ایم اسلم اوڈ
محفلین
اے امریکی حکمرانو! اگر لمحہ بھر کے لئے آپ کی بات کو مان لیا جائے کہ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار ہے… تو کیا سفیروں کا قبیلہ اس قدر معزز اور بالا ہے کہ ان کو قتل بھی معاف ہے؟ نہیں جناب نہیں… بالکل نہیں! اگر ایسا ہو جائے تو یہ جاہلیت ہے، جہالت ہے، انسانیت کی توہین ہے، حقوق انسانی کی پامالی ہے۔ چودہ سو سال پہلے جاہلیت ہی کا دور تھا، تب زورآور قبیلے نے اپنے بارے میں (immunity)یعنی رعایت حاصل کر رکھی تھی اور وہ اس طرح تھی کہ ممتاز اور طاقتور قبیلے کا آدمی قتل ہو جاتا تو اس کے بدلے میں قاتل کے پورے گھرانے اور خاندان کو قتل کر دیا جاتا… اسی طرح اعلیٰ قبیلے کی عورت کا مقام اس قدر بلند تھا کہ اگر وہ قتل کی جاتی تو اس کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جاتا… اس کے برعکس اگر معمولی قبیلے کا آدمی قتل ہو جاتا اور اسے اعلیٰ قبیلے کا آدمی قتل کرتا تو معمولی رقم دے دلا کر فارغ کر دیا جاتا… طاقت کی بنیاد پر حاصل کی ہوئی اس رعایت اور استثنائی صورت کو قرآن نے ختم کر دیا۔ امیونٹی (immunity) کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ ارشاد فرمایا!
’’اے ایمان والو! جہاں تک قتل ہونے والوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بدلہ لینا تم پر لازم کر دیا گیا ہے۔ قاتل آزاد ہو تو بدلے میں وہی آزاد قتل کیا جائے، غلام ہو تو وہی غلام قتل کیا جائے، عورت قتل کرنے والی ہو تو بدلے میں وہی عورت قتل کی جائے۔‘‘(البقرہ)
قارئین کرام! یہ ثابت ہو چکا ہے اور ثابت کرنے والا امریکہ کا میڈیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا نام کچھ اور ہے۔ یہ جعلی نام ہے، جی ہاں! اس جعلساز کے بارے میں یہ بھی خبر ہے کہ یہ یہودی ہے… اور اس کو چھڑوانے کی کوشش میں ہلکان ہونے والے امریکہ کے عیسائی ہیں۔
اے یہودیو اور نصرانیو! قرآن ملاحظہ کرو… میرے حضور محمد کریمﷺ پہ نازل ہونے والا قرآن تم لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ قتل کے بارے میں کسی کو کوئی امیونٹی (immunity) نہیں ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے۔ آج بھی موجود ہے، عہد نامہ قدیم اور جدید کھول کر دیکھ لو، جی ہاں! یہ سب کچھ قرآن بتلاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
’’ہم نے ان (یہودونصاریٰ) پر لازم قرار دے دیا کہ جان کے بدلے جان لی جائے گی، آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑی جائے گی۔ ناک کے بدلے ناک توڑا جائے گا۔ کان کے بدلے کان کاٹا جائے گا۔ دانت کے بدلے دانت توڑا جائے گا اور اسی طرح تمام زخموں کا بدلہ ہو گا‘‘۔(المائدہ45-)
قارئین کرام! کوئی استثناء نہیں، کوئی رعایت نہیں، کوئی امیونٹی نہیں، نہ تورات میں نہ انجیل میں اور نہ قرآن میں… جب کوئی امیونٹی نہیں تو پھر پاکستانی مسلمانوں کے یہودی مجرم کو عیسائی چھڑوانے کے لئے کیوں کوشاں ہیں؟ حالانکہ معاشروں کی زندگی کا دارومدار بدلے لینے پر ہے۔ عدل کے نظام پر ہے۔ فرمایا!
’’اے عقل والو! تمہارے لئے بدلے کے نظام میں زندگی (کا راز پنہاں) ہے۔‘‘ (القرآن)
اللہ کے رسولﷺ نے مکہ فتح فرما لیا ہے، قریش کے ایک قبیلے بنو مخزوم کی ایک لڑکی نے چوری کر لی، نام اس کا فاطمہ تھا، قریش کے لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حد کو ٹالنے کی سفارش کی۔ جب حضرت اسامہ نے سفارش کی تو حضورﷺ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ بخاری، مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! اسامہ تیری یہ جرأت کہ اللہ کے (قانونِ) حد میں سفارش کرنے آ گیا ہے۔ پہلے لوگ اسی بات سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی شریف (ایلیٹ کلاس کا بڑا آدمی) جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی ضعیف (کمزور اور ناتواں) ارتکاب کرتا تو اس پر
حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! یہ تو فاطمہ بنو مخزوم کی ہے اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔
جی ہاں! ثابت ہوا، اسلام میں قانون ہر ایک کے لئے ہے۔ کوئی گروہ، قبیلہ یا فرد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کسی کو امیونٹی حاصل نہیں، یہ اسلام کا قانون ہے، قرآن کا ضابطہ ہے اور محمد کریمﷺ کا اعلان کردہ لاء ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو پہلے خطبے میں انہوں نے فرمایا:
’’لوگو!میرے ہاں ہر کمزور طاقتور ہے جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلوا دوں اور ہر طاقتور میرے ہاں کمزور ہے، جب تک کہ میں چھینا ہوا حق اس سے نہ لے لوں۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک شہزادہ مسلمان ہو گیا، دوران طواف اس کی عبا زمین سے لگ رہی تھی۔ ایک عام آدمی کا پائوں اس پر آ گیا۔ شہزادے نے مڑ کر دیکھا اور غصے سے تھپڑ رسید کر دیا۔ مقدمہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عدالت میں گیا تو انہوں نے فرمایا: اے شہزادے! اس سے معافی مانگ لو، اگر معاف کر دیا تو ٹھیک وگرنہ تھپڑ کھانے کیلئے تیار ہو جائو… اس نے ایک دن کی مہلت طلب کی جو دے دی گئی۔ رات کو وہ فرار ہو گیا یہ کہہ کر کہ میں ایسے اسلام سے باز آیا، جس میں شہزادے اور عام عربی میں کوئی امتیاز (immunity) نہ ہو۔
جی ہاں! کوئی امیونٹی نہیں… یاد رہے، اگر پریشر میں آ کر مقتولین کے لواحقین دیت پر مان بھی جائیں تب بھی ریمنڈ مجرم ہے۔ 14فروری 2011ء کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان جناب عبدالباسط نے واضح طور پر بیان دیا کہ امریکی قاتل ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد ڈرون حملے بند ہو گئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ جو لوگ بم دھماکوں میں پکڑے گئے ہیں۔ ان کی ٹیلی فونک سموں کا رابطہ ریمنڈ سے ملا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریمنڈ صرف دو آدمیوں کا قاتل نہیں بلکہ سینکڑوں پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ اس لئے اس پر مقدمہ سٹیٹ اور عوام کو فریق بنا کر چلانا چاہئے۔
روزنامہ نوائے وقت مورخہ 15فروری 2011ء میں بتلایا گیا ہے کہ جب اذان ہوتی ہے تو جیل میں ریمنڈ ڈیوس کو تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور اس نے قیدیوں کے سامنے برملا انتہائی نازیبا کلمات کہے… جی ہاں! اذان میں ہے اللہ اکبر… اذان میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے… اس بدبخت ملعون نے اللہ اور رسولﷺ کے ناموں پر انتہائی نازیبا کلمات کہہ کر توہین کی ہے۔ قیدیوں کے بیان لے کر اس کے خلاف توہین رسالت کا قانون "295-C" لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کسی صورت میں معافی کے قابل نہیں۔ ویانا کنونشن 1961ء کے مطابق سفارتکاروں کو جو تحفظ دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے تاکہ:
To perform their function without
fear by the host country.
وہ سفارتکار اپنے فرائض بغیر کسی خوف کے میزبان ملک میں ادا کر سکیں۔ مزید برآں 1963ء کے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41-1کے تحت قونصلیٹ کے کسی بھی رکن کو قتل جیسے جرم پرامیونٹی حاصل نہیں۔
قارئین کرام! امریکی حکومت خود اس شخص کو لاہور قونصلیٹ کا ملازم کہہ رہی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے تب بھی اسے سزا ملے گی جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ سی آئی اے کا جاسوس ہے۔ دہشت گرد ہے، قاتل ہے، دھماکوں کی منصوبہ بندی کرنے والا ہے۔ اسے اگر امیونٹی دی گئی تو وہ (immun system) جو انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اگر وہ کمزور ہو جائے تو جسم ناکارہ ہو کر مر جاتا ہے، بالکل اسی طرح عدل کا نظام بھی قوموں کے لئے اسی ’’امیون سسٹم‘‘ کا مقام رکھتا ہے۔ اسے اگر حکومت توڑتی ہے تو وہ گویا اپنے ملک کو جنگل کے قانون کے سپرد کر دیتی ہے۔ یاد رکھنا چاہئے! انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون چل سکتا ہے اور نہ ہی جنگل کا قانون چلانے والے جنگلی انسانی معاشرے میں رہنے کے قابل رہتے ہیں اور پھر تاریخ اپنا رخ بدل کے رہتی ہے۔ حکمرانوں کو فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے۔
بشکریہ،،،،ہفت روزہ جرار
’’اے ایمان والو! جہاں تک قتل ہونے والوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں بدلہ لینا تم پر لازم کر دیا گیا ہے۔ قاتل آزاد ہو تو بدلے میں وہی آزاد قتل کیا جائے، غلام ہو تو وہی غلام قتل کیا جائے، عورت قتل کرنے والی ہو تو بدلے میں وہی عورت قتل کی جائے۔‘‘(البقرہ)
قارئین کرام! یہ ثابت ہو چکا ہے اور ثابت کرنے والا امریکہ کا میڈیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا نام کچھ اور ہے۔ یہ جعلی نام ہے، جی ہاں! اس جعلساز کے بارے میں یہ بھی خبر ہے کہ یہ یہودی ہے… اور اس کو چھڑوانے کی کوشش میں ہلکان ہونے والے امریکہ کے عیسائی ہیں۔
اے یہودیو اور نصرانیو! قرآن ملاحظہ کرو… میرے حضور محمد کریمﷺ پہ نازل ہونے والا قرآن تم لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ قتل کے بارے میں کسی کو کوئی امیونٹی (immunity) نہیں ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے۔ آج بھی موجود ہے، عہد نامہ قدیم اور جدید کھول کر دیکھ لو، جی ہاں! یہ سب کچھ قرآن بتلاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
’’ہم نے ان (یہودونصاریٰ) پر لازم قرار دے دیا کہ جان کے بدلے جان لی جائے گی، آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑی جائے گی۔ ناک کے بدلے ناک توڑا جائے گا۔ کان کے بدلے کان کاٹا جائے گا۔ دانت کے بدلے دانت توڑا جائے گا اور اسی طرح تمام زخموں کا بدلہ ہو گا‘‘۔(المائدہ45-)
قارئین کرام! کوئی استثناء نہیں، کوئی رعایت نہیں، کوئی امیونٹی نہیں، نہ تورات میں نہ انجیل میں اور نہ قرآن میں… جب کوئی امیونٹی نہیں تو پھر پاکستانی مسلمانوں کے یہودی مجرم کو عیسائی چھڑوانے کے لئے کیوں کوشاں ہیں؟ حالانکہ معاشروں کی زندگی کا دارومدار بدلے لینے پر ہے۔ عدل کے نظام پر ہے۔ فرمایا!
’’اے عقل والو! تمہارے لئے بدلے کے نظام میں زندگی (کا راز پنہاں) ہے۔‘‘ (القرآن)
اللہ کے رسولﷺ نے مکہ فتح فرما لیا ہے، قریش کے ایک قبیلے بنو مخزوم کی ایک لڑکی نے چوری کر لی، نام اس کا فاطمہ تھا، قریش کے لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حد کو ٹالنے کی سفارش کی۔ جب حضرت اسامہ نے سفارش کی تو حضورﷺ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ بخاری، مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! اسامہ تیری یہ جرأت کہ اللہ کے (قانونِ) حد میں سفارش کرنے آ گیا ہے۔ پہلے لوگ اسی بات سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی شریف (ایلیٹ کلاس کا بڑا آدمی) جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی ضعیف (کمزور اور ناتواں) ارتکاب کرتا تو اس پر
حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! یہ تو فاطمہ بنو مخزوم کی ہے اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔
جی ہاں! ثابت ہوا، اسلام میں قانون ہر ایک کے لئے ہے۔ کوئی گروہ، قبیلہ یا فرد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کسی کو امیونٹی حاصل نہیں، یہ اسلام کا قانون ہے، قرآن کا ضابطہ ہے اور محمد کریمﷺ کا اعلان کردہ لاء ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو پہلے خطبے میں انہوں نے فرمایا:
’’لوگو!میرے ہاں ہر کمزور طاقتور ہے جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلوا دوں اور ہر طاقتور میرے ہاں کمزور ہے، جب تک کہ میں چھینا ہوا حق اس سے نہ لے لوں۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک شہزادہ مسلمان ہو گیا، دوران طواف اس کی عبا زمین سے لگ رہی تھی۔ ایک عام آدمی کا پائوں اس پر آ گیا۔ شہزادے نے مڑ کر دیکھا اور غصے سے تھپڑ رسید کر دیا۔ مقدمہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عدالت میں گیا تو انہوں نے فرمایا: اے شہزادے! اس سے معافی مانگ لو، اگر معاف کر دیا تو ٹھیک وگرنہ تھپڑ کھانے کیلئے تیار ہو جائو… اس نے ایک دن کی مہلت طلب کی جو دے دی گئی۔ رات کو وہ فرار ہو گیا یہ کہہ کر کہ میں ایسے اسلام سے باز آیا، جس میں شہزادے اور عام عربی میں کوئی امتیاز (immunity) نہ ہو۔
جی ہاں! کوئی امیونٹی نہیں… یاد رہے، اگر پریشر میں آ کر مقتولین کے لواحقین دیت پر مان بھی جائیں تب بھی ریمنڈ مجرم ہے۔ 14فروری 2011ء کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان جناب عبدالباسط نے واضح طور پر بیان دیا کہ امریکی قاتل ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد ڈرون حملے بند ہو گئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ جو لوگ بم دھماکوں میں پکڑے گئے ہیں۔ ان کی ٹیلی فونک سموں کا رابطہ ریمنڈ سے ملا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریمنڈ صرف دو آدمیوں کا قاتل نہیں بلکہ سینکڑوں پاکستانیوں کا قاتل ہے۔ اس لئے اس پر مقدمہ سٹیٹ اور عوام کو فریق بنا کر چلانا چاہئے۔
روزنامہ نوائے وقت مورخہ 15فروری 2011ء میں بتلایا گیا ہے کہ جب اذان ہوتی ہے تو جیل میں ریمنڈ ڈیوس کو تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور اس نے قیدیوں کے سامنے برملا انتہائی نازیبا کلمات کہے… جی ہاں! اذان میں ہے اللہ اکبر… اذان میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ ہے… اس بدبخت ملعون نے اللہ اور رسولﷺ کے ناموں پر انتہائی نازیبا کلمات کہہ کر توہین کی ہے۔ قیدیوں کے بیان لے کر اس کے خلاف توہین رسالت کا قانون "295-C" لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کسی صورت میں معافی کے قابل نہیں۔ ویانا کنونشن 1961ء کے مطابق سفارتکاروں کو جو تحفظ دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے تاکہ:
To perform their function without
fear by the host country.
وہ سفارتکار اپنے فرائض بغیر کسی خوف کے میزبان ملک میں ادا کر سکیں۔ مزید برآں 1963ء کے ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41-1کے تحت قونصلیٹ کے کسی بھی رکن کو قتل جیسے جرم پرامیونٹی حاصل نہیں۔
قارئین کرام! امریکی حکومت خود اس شخص کو لاہور قونصلیٹ کا ملازم کہہ رہی ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے تب بھی اسے سزا ملے گی جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ سی آئی اے کا جاسوس ہے۔ دہشت گرد ہے، قاتل ہے، دھماکوں کی منصوبہ بندی کرنے والا ہے۔ اسے اگر امیونٹی دی گئی تو وہ (immun system) جو انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اگر وہ کمزور ہو جائے تو جسم ناکارہ ہو کر مر جاتا ہے، بالکل اسی طرح عدل کا نظام بھی قوموں کے لئے اسی ’’امیون سسٹم‘‘ کا مقام رکھتا ہے۔ اسے اگر حکومت توڑتی ہے تو وہ گویا اپنے ملک کو جنگل کے قانون کے سپرد کر دیتی ہے۔ یاد رکھنا چاہئے! انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون چل سکتا ہے اور نہ ہی جنگل کا قانون چلانے والے جنگلی انسانی معاشرے میں رہنے کے قابل رہتے ہیں اور پھر تاریخ اپنا رخ بدل کے رہتی ہے۔ حکمرانوں کو فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے۔
بشکریہ،،،،ہفت روزہ جرار