میں یہ سمجھتا ہوں ۔۔ بعض چیزیں ایسی ہوا کرتی ہیں جو عقل کی حد سے تجاوز کر جاتی ہیں ۔۔
جیسے ہمیں یہ تو معلوم ہے ۔۔ کہ اس آسمان میں ستارے ہیں مگر کوئی ایسا ہے جس کی عقل ان ستاروں کا شمار کر سکے ۔۔
اس لیے یہ کبھی بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو چیز عقل کی حدود میں نہیں آ سکتی وہ موجود نہیں ۔۔
بہت سی باتیں ہیں جن کو ہمارا ذہن نا رسا ناممکن خیال کرتا ہے مگر وہ ظہور پذیر ہو کر ہمیں ششدروحیران کر دیتی ہیں ۔۔
خدا ہے ۔۔ ایک سلیم الفطرت انسان اس بات کو تسلیم کیے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔
ایک دہریہ کے ساتھ امام ابو حنیفہ کا مناظرہ طے ہوا ۔۔
امام صاحب وقت مقررہ پر نہ پہنچے بلکہ کچھ لیٹ گئے ۔۔
دہریے نے کہا آپ لیٹ ہیں ۔۔ جو امام وقت کی پابندی نہ کر سکے وہ کچھ اور کیسے کرے گا ۔۔
امام صاحب نے فرمایا : بھائی بات سن لو پھر کچھ فیصلہ کرنا ۔۔ اس نے کہا کہیے: آپ نے فرمایا : ہوا یوں کہ میرے راستے میں ایک دریا ہے ۔ میں وہاں کشتی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک پاس سے ایک درخت خود بخود اکھڑا اور پھر اس کی لکڑی کٹی اس کے تختے بنے اور پھر وہ خود بخود ایک کشتی بن گئی پھر وہ کشتی میری طرف آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا وہ کشتی مجھے لے کر دوسرے کنارے پر آئی ۔۔ بس اس میںکچھ دیر ہو گئی ۔۔
دہریہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا ۔۔ یہ دیکھو مسلمانوں کا امام کتنا بڑا کذاب ہے ۔۔ حضرت نے کہا ہے کہ بنا بڑھئی کے کشتی بھی بنی اور بنا ملاح کے چلی اور حضرت کو کنارے پر پہنچا بھی گئی ۔۔
امام اعظم نے کہا : بھئی یہی تو میں بھی کہنا چاہتا ہوں ۔۔ جب ایک کشتی بنا بنانے والے کے بن نہیں سکتی ، بنا چلانے والے کے چل نہیں سکتی ، تو اتنی بڑی کائنات بالکل درست طور خود بخود کیسے چل سکتی ہے ۔۔
دہریہ انگشت بدنداں رہ گیا ۔ اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام لے آیا ۔
اگرچہ یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے ۔۔ اس میں نہ تو فلسفے کی موشگافیاں ہیں اور نہ ہی سائنس کی تھیوریاں ۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سمجھنے کے لیے یہ بھی بہت کا فی ہے ۔۔