزرا، آنکھوں، کانوں اور دلوں کو کھولنے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر دعوت ہوتی ہے اس وجہ سے جو لوگ اس دعوت سے اپنے کان بند کرلیں وہ خدا کے اس قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ جس کو قرآن نے ختم قلوب یا رین کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہاں قرآن نے کمزور اور منافق قسم کے لوگوں کو اسی چیز سے ڈرایا ہے کہ ابھی فرصت باقی ہے۔ سنبھلنا چاہو تو سنبھل سکتے ہو، نہ سنبھلے، اسی طرح اپنی بیماریوں کی پرورش کرتے رہے تو پھر تمہارے دل اسی طرح مسخ اور مختوم ہوجائیں گے کہ کوئی صیقل بھی ان پر کارگر نہ ہوسکے گا۔ مزید برآن یہ بات بھی یاد رکھو کہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے خدا کے حضور میں بھی حاضر ہونا ہے۔ اس دن کے احوال و نتائج کو بھی سوچ لو۔
 

ام اویس

محفلین
تفہیم القرآن
ابو الاعلی مودودی صاحب رحمہ اللہ

نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کے ذہن نشین ہوجائیں۔ ایک یہ کہ معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا رازدان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں، جو خواہشیں، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال خدا کے سامنے ہے۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے۔ یہ وہ عقیدے ہیں کہ جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
استغفر الله ! میں کیا اور میرا ذوقِ نظر کیا ۔۔۔ مجھے سمجھ آئی
ہوسکتا ہے میری سمجھ ہی محدود ہو ۔

تدبر قرآن میں امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں۔

ایک نہایت ہی سخت تنبیہ : وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ، یہ تنبیہ ہے اور بڑی ہی سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی دعوت خیر بالخصوص پیغمبر کی حیات بخش دعوت کی قدر نہیں کرتے بلکہ گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ فرمایا کہ یادرکھو، جو لوگ یہ روش اختیار کرتے ہیں ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان خدا حائل ہوجایا کرتا ہے۔ خدا کے حائل ہونے سے مراد یہاں خدا کے قانون کا حائل ہوجانا ہے۔ اس کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات میں ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ جو باتیں خدا کے قانون اور اس کی مقررہ سنت کے تحت ظہور میں آتی ہیں، بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کو براہ راست اپنے فعل کی حیثیت سے تعبیر فرماتا ہے۔ ختم اللہ علی قلوبہم کے تحت یہ بحث تفصیل سے گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے دل پھر ایسے عنان گسیختہ اور بےقابو ہوجاتے ہیں کہ وہ ان کو کسی طرح بھی قابو میں نہیں لا سکتے۔ انسان کا دل جب برائیوں کے پیچھے لگتا ہے تو ایک خاص حد تک تو اس کا حال یہ رہتا ہے کہ انسان اگر متنبہ ہوجائے اور اس کو روکنا چاہے تو روک سکتا ہے اور اس کو اصلاح کی راہ پر لگا سکتا ہے لیکن جب اس حد سے دل آگے بڑھ گیا اور انسان کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس کو لگام دے تو پھر نہ آدمی کا ہاتھ باگ پر رہ جاتا ہے نہ پاؤں رکاب میں بلکہ وہ دل کے ہاتھوں بےبس ہوجاتا ہے، نبی کی دعوت، جیسا کہ اوپر گزرا، آنکھوں، کانوں اور دلوں کو کھولنے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر دعوت ہوتی ہے اس وجہ سے جو لوگ اس دعوت سے اپنے کان بند کرلیں وہ خدا کے اس قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ جس کو قرآن نے ختم قلوب یا رین کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہاں قرآن نے کمزور اور منافق قسم کے لوگوں کو اسی چیز سے ڈرایا ہے کہ ابھی فرصت باقی ہے۔ سنبھلنا چاہو تو سنبھل سکتے ہو، نہ سنبھلے، اسی طرح اپنی بیماریوں کی پرورش کرتے رہے تو پھر تمہارے دل اسی طرح مسخ اور مختوم ہوجائیں گے کہ کوئی صیقل بھی ان پر کارگر نہ ہوسکے گا۔ مزید برآن یہ بات بھی یاد رکھو کہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے خدا کے حضور میں بھی حاضر ہونا ہے۔ اس دن کے احوال و نتائج کو بھی سوچ لو۔
مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر مفتی شفیع کی تفسیر سے بالکل مختلف ہے۔
اصلاحی صاحب کے اصول تفسیر میں نظمِ قرآن اور تاویلِ واحد کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اس مقام پر اگر اصلاحی صاحب نے دوسرے مفسرین کی آرا پر نقد کیا ہو تو دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
ابن کثیر

اللہ انسان اور اس کے دل میں حائل ہے۔ یعنی مومن میں اور کفر میں کافر میں اور ایمان میں۔ یہ معنی ایک مرفوع حدیث میں بھی ہیں لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ قول ابن عباس کا ہے مرفوع حدیث نہیں۔ مجاہد کہتے ہیں یعنی اسے اس حال میں چھوڑنا ہے کہ وہ کسی چیز کو سمجھتا نہیں۔
سدی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ایمان لاسکے نہ کفر کرسکے۔
قتادہ کہتے ہیں یہ آیت مثل آیت (وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ 16؀) 50۔ ق :16) کے ہے یعنی بندے کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہم ہیں۔
اس آیت کے مناسب حدیثیں بھی ہیں۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ تو ہم نے عرض کی یارسول اللہ ہم آپ پر اور آپ پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لا چکے ہیں کیا پھر بھی آپ کو ہماری نسبت خطرہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان دل ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کا تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے۔
ترمذی میں بھی یہ روایت کتاب القدر میں موجود ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور یہ دعا پڑھا کرتے تھے دعا (با مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک) اے دلوں کے پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھ۔
مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں ہر دل اللہ تعالیٰ رب العالمین کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب سیدھا کرنا چاہتا ہے کردیتا ہے اور جب ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے کردیتا ہے، آپ کی دعا تھی کہ اے مقلب القلوب اللہ میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ، فرماتے ہیں میزان رب رحمان کے ہاتھ میں ہے، جھکاتا ہے اور اونچی کرتا ہے،
مسند کی اور حدیث میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو اکثر سن کر حضرت مائی عائشہ ؓ نے آپ سے پوچھا کہ بکثرت اس دعا کے کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا انسان کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہتا ہے ٹیڑھا کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے سیدھا کردیتا ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو بکثرت سن کر حضرت ام سلمہ ؓ نے آپ سے پوچھا کہ کیا دل پلٹ جاتے ہیں ؟ آپ نے یہی جواب دیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہدایت کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت و نعمت عطا فرمائے وہ بڑی ہی بخشش کرنے والا اور بہت انعاموں والا یہ۔
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں میں نے حضور سے پھر درخواست کی کہ کیا آپ مجھے میرے لئے بھی کوئی دعا سکھائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ دعا مانگا کرو دعا (اللھم رب النبی محمد اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن ما احییتنی) یعنی اے اللہ اسے محمد نبی ﷺ کے پروردگار میرے گناہ معاف فرما میرے دل کی سختی دور کر دے مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بجا لے جب تک بھی تو مجھے زندہ رکھ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمام انسانوں کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے پھر آپ نے دعا کی کہ اے دلوں کے پھیر نے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر لے۔
 

ام اویس

محفلین
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
الانفال: 24
اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ۔ اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔
۔۔۔۔۔
اس مختصر جملے میں بڑی عظیم حقیقت بیان فرمائی گئی ہے، اول تو اسلام کی دعوت اور اس کے احکام ایسے ہیں کہ اگر ان پر تمام انسان پوری طرح عمل کرنے لگیں تو اسی دنیا میں وہ پر سکون زندگی کی ضمانت دیتے ہیں، عبادات کے علاوہ جو روحانی سکون کا بہترین ذریعہ ہیں، اسلام کے تمام معاشرتی معاشی اور سیاسی احکام دنیا کو نہایت خوشگوار زندگی فراہم کرسکتے ہیں، دوسری طرف زندگی تو اصل میں آخرت کی ابدی زندگی ہے، اور اس کی خوشگواری تمام تر اسلامی احکام کی پیروی پر موقوف ہے، لہذا اگر کسی کو اسلام کا کوئی حکم مشکل بھی محسوس ہو تو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ میری خوشگوار زندگی کا دارومدار اس پر ہے، جس طرح انسان زندگی کے خاطر بڑے سے بڑے اور مشکل آپریشن کو منظور کرلیتا ہے اسی طری شریعت کا ہر وہ حکم جس میں محنت یا مشقت معلوم ہوتی ہے یا نفسانی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہو اس کو بھی خندہ پیشانی سے منظور کرنا چاہیے ؛ کیونکہ اس کی حقیقی زندگی کا دارومدار اس پر ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے اگر اس کے دل میں کبھی گناہ کا تقاضا پیدا ہو، اور وہ طالب حق کی طرح اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور گناہ کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں اور وہ گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اسے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، اسی طرح اگر کسی کے دل میں حق کی طلب نہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرتا ہو تو اگر کبھی اس کے دل میں نیک خیال آبھی جائے اور وہ اسے ٹلا تا چلا جائے تو اسے نیکی کی توفیق نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ اسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس کے دل میں جو خیال آیا تھا وہ کمزور پڑجاتا ہے اس پر عمل کا موقع نہیں ملتا، اسی لئے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس کسی نیکی کا خیال آئے تو اسے فوراً کر گزرنا چاہیے، ٹلانا خطرناک ہے۔
آسان قرآن۔ مفتی تقی عثمانی
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر مفتی شفیع کی تفسیر سے بالکل مختلف ہے۔
اصلاحی صاحب کے اصول تفسیر میں نظمِ قرآن اور تاویلِ واحد کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اس مقام پر اگر اصلاحی صاحب نے دوسرے مفسرین کی آرا پر نقد کیا ہو تو دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

ختم اللہ علی قلوبہم کے تحت جو بحث ہے اس سے منتخب و متعلق پیش ہے۔
۔۔۔۔
ختم قلوب کی جو حقیقت ہم نے بیان کی ہے اس کی وہی حقیقت احادیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ ہم طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک حدیث پر یہاں اکتفا کرتے ہیں۔

" ان المومن اذا اذنب کا نت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب و نزع واستعتب صقل قلبہ وان زادت حتی تعلو قلبہ فذلک الوان الذی قال اللہ تعالیٰ کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون" (ابن کثیر بحوالہ ترمذی)

(مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے سبب سے اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے، اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کا وہ دھبہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ رین ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کلا بل ران علی قلوبہم ماکانوا یکسبون۔ (ہر گز نہیں ! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی چھا گئی ہے )۔

سلف صالحین کے نزدیک بھی ختم قلوب کی یہی حقیقت ہے۔ ابن کثیر نے اعمش کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اعمش کہتے ہیں کہ مجاہد نے ایک مرتبہ ہمیں سمجھایا کہ سلف (صحابہ) دل کو اس ہتھیلی کے مانند سمجھتے تھے۔ جب آدمی کسی گناہ میں آلودہ ہوتا ہے تو (انہوں نے اپنی انگلی سکیڑتے ہوئے سمجھایا) دل اس طرح سکڑ جاتا ہے۔ پھر جب مزید گناہ کرتا ہے تو (دوسری انگلی کو سکیڑتے ہوئے بتایا) دل اس طرح بھنچ جاتا ہے اسی طرح تیسری انگلی کو سکیڑا۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام انگلیوں کو سکیڑ لیا۔ پھر فرمایا کہ جب دل گناہوں کے غلبہ سے اس طرح بھنچ جاتا ہے تو اس پر مہر کردی جاتی ہے۔ مجاہد نے بتایا کہ سلف (صحابہ) اسی چیز کو وہ رین قرار دیتے تھے جس کا ذکر "کلا بل ران علی قلوبہم الایۃ" میں آیا ہے ۔

ختم قلوب کی اصل حقیقت واضح ہوجانے کے بعد ہمیں جبر و اختیار کی اس بحث میں پڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہی جو اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان برپا ہے اور جس میں یہ حضرات بے ضرورت اس آیت کو بھی گھسیٹ لے گئے ہیں۔

قرآن مجید نہ تو اس جبر ہی کے حق میں ہے جس کے مدعی اشاعرہ ہیں اور نہ اس اختیار ہی کے حق میں ہے جس کے علم بردار معتزلہ ہیں بلکہ حق ان دونوں کے درمیان ہے۔ لیکن یہ مقام اس مسئلہ کی تفصیلات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہم صرف چند اصولی باتیں یہاں بیان کیے دیتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے ان شاء اللہ کفایت کریں گی جو اس مسئلہ پر ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر صرف علمی ذہن کے ساتھ غور کریں گے۔ یہ اصولی باتیں مندرجہ ذیل ہیں :۔

1۔ مبداء فطرت سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، اس کو نیکی وبدی کا امتیاز بخشا ہے اور ان میں سے جس کو بھی وہ اختیار کرنا چاہے اس کو اختیار کرنے کی اس کو آزادی دی ہے۔ اس کے بعد اس کا نیک یا بد بننا اس کے اپنے رویہ اور توفیق الٰہی پر منحصر ہے۔ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق بخشتا ہے اور اگر وہ بدی کی راہ پر جانا چاہتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ، اگر چاہتا ہے، بدی کی راہ پر جانے کے لیے بھی چھوڑ دیتا ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ جن چیزوں پر انسان کا مواخذہ کرے گا یا جن پر اس کو اجر دے گا ان کے لیے اس نے انسان کو اختیار وارادہ کی آزادی بھی بخشی ہے۔ جو لوگ اس اختیار وارادہ کے حامل نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مواخذہ سے بھی بری رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے اور اس کا استعمال بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کے تحت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت انسان کے جس ارادہ کو چاہے پورا نہ ہونے دے البتہ اگر وہ اپنی کسی حکمت کے تحت اس کے کسی نیکی کے ارادہ کو پورا نہیں ہونے دیتا تو اس نیکی کے اجر سے اس کو محروم نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر اس کی کسی بدی کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے اخروی خمیازہ سے بھی لازما اس کو بری قرار دے دے۔

3۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی مطلق مشیت کا بیان ہوا ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کی مشیت کو اس کے سوا کوئی دوسرا روک یا بدل نہیں سکتا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی مشیت سرے سے کسی عدل و حکمت کی پابند ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عادل اور حکیم ہے، اس کا کوئی کام بھی عدل اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس وجہ سے جہاں کہیں بھی اس نے اپنی مشیت کو بیان فرمایا ہے اس کو اس قانون عدل و حکمت ہی کے تحت سمجھنا چاہیے جس کے تحت اس نے اس دنیا کے نظم کو چلانا پسند فرمایا ہے۔ یہ خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اپنی جو سنت اس نے خود جاری کی ہے اور جس قانونِ عدل کو اس نے خود پسند فرمایا ہے اپنی مشیت کے زور سے خود ہی اس کو توڑے گا۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس پر ہدایت و ضلالت کے لیے اس نے عدل و حکمت کا کوئی ضابطہ سرے سے مقرر ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ہدایت و ضلالت اس سنت کے مطابق واقع ہوتی ہے جو اس نے ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھی ہے اور کوئی دوسرا اس سنت کے توڑنے یا بدلنے پر قادر نہیں ہے۔

4۔ قرآن مجید میں بعض افعال اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمائے ہیں لیکن ان سے اصل مقصود، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، ان افعال کی نسبت نہیں ہے بلکہ ان ضابطوں اور ان قوانین کی نسبت ہے جن کے تحت وہ افعال واقع ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ ضابطے اور قاعدے خود اللہ تعالیٰ ہی کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اس وجہ سے کہیں کہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تحت واقع ہونے والے افعال کو بھی اپنی طرف منسوب کردیا ہے۔ مثلاً فرمایا ہے" فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبہم" (جب وہ کج ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل کج کردئیے)۔ یا فرمایا ہے " ونقلب افئدتہم وابصارہم" (اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیتے ہیں)۔ اس طرح کے مواقع پر عموماً قرآن مجید میں وہ اصول بھی بیان کردیا جاتا ہے جس کے تحت وہ فعل واقع ہوتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کوئی بات کہہ دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں گمراہ کرتا مگر فاسقوں کو۔ ان اشارات کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ قاری اصل حقیقت کی طرف متوجہ ہوجائے اور ظاہر الفاظ سے کسی مغالطہ میں نہ پڑجائے۔

5۔ اللہ تعالیٰ کا ازلی و ابدی اور محیط کل علم، اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سنتوں میں سے کسی سنت کی نفی نہیں کرتا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کے متعلق ازل سے یہ جانتا ہے کہ وہ ہدایت کی راہ اختیار کرے گا یا ضلالت کی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ ہدایت یا ضلالت کو اسی سنت اللہ کے مطابق اختیار کرے گا جو ہدایت و ضلالت کے لیے اس نے مقرر کر رکھی ہے۔ ان اصولی باتوں کو جو شخص پیش نظر رکھے گا وہ انشاء اللہ ان بہت سی الجھنوں سے آپ سے آپ نکل جائے گا جو جبر و اختیار کے معاملہ میں قرآن مجید کی پیدا کردہ نہیں بلکہ متکلمین کی موشگافیوں کی پیدا کردہ ہیں ۔
 
Top