ام اویس
محفلین
اس آیت کی جو تفاسیر بیان کی گئی ہیں مجھے ان میں سے جو سب سے اچھی طرح سمجھ آئی وہ مفتی شفیع صاحب کی ہے الله کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔ معارف القرآن میں لکھتے ہیں۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ، یعنی یہ بات سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان۔
اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں میں عظیم حکمت و موعظت پائی جاتی ہے جو ہر انسان کو ہر وقت یاد رکھنی چاہئے۔-
ایک معنی تو یہ ہوسکتے ہیں کہ جب کسی نیک کام کے کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو۔ دیر نہ کرو اور اس فرصت وقت کو غنیمت سمجھو کیونکہ بعض اوقات آدمی کے ارادہ کے درمیان قضاء الہی حائل ہوجاتی ہے وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کوئی بیماری پیش آجائے یا موت آجائے یا کوئی ایسا مشغلہ پیش آجائے کہ اس کام کی فرصت نہ ملے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ فرصت عمر اور فرصت وقت کو غنیمت سمجھ کر آج کا کام کل پر نہ ڈالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہونا ہے -
من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش
ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش -
اور دوسرا مطلب اس جملہ کا یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے نہایت قریب ہونا بتلایا گیا
جیسے دوسری آیت میں
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ
میں اللہ تعالیٰ کا انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہونے کا بیان ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کا قلب ہر وقت حق تعالیٰ کے خاص تصرف میں ہے جب وہ کسی بندے کی برائیوں سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے قلب اور گناہوں کے درمیان آڑ کردیتے ہیں اور جب کسی کی بدبختی مقدر ہوتی ہے تو اس کے دل اور نیک کاموں کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے۔
اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعاؤں میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک،
یعنی اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھئے۔
حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں دیر نہ لگاؤ اور فرصت وقت کو غنیمت جان کر فورا کر گزرو معلوم نہیں کہ پھر دل میں نیکی کا یہ جذبہ اور امنگ باقی رہتی ہے یا نہیں۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ، یعنی یہ بات سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان۔
اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں میں عظیم حکمت و موعظت پائی جاتی ہے جو ہر انسان کو ہر وقت یاد رکھنی چاہئے۔-
ایک معنی تو یہ ہوسکتے ہیں کہ جب کسی نیک کام کے کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو۔ دیر نہ کرو اور اس فرصت وقت کو غنیمت سمجھو کیونکہ بعض اوقات آدمی کے ارادہ کے درمیان قضاء الہی حائل ہوجاتی ہے وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کوئی بیماری پیش آجائے یا موت آجائے یا کوئی ایسا مشغلہ پیش آجائے کہ اس کام کی فرصت نہ ملے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ فرصت عمر اور فرصت وقت کو غنیمت سمجھ کر آج کا کام کل پر نہ ڈالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہونا ہے -
من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش
ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش -
اور دوسرا مطلب اس جملہ کا یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے نہایت قریب ہونا بتلایا گیا
جیسے دوسری آیت میں
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ
میں اللہ تعالیٰ کا انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہونے کا بیان ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کا قلب ہر وقت حق تعالیٰ کے خاص تصرف میں ہے جب وہ کسی بندے کی برائیوں سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے قلب اور گناہوں کے درمیان آڑ کردیتے ہیں اور جب کسی کی بدبختی مقدر ہوتی ہے تو اس کے دل اور نیک کاموں کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے۔
اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعاؤں میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔
یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک،
یعنی اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھئے۔
حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں دیر نہ لگاؤ اور فرصت وقت کو غنیمت جان کر فورا کر گزرو معلوم نہیں کہ پھر دل میں نیکی کا یہ جذبہ اور امنگ باقی رہتی ہے یا نہیں۔