اللہ (عزّوجلّ )

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اللہ (عزّوجلّ )
اللہ کی ذات اور صفتوں کے بارے میں ہمارے عقیدے
اِس طرح ہیں، یعنی ہم مانتے ہیں کہ،
۱۔ اللہ (عزّوجلّ )ایک ہے۔ (وَحْدَہٗ)
۲۔ کوئی اُس کا شریک نہیں، نہ ذات میں، نہ صِفات میں، نہ حُکموں میں، نہ ناموں میں، نہ کاموںمیں۔ (لا شریک لہٗ)
۳۔اُس کا وُجوٗد ضروری ہے۔ (واجب الوجود)
۴۔ اُس کا نہ ہونا ناممکن ہے۔ (عدم مُحال )
۵۔ وہ ہمیشہ سے ہے۔ (قدیم، ازلی)
۶۔ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ (باقی، ابدی)
۷۔صرف وُہی اِس بات کا حق دار ہے کہ اُس کی عِبادت اور پوجا کی جائے۔(معبودِ حقیقی)
۸۔اُس کی ذات کو سمجھنا عقل کے لیے نا ممکن ہے کیونکہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُسے گھیر لیتی ہے۔ اور اُس کو کوئی گھیر نہیں سکتا۔، البتہ
۹۔ اُس کے کاموں کے ذریعہ مختصراً اُس کی صفتوں کو، پھر اُن صفتوں کےذریعہ اُس کی ذات کو پہچانا جا سکتا ہے۔
(اللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچاننا ہی اللہ کی معرفت حاصل کرنا کہلاتا ہے۔)
۱۰۔ اُس کی صِفتیں ہی اُس کی پاک ذات کا نام ہوں ایسا نہیں اور اُس کی صفتیں اُس سے جُدا بھی نہیں ہیں۔
( اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر)
۱۱۔ جس طرح اُس کی ذات ہمیشہ سے ہے(قدیم، ازلی)، اور ہمیشہ باقی رہنے
والی ہے۔(باقی، ابدی) اُس کی صفتیں بھی ہمیشہ سے ہیں (قدیم، ازلی) اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ (باقی، ابدی)
۱۲۔اُس کی صفتیں نہ مخلوق ہیں، نہ زیرِ قدرت داخل۔
۱۳۔ ذات اور صفتوں کے سِوا ساری چیزیں پہلے نہ تھیں بعد میں وجود میں آئیں۔
۱۴۔ اللہ کی صفتوں کو جو مخلوق کہے یا بعد میں پیدا ہونے والی (حادِث)بتائے وہ گمراہ، بد دین ہے۔
۱۵۔ جو دُنیا میں کسی چیز کا ہمیشہ سے ہونا (قدیم ) مانے یا اُس کے پیدا ہونے میں شک کرے، وہ کافر ہے۔
۱۶۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی ۔جوکوئی اُسے باپ یا بیٹا بتائے یااُس کے لیے بی بی یا بیٹا ثابت کرے وہ کافر ہے۔
بلکہ جو ممکن بھی کہے وہ گمراہ بد دین ہے۔
۱۷۔ وہ بے پرواہ (بے نیاز )کسی کا محتاج نہیں۔
۱۸۔ وہ خود زِندہ ہے اور سب کی زِندگی اُس کے ہاتھ میں ہے۔جب چاہے زِندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔
۱۹۔وہ ہر ممکن پر قادِر ہے، کوئی اُس کی قُدرت سے باہر نہیں۔
۲۰۔ سارے کمال اور ساری خوبیاں اُس میں جمع ہیں۔ اور ہر اُ س چیز سے جس میں نقصان ہے، پاک ہے۔ یعنی عیب اور نقصان کا اُس میں ہونا نا ممکن ہے۔
۲۱۔ زِندگی، قُدرت، سُننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سارے جسم ہیں اور جسموں سے وہ پاک ہے۔
۲۲۔ اُ س کی دوسری صفتوں کی طرح اُس کا کلام بھی ہمیشہ سے ہے،
حادِث اور مخلوق نہیں۔ جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے وہ کافِر ہے۔
۲۳۔ اُ س کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے (محیط) ہے۔
۲۴۔ وہ غیب اور شہادت سب کو جانتا ہے، ذاتی علم اُس کا خاصہ ہے۔
جو شخص ذاتی علم ،غیب چاہے شہادت کا خدا کے سوا کسی اور کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔
۲۵۔ وہی ہر چیز کا خالق (سرجنہار) ہے۔
۲۶۔ حقیقت میں روزی پہنچانے والا وہی ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
لا جواب ، لیکن جس امر پر ہمارا یقین کامل نہیں ہے کہ وہ ہمارا حاکم ہے ہم پر اس کے حکم کی اطاعت لازم ہے ۔ ہم اللہ کی ہر صفت پر یقین رکھتے ہیں مگر حاکم مانتے ہوئے ہچکچاتے ہیں ۔ اللہ کریم ہمیں اطاعت کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے ۔آمین
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
لا جواب ، لیکن جس امر پر ہمارا یقین کامل نہیں ہے کہ وہ ہمارا حاکم ہے ہم پر اس کے حکم کی اطاعت لازم ہے ۔ ہم اللہ کی ہر صفت پر یقین رکھتے ہیں مگر حاکم مانتے ہوئے ہچکچاتے ہیں ۔ اللہ کریم ہمیں اطاعت کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے ۔آمین
بھائی جان!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
یقین کامل نہ ہونا، اور رب کائنات کو حاکم مطلق مانتے ہوئے ہچکچانا،
یہی ہمارے ایمان کی کمزوری ہے۔اسی لیے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
جو ہو ذوق یقیں پیدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال اللہ کریم ہمیں اطاعت کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے ۔آمین
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
۱۔صفات شفقت و محبت سے متعلق غلط تصورات

اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی شفقت اور محبت سے متعلق جو غلط فہمیاں اور غلط تصورات پائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ اللہ کی محبت اور شفقت کا غلط مفہوم لیتے ہوئے غلو کا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ خدا جو اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ کس طرح انہیں جہنم میں ڈا ل سکتا ہے۔چنانچہ وہ اللہ کی رحم دلی کا لازمی نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو جہنم میں نہیں ڈالے گا خواہ وہ کتنا ہی بڑا گناہ گار، فاسق و فاجر یا مشرک و کافر کیوں نہ ہو۔
اگر اس غلو کا جائزہ لیا جائے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنے بچوں کے ساتھ انتہاِئی مہربان اور رحم دل ہے ۔لیکن جب ایک بچہ کسی ظلم کامرتکب ہوتا ہے تو باپ اسے تربیت دینے کے لیے اس کی تادیب کرتا اور سختی سے پیش آتا ہے۔ اگر بچہ مسلسل اپنی روش برقرار رکھے تو باپ اسے تنبیہ اور وارننگ سے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب اس کا ظلم اِنتہاء پر پہنچ کر ناقابل اِصلاح ہوجائے تو اب باپ اس ناہنجار فرزند سے قطع تعلق کرلیتا اور موقع ملنے پر اسے سخت سے سخت سزا دیتا ہے تاکہ فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں تمیز ہوسکے۔غور کیجیے کہ اگر باپ اپنی نام نہاد نرم دلی نبھانے میں انصاف کے تقاضے پورا کرنے سے قاصر ہو تو یہ محبت و شفقت نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے۔چنانچہ رحم دل ہونا اپنے موقع اور محل کے لحاظ سے ایک موزوں صفت ہے لیکن اگر یہ نرم دلی عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنے اورسرکشی کے استیصال میں آڑے آئے تو یہ ایک عیب ہے اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔چنانچہ محبت و شفقت کا مطلب گھوڑے گدھے برابر کردینا اور عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دینا ہرگز نہیں ہے۔
۲۔ عفو و درگذر سے متعلق غلط تصورات
ایک غلط تصور اس ضمن میں یہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تو بڑا غفورالرحیم ہے ۔ اس بنا پر لوگ گناہوں سے معافی مانگنے میں تاخیر اور گناہ پر گناہ کیے جاتے ہیں۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ توبہ اور مغفرت کا ایک قاعدہ اور قانون ہے۔ یہ کوئی مطلق اور عام معافی کا اعلان نہیں کہ جو کچھ بھی کرو سب معاف ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت عدل و انصاف کے تقاضوں ہی کے تحت ہوتی ہے۔
۳۔ ہدایت کے بارے میں غلط فہمیاں
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ قرآن میں یہ اسلوب کئی جگہوں پر استعال ہوا ہے ۔لیکن اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ ہدایت و گمراہی الل ٹپ نہیں بلکہ ایک ضابطے کے تحت ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ ہدایت کے متلاشی کو راہ دکھائی جاتی ہے اور اس سے منہ موڑنے والے سرکشوں اور فاسقوں پر اس کا دروازہ تدریجاًبند کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ دلوں پر مہر لگ جاتی ہے ۔
۴۔ قدرت کے بارے میں غلط فہمیاں
ماضی میں اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان بڑی معرکہ آرائی رہی ہے کہ اللہ کی قدرت اور عدل کے درمیان کیا توازن ہے؟۔ اشاعرہ کا کہنا تھا کہ اللہ چونکہ قادر مطلق ہے چنانچہ وہ اگر چاہے تو ابو جہل کو جنت میں ڈال سکتا ہے اور چاہے تو کسی نیک بندے کو جہنم میں ڈال دے۔ دوسری جانب معتزلہ کا کہنا تھا کہ اللہ چونکہ عادل ہے اس لیےوہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو دونوں نقطہ نظر کی پریزینٹیشن درست نہیں اور یہ کامن سینس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر ایک بیٹا اپنے باپ سے کہے " ابو آپ تو بہت طاقتور ہیں تو کیا آپ اس طاقت کے اظہار کے لیے میری ماں کو پنکھے سے لٹکا سکتے ہیں ؟ " اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو فی الواقع یہ باپ کی طاقت کا امتحان نہیں بلکہ اس کے صحیح الدماغ ہونے کا ٹیسٹ ہے۔ظاہر ہے یہ سوال ایک بچہ تو کر سکتا ہے لیکن ایک باشعور انسان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ لہٰذا جہاں تک قدرت اور عدل کی فوقیت کا تعلق ہے تو قدرت ہو یا عدل ، دونوں ہی صفات میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کار فرما رہتی ہے۔چنانچہ اس کے بارے میں بحث سے قبل اتنا ضرور سوچ لینا چاہیےکہ ہم کس حکیم اور دانا ہستی کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں؟
۵۔ علم الٰہی سے متعلق غلط تصورات
علم الٰہی سے متعلق کچھ غلط تصورات کی وضاحت ضروری ہے۔کچھ فلسفی جن میں افلاطون شامل ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ جزئیات کا علم نہیں رکھتا بلکہ کلیات کا علم رکھتا ہے۔یعنی اللہ کو یہ تو علم ہے کہ کائنات کیا ہے زمین ، سیارے، چاند سورج اور ستارے کیسے ہیں لیکن نعوذباللہ اللہ تعالٰی یہ نہیں جانتا کہ ایک درخت میں کتنے پتے ہیں یا بارش کے قطرے کدھر گریں گے وغیرہ۔ قرآن اس تصور کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے علم کی کاملیت پر دلالت کرتا ہے کہ ایک پتاکدھر گرے گا؟ بارش کب ہوگی؟ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ وغیرہ ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ جزئیات کے ساتھ جانتا ہے۔
علم الٰہی کے بارے میں ایک غلط فہمی اس کا انسانی علم سے موازنہ کرنا ہے۔انسان کے دیکھنے اور سننے کی ایک حد ہے یعنی وہ ایک مخصوص فاصلے تک چیزیں دیکھ سکتا اور ایک حد سے زیادہ فریکوئنسی کی آواز نہیں سن سکتا۔اللہ اس عیب سے پاک ہے۔ اسی طرح انسان کی یادداشت میں جوں جوں نئی چیزیں آتی ہیں تو پرانی چیزیں محو ہوتی جاتی ہیں۔ اللہ بیک وقت اربوں کھربوں مخلوقات کا علم رکھتا، اس کی جزئیات تک کو جانتے اور اسے دوبارہ پیش کرنے پر قادر ہے۔
۶۔حکمت الٰہی سے متعلق غلط تصورات۔
اسی طرح زیادہ تر غلط فہمیاں اللہ کی صفت حکمت نہ سمجھنے کی بنا پر ہوتی ہیں۔ اللہ کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔ کچھ حکمتیں تو اللہ اس دنیا میں ظاہر کردیتاہے لیکن اکثر حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ چنانچہ جب ایک شخص اس دُنیا میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہوتا دیکھتا ہے تو وہ اللہ کی صفت عدل پر اِعتراض کرتا ہے۔ لیکن اِس دُنیا میں ظالم کو ایک حد تک مہلت دینا اِسی حکمت کے تحت ہے کہ امتحان کی اس دنیا میں ظالم کو ایک حد تک چھوٹ دی جائے۔
اس حکمت پر کچھ اشارات سور ہ کہف میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کے قصے میں دِیےگئے ہیں ۔چنانچہ حکمت اگر سمجھ میں آجائے تو بہتر وگرنہ اس پر اجمالی اطمینان ہی کافی ہے۔
۷۔ خلاقی سے متعلق غلط فہمیاں:
اس صفت سے متعلق بالعموم ایک اشکال ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ تو بہترین تخلیق کرنے والاہے تو پھر معذوروں اور بدصورتوں کی پیدائش میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ دیگر صفات کی طرح اس میں بھی ایک حکمت کا پہلو ہے ۔ خوبصورتی، تندرستی اور اعضاء کا تناسب ایک اضافی اورموازنے والی صفت ہے چنانچہ خوبصورتی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس کے مقابلے میں کوئی بدصورت شے ہو یا اعضاء کا تناسب اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب اجزا ءبے ترتیب یا نامکمل حالت میں پائے جاتے ہوں۔ چنانچہ خوبصورتی کے احساس کو نمایاں کرنے کے لیےاللہ نے بدصورتی کو تخلیق کیا ہے ۔ یعنی بے ترتیبی کی تخلیق کوئی عیب نہیں بلکہ یہ حکمت پر مبنی ہے۔
۸۔ربوبیت سے متعلق غلط فہمی
رزق کا مفہوم صرف کھانے پینے کی چیزیوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی کے تمام مادی اور روحانی وسائل جو کسی شخصیت کی حیات کے لئے کافی ہیں وہ اس میں شامل ہیں۔اس میں کھانے پینے کی چیزیں، دھوپ، آکسیجن وغیرہ سب شامل ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ رازق ہے چنانچہ اب انسان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔رازِق کا مطلب ہے عطا کرنے والا۔ چنانچہ اس عطا کرنے کا ایک ضابطہ مقرر کیا ہوا ہے۔ اس ضابطے میں دو چیزوں کی آمیزش ہے۔ پہلی اللہ کی مشیت و حکمت اور دوسرا اسباب کا استعمال۔ اس میں فوقیت تو اللہ کی مشیت اور حکمت ہی کو ہے لیکن اگر کسی روزی کے کمانے کے لئے اسباب کا استعما ل لازم ہے تو یہ شرط بھی پوری ہونی چاہیے۔مثال کے طور پر ایک دو ماہ کا بچہ اپنے لیے غذا کا خود بندوبست نہیں کرسکتا چنانچہ اس کے اسباب ماں اور باپ کی صورت میں اللہ نے خود فراہم کردِیے ہیں یہاں تک کہ ماں غذا کو بچے کے پیٹ تک پہنچاتی ہے۔ دوسری جانب یہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اب اسباب کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے اور اسے غذا کے حصول کے لیے اس تک ہاتھ بڑھانا، اسے چبانا اور حلق تک خود اتارنا ہوتا ہے۔ جب وہ مزید بڑا ہو کر ماں باپ کے معاشی سہارے سے محروم ہوجاتا ہے تو رقم کے بندوبست کے لیے اسے ہی بھاگ دوڑ کرنی ہوتی ہے ۔ اگر وہ گھر پر بیٹھ جائے اور اس دو ماہ کے بچے کی طرح غذا کو منہ تک پہنچانے کی ذمہ داری اللہ کو سونپ دے تو وہ اصل میں اللہ کے رزق دینے کے نظام کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ البتہ وہ معاملات جو اس کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتے اور اسباب کی فراہمی کا خود بندوبست کرتے ہیں۔
اس بحث میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ اگر اللہ رازق ہے تو پھر لوگ بھوک سے کیوں مر جاتے ہیں؟ بے شک رزق کی فراہمی اللہ کے ذمے ہے لیکن اگر اللہ کی مشیت اور حکمت یہ ہے کہ امیر لوگوں یا قوموں کو آزمائے کہ وہ کس طرح غربت اور افلاس سے دم توڑتے لوگوں کو سے پیش آتے ہیں۔ آیا وہ انہیں مرنے دیتے ہیں یا آگے بڑھ کر اُن کی بھوک کو مٹانے کے اجتماعی اقدامات کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں اللہ رزق کے وسائل امرا ء کو دے کر انہیں آزماتے ہیں۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہتاہے نپا تلا رزق دیتاہے۔ یہاں بیان سے یوں لگتا ہے کہ یہ تقسیم بلا کسی ضابطے اور قانون کے ہے۔ قرآن کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں۔ رزق کی فراہمی کا ایک ضابطہ ہے اور یہ ضابطہ اللہ کی مشیت، حکمت،آزمائش کی اسکیم وغیرہ پر منحصر ہوتا ہے۔
۹۔ توحید کے بارے میں غلط فہمیاں
سب سے زیادہ غلط تصورات اسی صفت کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ اس صفت کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ کو ایک ، یکتا، تنہا جانے اور مانے۔ لیکن انسان کبھی اللہ کے شریک بنا بیٹھا ، کبھی اس کی اولاد بنالی۔ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فرض شدہ شریک نمایاں ہوتے چلے گئے اور اللہ کی ذات پس پشت جاتی رہی۔اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ماننے پر زور نہیں دیا بلکہ اسے تنہا ماننے پر زور دیا۔
 

الشفاء

لائبریرین
۱۔صفات شفقت و محبت سے متعلق غلط تصورات

اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی شفقت اور محبت سے متعلق جو غلط فہمیاں اور غلط تصورات پائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ اللہ کی محبت اور شفقت کا غلط مفہوم لیتے ہوئے غلو کا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ خدا جو اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ کس طرح انہیں جہنم میں ڈا ل سکتا ہے۔چنانچہ وہ اللہ کی رحم دلی کا لازمی نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو جہنم میں نہیں ڈالے گا خواہ وہ کتنا ہی بڑا گناہ گار، فاسق و فاجر یا مشرک و کافر کیوں نہ ہو۔
اگر اس غلو کا جائزہ لیا جائے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنے بچوں کے ساتھ انتہاِئی مہربان اور رحم دل ہے ۔لیکن جب ایک بچہ کسی ظلم کامرتکب ہوتا ہے تو باپ اسے تربیت دینے کے لیے اس کی تادیب کرتا اور سختی سے پیش آتا ہے۔ اگر بچہ مسلسل اپنی روش برقرار رکھے تو باپ اسے تنبیہ اور وارننگ سے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب اس کا ظلم اِنتہاء پر پہنچ کر ناقابل اِصلاح ہوجائے تو اب باپ اس ناہنجار فرزند سے قطع تعلق کرلیتا اور موقع ملنے پر اسے سخت سے سخت سزا دیتا ہے تاکہ فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں تمیز ہوسکے۔غور کیجیے کہ اگر باپ اپنی نام نہاد نرم دلی نبھانے میں انصاف کے تقاضے پورا کرنے سے قاصر ہو تو یہ محبت و شفقت نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے۔چنانچہ رحم دل ہونا اپنے موقع اور محل کے لحاظ سے ایک موزوں صفت ہے لیکن اگر یہ نرم دلی عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنے اورسرکشی کے استیصال میں آڑے آئے تو یہ ایک عیب ہے اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔چنانچہ محبت و شفقت کا مطلب گھوڑے گدھے برابر کردینا اور عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دینا ہرگز نہیں ہے۔

یہ مراسلہ شائد پروفیسر عقیل خان کے مضمون "اللہ کی معرفت" سے لیا گیا ہے۔۔۔

کوٹ کردہ حصہ پڑھنے کے بعد مجھے قرآن مجید کی یہ آیت یاد آ گئی کہ جس میں میرا ارحم الراحمین اور غفّار رب کریم فرماتا ہے۔

قل یٰعبادی الذین اسرفو علیٰ انفسھم لا تقنطو من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا انہ ھوالغفور الرحیم۔۔۔
آپ (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتا دیں میرے ان بندوں کو جو اپنے نفسوں پر ظلم (گناہ) کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے اور وہ تو بڑا ہی معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔۔۔

اب ذرا تقابل کریں پروفیسر صاحب کی مثال میں بیان کردہ اس باپ کا کہ جو اپنی ناہنجار اولاد سے قطع تعلق کر کے سخت سے سخت سزا دیتا ہے۔ اور اس رب کریم کا کہ جو گناہوں میں لتھڑے ہوئے نافرمانوں کو بھی یا عبادی اے "میرے" بندوں کہہ کہہ کر اپنی رحمت کی چھاؤں میں بلا رہا ہے۔۔۔ اس عبادی کی "ی" میں کیا کچھ چھپا ہے میری طاقت بیان سے باہر ہے۔۔۔
باقی رہا عدل و انصاف۔ تو میرے رب ذوالجلال سے بڑھ کر عادل و منصف کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ لیکن عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے صرف سزا دینا ہی ایک طریقہ نہیں ہے اس کے اور بھی کئی طریقے ہیں جو اہل نظر سے مخفی نہیں۔۔۔ واللہ علیٰ کل شیئ قدیر۔۔۔

اللہ عزوجل آپ کو خیر کثیر عطا فرمائے۔۔۔
 
Top