رضا
معطل
اللہ تعالٰی تو یا آپ
از: محمد فیض احمد اویسی رضوی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم از: محمد فیض احمد اویسی رضوی
نحمدہ نصلی علے رسولہ الکریم
اللہ تعالٰی پر صیغہ جمع کا اطلاق کرنا کیسا ؟
اما بعد بعض لوگ توحید کے نشہ میں اللہ تعالٰی سے محبت کے اظہار پر ایسی فاحش غلطیاں کر جاتے ہیں جو لنائر سے آگے بڑھ کو شائبہ کفر کی حد میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کا انہیں شعور تک نہیں ہوتا بلکہ اپنے تئیں وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالٰی سے محبت کا حق ادا کر دیا مثلاً مزے لے لے کر اللہ میاں فرماتے ہیں وغیرہ کہتے ہیں ایک اللہ تعالٰی کو میاں کہہ کر گناہ کے مرتب ہوئے دوسرا اللہ تعالٰی پر صیغہ ء جمع اطلاق کر کے توحید کے منافی و بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس رسالہ میں صرف اسی پر بحث ہو گی ( انشا ء اللہ تعالٰی) صیغہ جمع اللہ تعالٰی پر اطلاق اسلاف صالحین نے نہیں کیا۔
اعلٰیحضرت امام اہلسنت شاہ احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ اسے توحید کے منافی سمجھ کر ہمیشہ اپنی تصانیف میں واحد کا صیغہ استعمال فرماتے ہیں بعض لوگ بدعت کی خرابی کی پرواہ کئے بغیر محض امام اہلسنت رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ کے خلاف صیغہ جمع کے اطلاق کو اللہ تعالٰی کی تعظیم کا خیال تصورت کرتے ہیں آئندہ اوراق میں اس کی علمی تحقیق پیش کر کے اہل اسلام سے اپیل کرتا ہوں کہ توحید کو ہر شائبہ شرکت سے منزہ رکھنا ضروری ہے اسی لئے اللہ تعالٰی پر جمع کے صیغہ کے اطلاق سے پرہیز کریں۔
وما علینا الا البلاغ
اما توفیقی الا باللہ العلی العظیم
وصلی اللہ تعالٰی علے حبیبہ الکریم وعلٰی الہ واصحابہ وسلم
مدینے کا بھکاری
الفقیر القادری ابوالصالح محمد فیض احمد اویسی رضوی غفرلہ
23 جمادی الاخر، 1422ھ
مقدمہ
حقیقتہ تعظیم اللہ تعالٰی کے لیے لا حق ہے اسی لئے ہر تعظیم اللہ تعالٰی کوسجتی ہے جانوروں کی تعظیم اس کی عطا کردہ ہے اسی لے صیغہ ءجمع اللہ تعالٰی کے لے بھی تعظیم کی ایک صورت ہے اور اللہ تعالٰی کی تعظیم ہی کانام عبادت ہے اور عبادت تعظیم کی آخری سطح ہے- مفسرین قرآن کے نزدیک عبادت تعظیم ہی کی ایک صورت ہے۔
1) امام فخرالدین رازی کا قول ھے العبادۃ عبادۃ عن الذی یو تی بہ بغرض تعظیم الغیر وھی لا تلیق بمن صدر عنہ غایۃ الانعام (تفسیر کبیر،ج اول) عبادت ایک ایسا فعل ہے، جودوسرے کی تعظیم کے لئے کیا جائے اور صرف اسی کے لئے سزاوارہے، جس سے انتہائی انعام ظاہر ہو-
2) شیخ علی المھائمی کہتے ہیں العبادۃ تذالل للغیر عن اختیار لغایۃ تعظیمہ (تفسیر مہائمی ج اول) عبادت کا مطلب ہے،دوسرےکی تعظیم کے لئے اپنےارادےسےاُس کےآگے پست ہونایاجھکنا۔
3) نیشا پوری کے نزدیک بھی عبادت کا یہی مطلب ہے ان العبا ر۔ۃ عبا۔ۃ عن نھایۃ التعظیم خلا تلیق الامن صدر من غایۃ الانعام وھواللہ تعالٰی ( غرایب القرآن بر حاشیہ ابن جریر، ج اول ) عبادت انتہائی تعظیم سے عبارت ہے، یہ اسی کے لئے سزا وار ہو سکتی ہے، جس سے انتہائی انعام ظاہر ہوا ہو اور ایسی ہستی اللہ تعالٰی ہے عبادت کا تقریبًا یہی مفہوم بعض دوسرے مفسرین کے ہاں بھی آیا ہے۔
اس اعتبار سے سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کی تعظیم نہ ہو لیکن اللہ تعالٰی نے ازراہ کرام اپنی مخلوق کو بھی عبادت کے سوا باقی ہمہ قسم کی تعظیم کی نہ صرف اجازت بخشی ہے بلکہ حکم فرمایا ہے چنانچہ اپنے لئے فرمایا اور اپنے بندوں کے لئے عزت کی خبر دی کہ۔
اللہ العزۃ والرسولہ اللمؤمنین ولکن المنافقین
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے خصوصیت سے اور نہایت سخت تاکید فرمائی ہے۔
انا ارسلناک شاھد و مبشرو نذیر التو منو اباللہ وتعزروہ وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ واصیلا ( 126 الفتح )
اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی ان کی تعریف فرمائی
چناچہ فرمایا۔
فالذین آمنو ابہ و عزروہ ونصروہ واتبعو النور الذی انزل معہ اولیک ھم المفلحون (پ 9 الاعراف نمبر 157)
بلکہ وہ اشیاء تک معظم و مکرم بنا دیں جو اس کے پیارے بندوں سے منسوب ہیں ۔
مثلا فرمایا
ان الصفا و المروۃ من شعار اللہ ( 117 الحج)
پھر ان شعائر کی تعظیم و تکریم کرنے والوں کو خصوصی انعامات سے نوازا اور ان کی تعریف فرمائی چناچہ فرمایا
ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب
اسی لئے اہل اسلام کعبہ معظمہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اس کا طواف کرنا اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا یہاں تک ہزاروں میل دوری کے باوجود اس کی طرف پیٹھ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی طرف منہ کر کے پیشاب وغیرہ کرتے ہیں بلکہ دور سے قبلہ کی طرف تھوکنے والے کے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے سے روک دیا۔ بہر حال اللہ تعالٰی کی تعظیم فرض ہے اور وہ عبادت اس کے سوا اللہ کے مخلوق کی تعظیم بھی ضروری ہے جسے اللہ نے معظم و مکرم بنایا ہے افسوس نام نہاد توحید پرستوں پر کہ انہوں نے محبوبان خدا کی تعظیم و تکریم کو شرک کے فتوے جڑ دئیے اور اس غلط توحید میں ایسے غرق ہو گئے جو امور اہل اسلام کو ضروری تھے انہیں بھی صاحبان نے شرک کر کے فتویٰ سے نوازا۔ اس کے آگے بڑھے توحید کے نشہ میں بعض موہم شرک باتوں کو توحید بنا دیا مثلاً اللہ وحدہ لاشریک ہے اس کے لئے لا شعوری میں تعظیم کی نیت پر اس کے کئی شریک ملا دئے میری مراد یہ ہے کہ اپنی روزمرہ کی استعمالات میں اللہ تعالٰی پر صیغہ جمع استعمال کرنا شروع کر دیا مثلاً اللہ تعالٰی فرماتے ہیں وغیرہ یہ اگر چہ حقیقی شرک نہیں لیکن شرک کی بو ضرور آتی ہے اسی لیے اللہ کے لیے اپنی استعمالات میں صیغہ واحد لانا چاہئے اور صیغہ جمع سے بچنا لازمی ہے چند دلائل حاضر ہیں۔
دلائل :
اپنی روز مرہ کی زندگی میں جب ہم کسی شخص کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں تو ہر طریقہ سے اس کی تعظیم کرنا ضروری سمجھتے ہیں ایک طریقہ علمی تعظیم کا ہے اس کے احکام کی تعمیل کرنے کے علاوہ ہر ایسی حرکت سے اجتناب کرتے ہیں جسے نافرمانی پر محمول کیا جا سکے- دوسرا طریقہ تعظیم باللسان کا ہے کہ جب اسے مخاطب کیا جائے یا اس کا غائبانہ ذکر کیا جائے تو ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جائے اس صورت میں ہم جمع تعظیمی کے صیغہ استعمال کرتے ہیں، جیسے آپ کب تشریف لائیں گے، انہوں نے جھوٹ بولنے سے منع کیا، مولانا فرماتے ہیں وغیرہ-
1- اللہ تعالٰی کی عملی تعظیم کی صورت تو یہی ہو گی کہ اس کے احکام بجا لائے جائیں لیکن باللسان کی وہ صورت نہیں ہو گی جو انسانوں کے لئے روارکھی جاتی ہے یہاں جمع تعظیمی کا استعمال جائز نہیں کیوں کہ جمع تعظیمی کہ معنی بھی پہنائے جا سکتے ہیں، اور عقیدہ توحید کا بھی وا ضح طور پر اعلان نہیں ہو سکتا- حالانکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ ہمارے عمل ہی سے نہیں زبان سے بھی اس کی وحدانیت کا برابر علاج ہوتا ہے-
2- فقہائے کرام نے ہمیشہ یہ احتیاط کی ہے کہ اللہ تعالٰی کے ذکر میں زبان سے کوئی ایسا کلمہ ادا نہ ہو نے پائے جو اس کی عظمت و جلال کے منافی ہو یا جس سے کوئی ایسا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہو جسے اس کی حقیقی صفات کے سوا کسی دوسری صفت پر بھی محمول کیا جا سکے- مثال کے طور پر قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کے لئے ہر جگہ مذکورہ کا صیغہ ہی آیا ہے اس کے وضعی ناموں میں بھی تذکیر ہی پائی جاتی ہے- اس سے یہ اصول مستنبط کیا گیا ہے کہ اس کی ذات پاک کے لیے کوئی ایسا وصفی نام استعمال نہ کیا جائے جو اگرچہ عام طور پر مذکر کے معنی دیتا ہو، لیکن اس میں تانیث کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو، خدا تعالٰی کا ایک وضعی نام علاٌم ہے اب باوجود یہ کہ علامہ بھی عربی زبان میں بالکل علام ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ علام اور علامہ دونوں صفت مبالغہ کے صیغہ میں اور دونوں مذکر ہی کے لئے مستعمل بھی ہیں، لیکن علامہ اللہ تعالٰی کے لئے استعمال نہیں ہوتا- کیونکہ اس کے آخر میں تائے فوقانی ہے، جو اگر چہ مبالغہ کے لئے آئی ہے لیکن اس میں تانیظ کا شائبہ پایا جاتا ہے- فائدہ۔1 اسی قاعدہ کے مطابق اللہ تعالٰی کے لیے جمع تعظیمی کا استعمال بھی ناجائز ہو گا کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے
3۔ منشائے الٰہی بھی یہی ہے کہ اللہ تعالٰی کے لئے صیغہءواحد ہی استعمال ہونا چاہیے دوسرا کوئی صیغہ جائز نہ ہو کیونکہ وہ کلمات جو اللہ تعالٰی نے آدم اور اس کی زوج کو ان کی لغزش کے بعد سکھائے یہ حوالہ اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ آدم اور اس کی زوج کو پہلے انسانی جوڑے کی حیثیت بھی حاصل ہے اور عالم انسانی کی علامت بھی۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین (البقرۃ) “ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہماری بخشش نہ کی اور ہم پر رحم نہ کیا تو البتہ ہم نے گھاٹا کھانے والوں میں ہو جائیں گے“۔
فائدہ 2
یہ دعا آدم اور اس کی زوج کو خود اللہ تعالٰی نے سکھائی تھی کیونکہ انہیں دعا مانگنے کا طریقہ معلوم نہ تھا انہیں سمجھایا گیا کہ دعا مانگتے وقت پہلے ان کو اپنے قصور کا اعتراف اور اس کے بعد بخشش و رحمت کے لیے التجاء کرنی چاہیے کیونکہ بخشش و رحمت سے محرومی خسارے کا باعث ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا گیا کہ انہیں اپنے پروردگار کو ہمیشہ صیغہ واحد سے مخاطب کرنا ہوگا ، اس کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا جائز نہیں ، چاہے اس کا مقصد تعظیم ہی کیوں نہ ہو ، دیکھئے اللہ تعالٰی نے اپنے لئے صیغہ واحد کی تعلیم دی ہے ورنہ وہ خود جمع کا صیغہ سکھاتا۔
4۔ انبیاءعلیہم السلام نے بھی یہی تعلیم دی ہے کیونکہ اس حقیقت میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ خدا کے یہ بر گزیدہ بندے عام انسانوں کے مقابلے میں اللہ تعالٰٰی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور قربت ہی کی وجہ سے ان میں اس کی عظمت و جلال کا گہرا احساس پایا جاتا ہے اس کا ثبوت ان کی اس عبارت سے بھی ملتا ہے جسے بندگی کہا جاتا ہے اور اس سے بھی جسے پرستش کہتے ہیں اور جو ذکر و صلوۃ کی صورت میں معلوم ہے لیکن اس مقام پر پہنچنے کے باوجود کوئی بھی پیغمبر اللہ تعالٰی کے لیے جمع تعظیمی کا استعمال روا نہیں رکھتا۔ بلکہ بلا استشناء تمام نبی اور رسول اس سے خطاب کرتے وقت یا اس کا ذکر کرتے قت صیغہ واحد ہی استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید سے اس دعوے کی ثبوت کے طور ہر ساری عبارتیں نقل کی جائیں تو یہ تحریر بہت طویل ہو جائے گی ان چند خاص الخاص حوالوں پر اکتفا کرنا مناسب ہو گا۔
1۔ حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالٰی سے کفار کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا انک ان تذرھم یضلو عبادک ولا یلدو الا فاجرا کفار ( نوح29 ص 66۔27)
ترجمہ: اے پروردگار ! کفار میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ چھوڑا اگر تونے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کے ہاں فاجر اور کفار ہی پیدا ہوں گے۔
2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اہل و عیال کو بیت اللہ کے جوار میں بساتے وقت دعا کرتے ہیں۔
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیمو الصلوٰۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارقھم من الثمٰرٰات لعم یشکرون (113 ابراہیم نمبر 26)
اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو اس غیر زرعی زمین میں تیرے حرم والے گھر کے پاس بسایا ہے اے پروردگار تاکہ وہ نماز قائم کریں پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اور ان کو پھلوں میں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر گزار ہوں
3: حضرت موسٰی علیہ السلام کو براہ راست اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہو نے کا شرف حاصل ہوا۔ وکلم اللہ موسٰی تاکلیما وہ طور سینا کی طرف آگ کرتے پھر رہے تھے کہ آواز آئی - “ اے موسٰی میں تمھارا پروردگار ہوں، تم اس وقت وادی مقدس میں ہو اپنی جوتیاں اتار ڈالو“ اب اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ انتہائی ادب و تعظیم کا محل تھا اور اسی وجوہ سے پیشتر اس کے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کوئی بات کرتے انہیں ماحول کے تقدس اور موقع کی اہمیت سے آگاہ کر دیا گیا یہ بھی حکم ہوا کہ جو تیاں اتار ڈالو، لیکن یہ بالکل نہیں کہا گیا کہ اپنے رب کے لئے ازراہ تعظیم جمع کا صیغہ اس موقع پر خدا تعالٰی نے پوچھا موسٰی تمھارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ اس کے جواب میں صرف “عصا “ کہنا کافی تھا لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس مختصر جواب پر اکتفا نہ کیا اور کہا “ یہ میرا عصا ہے، چلنے میں اس کا سہارا لیتا ہوں، اس سے اپنی بھیڑ بکریوں کے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں، اور اس سے اور بھی طرح طرح کے فائدے اٹھاتا ہوں۔“ موسٰی علیہ السلام اس عالم حضوری میں بھی ، جب ان کو منصب رسالت سے سر فراز کیا جا رہا ہے حضرت موسٰی علیہ السلام خداتعالٰی کو صیغہ واحد ہی سے مخاطب کرتے ہیں جمع کا صیغہ کہیں استعمال نہیں کرتے۔
قال رب اشرح لی صدری و یسرلی امری وحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی واجعل لی وزیرا من اھلی ھارون اخی اشدد بہ ازری واشرکہ فی امری (طہ آیت 25-33)
“ میرے رب! میرے واسطے میرا سینہ کھول دے اور آساں کر دے، میری زبان کی گرہ بھی کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور ہارون کو جو میرے اہل میں سے ہے اور میرا بھائی ہے ، میرا نائب مقرر کر ( اور اس کے ذریعے ) میری قوت کو مضبوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر!“
3۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ تعالٰی کے انعامات کا ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں:
قال انی عبداللہ ط اتنی الکتب و جعلنی نبیا و جعلنی مبار کا این ماکنت واو صنی بالصلوۃ الزکو ۃ مادمت حیا و برا بو الدتی ولم یجعلنی جبار شقیا ( مریم )
کہا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی اور اس نے مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں، مجھے برکت والا بنایا اور اس نے مجھے جب تک میں زندہ ہوں، نماز قائم کرنے، زکٰوۃ دینے، اپنی ماں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے ستم گر اور بد بخت نہیں بنایا۔
4۔ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی اپنے پیشتر انبیاء کی اس سنت کو برقرار رکھا اور اللہ تعالٰی کے لیے ہر حال میں صیغہ واحد ہی استعمال کیا یہ حقیقت اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک موقع پر اللہ تعالٰی کے لیے صیغہء واحد استعمال فرمایا ہے۔ عبادت میں بھی دعاؤں میں بھی استغفار اور دیگر جملہ امور و احادیث مبارکہ میں مفصل مذکور ہیں بہر حال حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے لئے ہمیشہ صیغہ واحد استعمال فرمایا ہے یہاں پر ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔
رب ادخلنی مدخل صدق واخر جنی مخرج صدق من الذک سلطانا نصیرا
اے پروردگار مجھے سچائی کے ساتھ داخل کر، نکال اور مجھے اپنے پاس سے عطا کر،
ایک یہ کہ درگزر اور انعام کا خواست گار ہو، جیسا کہ آدم اور اس کی زوج کی دعا سے ظاہر ہے اور وہ اللہ تعالٰی سے بلا واسطہ ہم کلام ہو، جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو اس قسم کا عطا کیا گیا اور تیسرے وہ کسی ایسی مشکل اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو کہ اللہ تعالٰی کی نصرت اور توفیق کے بغیر عہدہ بر آ ہونا محال نظر آئے جیسا کہ حضور علیہ اسلام کی ہجرت کو جو آپ کو نہایت مجبوری کے عالم میں کرنی پڑی۔ لیکن تینوں حالتوں میں ایک بھی ایسا تعظیمی کلمہ نہیں کیا جاتا جس سے واحدانیت عظمت کے پس پردہ چلی جائے۔
قصہ مختصر، انبیاء کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالٰٰی کے لیے صیغہ واحد ہی استعمال کیا جائے، جمع کا صیغہ چاہے وہ تعظیم ہی کے لیے کیوں نہ ہو، جائز ثابت نہیں ہو تا کہا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں جمع تعظیمی نہیں آتی لیکن یہ درست نہیں کیوں کہ قرآن مجید ہی میں اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کے لیے بار جمع تعظیمی استعمال کی ہے جس سے کلام کی تاکید پیدا کرنے کے علاوہ عظمت ایزو تعالٰی کا اظہار مقصود ہے اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو خود جمع کا صیغہ استعمال فرماتا یا کسی بندے کی زبان سے کسی نہ کسی موقع پر ایسے کلمات کہلوائے ہوتے جو اس کے لیے جمع تعظیمی کے استعمال کا جواز ثابت ہوتے۔
آخر میں اتنی بات کا اضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جمع تعظیمی پر صرف اردو، کا اجارہ نہیں، یہ درست ہے کہ قدیم عربی روزمرہ میں جمع نہیں تھی لیکن اب اس زبان میں بھی جمع تعظیمی داخل ہو چکی ہے۔ عربی تحریر و تقریر میں واحد مخاطب کے علامت کے بجائے کم اور انت کے بجائے قنتم شائستگی اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن صرف انسانوں کے لیے خدا تعالٰی کے لیے جمع تعظیمی ہر گز نہیں سمجھی جاتی کیونکہ اس میں شرف کا شائبہ پایا جاتا ہے ان حقائق کے پیش نظر ہمیں بھی خدائے وحدہ لاشریک کے لیے صیغہ واحد ہی استعمال کرنا چاہئے اور اللہ تعالٰی فرماتے ہیں اور اللہ ہمارے حال پر مہربانی فرمائیں۔ جیسے جملے تحریر و تقریر میں استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے یہی توحید حق تعالٰی کے لیے لائق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء اور دوسرے نیک لوگوں کو دعائیں بکثرت موجود ہیں اور وہ سب کی سب بلا استشناء اللہ تعالٰی کے لیے صیغہ واحد کی تائید کرتی ہیں لٰہذا صیغہ واحد ہی جائز ہے اور جمع اگرچہ تعظیمی ہی ہو توحید کے منافی ہے
سوال
سارے قرآن مجید میں اس سے کہیں اشارۃ بھی ر وکا نہیں گیا اسکے علاوہ اللہ تعالٰی نے خود اپنے لیے ِمن کہا۔ جمع کی ضمیریں استعمال کی ہیں کہ ان کا شمار کرنا آسان نہیں۔ قرآن مجید میں کم از کم ایک جگہ غیر اللہ کی زبان سے خود اللہ تعالٰی نے اپنے متعلق صیغہ جمع کا استعمال نقل کیا فرمایا ہے اور اس پر اپنی کسی قسم کی کراہیت کا اظہار نہیں فرمایا منکرین کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔
حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا ( مومنون 6)
جب ان میں سے کسی کو موت آ پہنچے گی تو کہنے لگا اے میرے رب مجھے واپس بھیج دو تا کہ میں نیک عمل کروں،
یہاں “ ارجعون “ اصل میں ارجعنی تھا اور جمع کا لفظ فائدہ سے مفسرین نے جمع تعظیمی کی گنجائش نکالی ہے چنانچہ حقانی کے ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر مرقوم ہے ارجعون کے لیے آیا گویا یوں کہا “ ارجعنی ارجعنی “ اور بعض کہتے ہیں رب کی تعظیم کے لیے صیغہ جمع لایا اور کہتے ہیں ملائکہ سے کہہ رہا ہے ارجعونی کہ تم مجھے دنیا میں پھر جانے دو۔“ تین احتمالات ہیں ان میں سے ایک جمع تعظیمی بھی ہے۔
جواب
احتمالات دلائل نہیں بنتے بلکہ احتمال الٹا دلیل بے دلیل بنا ڈالتا ہے جیسا کہ مشہور کلیہ ہے اذا جاء الاحتمال بطل الا ستدلال جہاں رب ارجعونی میں ایک احتمال ہے وہاں دو اور احتمال مضبوط موجود ہیں اور جواز کے تو ہم بھی قائل ہیں لیکن توحید جیسے عقیدہ کے لیے ایسے احتمالات لانے کا کیا فائدہ جو آیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے لیے صیغہء جمع استعمال فرمائے ہیں وہ بھی متعدد احتمالات کے حامل ہیں مثلاً ان امور میں ملائکہ کے عمل دخل کو ظاہر کر کے صیغہ جمع استعمال فرمایا ہے یہ تو آیت کو سا منے رکھ کر خود فیصلہ فرمائیں چنانچہ مفسرین نے تصریح فرمائی کہ یہاں صیغہ جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ امور ملائکہ سر انجام دیتے ہیں مجازًا وہ اس کام کے فاعل ہیں اور اللہ تعالٰی حقیقی فاعل اکثر آیات کا محمل یہی ہے مثلاً انا انزلناہ فی لیلۃ القدر، انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکہ وغیرہ وغیرہ۔
تحقیقی صاحب روح البیان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
حضرت امام اسمعیل حقی حنفی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ نے سوال مذکور کہہ کر اس کا بہترین اور نفیس جواب لکھتے ہیں کہ
وصیغہ الجمع فی رز فنامع انہ تعالٰی واحد لا شریک لہ لانہ خطاب الملوک واللہ لامک الملک المکوک، المعھود من کلام الملوک اربعۃ روجہ الاخبار علی لفظ الواحد نحو فعلت کذا وعلی لفظ الجمع فعلنا کذا وعلی مالم یسم فاعلہ رسم لکم کذا واضافتہ الفعل الی اسمہ علی وجہ المغا یتہ امر کم سلطانکم ھکذاوا القرآن نزل بلغۃ العب مجمع اللہ فیہ ھذہ الوجوہ کلھا فیما اخبربہ عن نفہ فقال ذرنی ومن خلقت وحیدا علی صیغۃ الواحد قال اللہ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر علی صیغۃ الجمع وقال فیما لم یسم فاعلہ کتب علیکم الصیام وامثالہ وقال فی المغا یتہ اللہ الذی خلقکم وامثالہ روح البیان ص238
ترجمہ از فقیر اویسی
آیت و مما رزقنا ھم ینفقون کی تفسیر میں ہے۔
سوال:
رزقنا جمع کا صیغہ ہے ان کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف ناجائز ہے کیونکہ وہ تو وحدہ لاشریک ہے۔
جواب:
جمع کے صیغے بادشاہوں کے لیے بولے جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی مالک الملک ہے اور شاہوں کا شاہ ہے۔ بادشاہوں کی اپنی گفتگو چار طریقوں سے ہوتی ہے۔
1) صیغہء واحد کے ساتھ، جیسے کوئی بادشاہ کہے فعلت کذا ( میں نے اسے کہا )
2) جمع کے ساتھ، جیسے فعلنا کذا ( ہم نے ایسے کہا )
3) صیغہ محمول کے ساتھ جیسے رسم لکم ( تمھارے لیے لکھا گیا )
4) اپنے آپ کو غائب قرار کر کے فعل کی نسبت اپنے اسم کی طرف کر دینا، جیسے خود کہے امرکم سلطانکم، اور قرآن پاک چونکہ عرب کی لغت میں نازل ہوا، بنا بریں اللہ تعالٰی نے انہی چاروں طریقوں کو اپنے لیے استعمال فرمایا چنانچہ اپنی ذات سے خبر دیتے ہوئے فرمایا۔
ذرنی ومن خلقت وحیدا یعنی صیغہ واحد کے ساتھ (مجھے اور اسے چھوڑ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا-) انا انزلناہ فی لیلۃ القدر صیغہ جمع کے ساتھ ( بے شک ہم نے اسے لیلۃ القدر میں اتارا اور فرمایا۔ کتب علیکم الصیام وغیرہ ( تم پر روزے فرض ہوئے ) اور طریقہ غیب بھی کئی بار فرمایا کما قال الذی خلقکم وغیرہ ( وہ جس نے تمہیں پیدا کیا )
جواب :
صاحب روح البیان کے پیرو مرشد قدس سرہ نے فرمایا کہ واحد صیغہ باعتبار ذات کے ہے جمع کا با اعتبار اسماء و صفات کے اور اکثرت اسماء و ڈفات وحدۃ ذات کے منافع نہیں کیونکہ مال ہر ایک کا ایک ہی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے صیغہ جمع سے تعظیم مراد لی ہے ان کا استدلال غلط ہے اگرچہ اللہ تعالٰی ہی تعظیم کے لائق ہے لیکن آیات صیغہ ء جمع سے استد لال تحریف قرآنی کے مترداف ہے کیونکہ ان آیات کے صیغہء جمع سے نہ اللہ تعالٰی نے اپنی تعظیم کا اظہار فرمایا ہے اور نہ ہی مفسرین نے ایسی مراد لی ہے۔
خاتمہ
بعض لوگ محض جماعتی تعصب میں مبتلا ہو کر مسئلہ کی نزاکت کی طرف توجہ نہیں کرتے خواہ اس سے آخرت کی سزا کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ بالخصوص اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں بہت زیادہ نزاکت ہے کہ معمولی کوتاہی کفر تک پہنچا دیتی ہے ورنہ کم از کم سخت گناہ میں مبتلا ہونا تو یقینی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہو۔
1) اللہ تعالٰی کو اللہ میاں کہنا
2) اللہ تعالٰی کو عاشق کہنا
3) اللہ تعالٰی کی قسم کھانا
4) اللہ نے فلاں خیال فرمایا
5) اللہ تعالٰی پر علامہ کا اطلاق وغیرہ وغیرہ
یونہی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نزاکت مبارکہ کا حال ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کی معمولی سی کوتاہی آپ کے بارے میں گوارا نہیں فرماتا اس موضوع پر گستاخ رسول کے نام سے کئی تصانیف معرض وجود میں آئی ہیں فقہاءکرام نے اس نزاکت کو خوب واضح فرمایا ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد مفعول مطلق صلوۃ کے تصلیۃ کہنا مکروہ ہے حالانکہ بقاعدہ نحویہ تصلیۃ مصدر ہے اور جلانا بھی آتا ہے اسی لیے نبوت کے تقدس کے خلاف ہے کہ ایسا لفظ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیے لیے استعمال کیا جائے۔
اسی تقدس کے پیش نظر صیغہ جمع اللہ تعالٰی کے لیے بھی ناموزوں ہے کہ اس میں توحید کے منافی ایک وہم اٹھتا ہے اسی لیے صیغہ جمع کا اللہ کے لیے اطلاق نا مناسب ہے۔
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم
مدینے کا بھکاری
الفقیر القادری ابو الصالح محمد فیض احمد اویسی رضوی