داغ اللہ رے مرتبہ مرے عجز و نیاز کا

مقدس

لائبریرین
اللہ رے مرتبہ مرے عجز و نیاز کا
گویا جواب ہے یہ ترے کبر و ناز کا

دے مجھ کو داغِ عشق کہ احسان مان لوں
اس دردِ جان فزا و غمِ دل نواز کا

کھا کھا کے رشک تیرے شہیدانِ عشق سے
غم کھا نہ جائے خضر کو عمرِ دراز کا

بگڑے ہوئے بھی تیغِ حقیقت کے زخم زخم
ہنس ہنس کے منہ چڑھاتے ہیں عشقِ مجاز کا

گو مہرِ لب ہے حکم ترا اس کا کیا علاج
دل بولتا ہے خود بخود آگاہ راز کا

عالم تمام چشمِ حقیقت نگر بنا
منہ دیکھتا ہے آئینہ آئینہ ساز کا

یوسف کو چاہ میں تو مسیحا کو چرخ پر
عالم دکھا دیا ہے نشیب و فراز کا

ہر چند راہِ کعبہ و بت خانہ ایک ہے
اے راہ رو، ہے کام یہاں امتیاز کا

جل جل کے تیرے عشق میں گھل جائیں استخواں
مانندِ شمع لطف ہے سوزِ گداز کا

ناکامیِ دوام بھی ہو عشقِ جاوداں
کن نعمتوں کو حکم دیا ہے جواز کا

رتبے سے میری قیصر و سنجر کو تربہ کیا
میں ہوں غلامِ شاہِ عراق و حجاز کا

مجھ کو نہ کیونکر اس کی غلامی پہ فخر ہو
محمود ایک بندہ ہے جس کے ایاز کا

کونین جس کے ناز سے چکرا رہے ہیں داغؔ
میں ہوں نیاز مند اسی بے نیاز کا
ٌ
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیا نایاب غزل تلاش کر کے لائی ہو۔۔۔ واہ
لطف آ گیا۔۔۔
ویسے تو پوری غزل ہی عشقِ حقیقی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے لیکن آخری تین اشعار تو کمال کے نعتیہ اشعار ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
اک روشن کلام

ہر چند راہِ کعبہ و بت خانہ ایک ہے​
اے راہ رو، ہے کام یہاں امتیاز کا​
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب، بہت ہی عمدہ غزل پیش کی ہے آپ نے
بہت سی داد اس انتخاب کےخوب کے لئے
تشکّر

دے مجھ کو داغِ عشق، کہ احسان مان لوں
اس دردِ جاں فزا و غمِ دل نواز کا

بہت خوش رہیں
 
Top