مہ جبین
محفلین
اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا
ذروں کو رنگ و نور دیا مہر و ماہ کا
اُس کی بلندیوں کی کوئی انتہا نہیں
دربان جبرئیل ہو جس بارگاہ کا
مشاّطگیءِ باغِ جہاں آپ ہی سے ہے
"بے شانہء صبا نہیں طرّہ گیاہ کا"
مجھ پر بھی ہے نگاہِ کرم شہرِ علم کی
مدحت سرا ہوں میں بھی شہِ عرش جاہ کا
اذنِ سفر ملے تو چُنوں ایک ایک خار
ہر خار برگِ گل ہے مدینے کی راہ کا
شہرِ نبی کی آب و ہوا چاہئے مجھے
دارالشفا وہی ہے مِرے اشک و آہ کا
آیا خیالِ گنبدِ خضرا جہاں ایاز
جلووں سے بھر گیا وہیں دامن نگاہ کا
ایاز صدیقی