سوال:اگر کوئی شخص اللہ کے صفاتی نام میں سے کوئی نام رکھے تو سب کے شروع میں عبد'ال' کا بڑھانا ضروری ہے ؟
جواب نمبر: 170533
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1034-897/L=10/1440
جو اسماء اس طرح کے ہیں ان سے پہلے عبد لگاکر استعمال کرنے میں تو کوئی مضائقہ نہیں ؛البتہ بعض اسماء ایسے بھی ہیں جن کا عبد لگائے بغیر بھی استعمال درست ہے اور اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جو اسماء اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، جیسے اللہ، رحمن، رزاق، خالق،باری ،غفور وغیرہ، ان سے پہلے ”عبد“ لگانا ضروری ہے، تاکہ بندگی اور عبدیت کا اظہار ہو، ”عبد“نہ لگانے کی صورت میں بندہ کے نام میں اس لفظ کا استعمال لازم آئے گا، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور یہ جائز نہیں، اورجواسماء اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں؛ بل کہ مشترک ہیں، جن کا استعمال صفات باری کے لیے بھی آیا ہے اور بندوں کے لیے بھی، جیسے ”روف“ ”رحیم“ ”علی“ ” کبیر“”رشید“ وغیرہ، اس طرح کے مشترک نام میں”عبد“ لگائے بغیر بھی نام رکھنے یا پکارنے کی گنجائش ہے؛لیکن ان سے پہلے بھی ”عبد“ لگا دینا بہتر ہے۔
وجاز التَسْمیة بعلیّ ورشید من الأسماء المشترکة ویراد فیحقنا غیر مایراد فی حق اللّٰہ -تعالیٰ -وفی ردّ المحتار: الذی فی التّاتر خانیہ عن السراجیہ: التّسمیة باسم یوجد فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ کالعلی والکبیروالرشید والبدیع جائزة․․ (شامی: ۵۹۸/۹کتاب الحضر والاباحہ: باب الاستبراء: ط: زکریا دیوبند) فصل: وَمِمَّا یمْنَع تَسْمِیَة الْإِنْسَان بِہِ أَسمَاء الرب تبَارک وَتَعَالی فَلَا یجوز التَّسْمِیَة بالأحد والصمد وَلَا بالخالق وَلَا بالرازق وَکَذَلِکَ سَائِر الْأَسْمَاء المختصة بالرب تبَارک وَتَعَالیٰ وَلَا تجوز تَسْمِیَة الْمُلُوک بالقاہر وَالظَّاہِر کَمَا لَا یجوز تسمیتہم بالجبار والمتکبر وَالْأول وَالْآخر وَالْبَاطِن وعلام الغیوب․
وَأما الْأَسْمَاء الَّتِی تطلق عَلَیْہِ وعَلیٰ غَیرہ کالسمیع والبصیر والرؤوف والرحیم فَیجوز أَن یخبر بمعانیہا عَن الْمَخْلُوق وَلَا یجوز أَنْ یتسمّی بہَا علی الْاِطْلَاق بِحَیْثُ یُطلق عَلَیْہِ کَمَا یُطلق علی الربّ تَعَالٰی․ (تحفة المودود بأحکام المولود: ۱۲۷/۱الفصل الثانی فی ما یستحب من الأسماء وما یکرہ، ط: مکتبہ دارالبیان/دمشق)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند