اللہ کا قانون یا انسانوں کا قانون

نعمان

محفلین
ڈاکٹر پرویز ہودبھائی آج شام آٹھ بجے جیو کے پروگرام جوابدہ میں افتخار احمد کے سوالوں کے جوابات دینگے۔ ڈاکٹر صاحب قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں نیوکلئیر فزکس پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ درس و تدریس، تعلیمی نصاب، حقوق انسانی، مذہب اور ریاست کے دائرہ اختیار کا تعین، سائنسی علوم کی ترقی اور پاکستان کے خارجی اور داخلی مسائل پر بہت کام کر چکے ہیں۔ کئی ڈاکومنٹری فلمز بنا چکے ہیں، حکومت پاکستان کی سفارش پر نصاب تعلیم میں بہتری اور خامیوں کی نشاندہی پر کی گئی تحقیقات میں پیش پیش رہے ہیں۔ نیوکلیائی توانائی کے بطور اسلحہ استعمال کرنے کے سخت مخالف ہیں اور مذہبی انتہاپسندی کو انسانیت کی فلاح کے لئیے خطرناک جانتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اور کئی انگریزی روزناموں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں سائنس کو پاپولر بنانے کے لئیے پاپولر سائنس کی بدیسی کتابیں اردو میں ترجمہ کرکے شائع کروانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

آج کے پروگرام کی جو جھلک ٹی وی پر دکھائی جارہی ہے اس میں میزبان افتخار احمد ڈاکٹر صاحب کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور مذہب اور ریاست کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے جوابات سننے کے لائق ہونگے۔ اس کے علاوہ مذہب اور سائنس کے حوالے سے بھی گفتگو ہوگی۔ یہ پروگرام رات آٹھ بجے اور دوبارہ رات ایک بجے جیو نیوز سے نشر کیا جائے گا۔
 

نعمان

محفلین
افتخار احمد نے جناب ہودبھائی سے پوچھا کہ کیا آپ اس طرز فکر سے متفق ہیں کہ خدا کی مثال ایسے گھڑی ساز کی ہے جس نے ایک گھڑی تمام پرزہجات سے لیس تیار کردی ہے اور اب اسے شروع کرکے وہ لاتعلق ہوگیا ہے؟

تو ڈاکٹر صاحب نے کہا جی ہاں سائنسی نقطہ نظر سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ خدا کی ہر چیز میں ڈائریکٹ مداخلت کو مانتے ہیں مثلا بارش کے آنے کو رحمت اور نہ آنے اور بیماریوں اور افتادات فطری کو عذاب مان لیتے ہیں تو یہ بات قطعا نامناسب ہے۔ کیونکہ سائنس ان کی وجوہات کچھ اور بتاتی ہے۔ کائنات کا ایک میکنزم ہے جو چند اصولوں کے تحت چلتا ہے ان اصولوں کے سے ہٹ کر دنیا میں ہی نہیں پوری کائنات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔

افتخار احمد نے قرآن سے کچھ آیات کے حوالے دئیے جن میں دنیا اور کائنات کی تخلیق کا قرآن سے ذکر بیان کیا گیا ہے تو ڈاکٹر ہودبھائی نے کہا کہ جناب میں کوئی دینی عالم نہیں ہوں میں اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔

افتخار احمد نے کہا کہ بطور مسلمان ہمیں قرآن پر یقین رکھنا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پھر ہمیں ایسا راستہ ڈھونڈنا ہوگا کہ قرآن اور ہماری سائنس آپس میں متصادم نہ ہوں۔

نصاب تعلیم کے بارے میں پرویز ہودبھائی نے کہا کہ پاکستان کے تمام اسکولوں میں جو نظام تعلیم رائج ہے وہ ہمارے بچوں کے ذہنوں کو بند کردیتا ہے اور انہیں کھلے ذہن سے سوچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے نظام تعلیم میں دیگر مذاہب سے نفرت اور تعصب سکھایا جاتا ہے۔ سائنسی علوم، جغرافیہ اور آرٹس کی تعلیمات پر زور دینے اور انہیں سکھانے کے بجائے ہم ان مضامین میں بھی نظریات ٹھونس دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بھی یونیورسٹی معیاری نہیں ہے۔ ہمارا نظام تعلیم پڑوسی ممالک سے بھی پسماندہ ہے اور عالمی معیار سے تو بہت ہی گیا گزرا ہے۔ جتنا تعصب ہمارے یہاں نصاب تعلیم میں ہے اس کی دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔

افتخار احمد اپنے پروگرام میں ایک پاکستانی سائنسدان کا حوالہ دیتے ہیں جن کی یہ تحقیقات تھیں کہ جنوں کا وجود ہے اور ان کے آتشیں وجود کو توانائی کے حصول کے لئیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اس موقع پر اپنی مسکراہٹ چھپانے میں کامیاب رہے اور اتنی ہی سنجیدگی سے افتخار احمد سے پوچھتے ہیں 'ٹھیک ہے آپ مجھے ایک دو جن پکڑ کر لادیں ہم ان پر تجربات کرکے دیکھیں گے'۔

پوچھا گیا کہ کیا اقتدار اعلی خدا کو حاصل ہونا چاہئیے یا انسانوں کو تو پرویز ہودبھائی کا جواب تھا کہ جناب معاشرہ تو انسانوں سے بنتا ہے اور اس کے بعد ان کا جواب کاٹ دیا گیا۔

یہ تو تھی پروگرام کی مختصر روداد۔ ڈاکٹر صاحب کے اکثر جوابات اتنی بری طرح ایڈیٹ کئیے گئے تھے کہ ایڈیٹنگ کے جھول پروگرام میں صاف محسوس کئے جاسکتے تھے۔ حتی کہ افتخار احمد کے ایک سوال کے دوران تو آواز سنائی ہی نہ دی میں نے دوبار یہ پروگرام دیکھا اور دونوں بار وہ سوال سنائی نہیں دیا۔

بہرحال یہ ایک اچھی کوشش تھی کہ کھلے ذہن کے لوگوں کو بھی اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کچھ اس قسم کا ماحول بن گیا ہے کہ لوگ کوئی نئی بات سننے اور کھلے دل سے اس پر بات کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ کیونکہ ہم بند دماغ کے نظام تعلیم کی پیداوار ہیں اسلئیے جب ہم بحث کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر صرف بحث جیتنا ہی ہوتا ہے نہ کہ کوئی مخالف نقطہ نظر سننا۔ لیکن شاید اگر پرویز ہودبھائی جیسے چند اور لوگ دس بیس سال تک اور کام کریں تو کہیں کوئی نرم گوشہ اور چند کھلے دماغ تیار کرسکیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نعمان، شکریہ۔ بیچارے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی پچھلے بیس سال سے کام کر رہے ہیں، اس عرصے میں تو وہ پاکستان کے نظام تعلیم کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ اگلے بیس سال میں بھی کچھ نہیں ہونے لگا ان سے۔ ڈاکٹر ہود بھائی نے پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں متعدد بار بہت اچھے مضامین تحریر کیے ہیں۔ مجھے ان کے روابط ملتے جائیں گے تو میں یہاں پوسٹ کرتا رہوں گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سائنس اور مذھب کے درمیان لڑائی غیراسلامی مذاھب میں ہے۔
اسلام تو غوروفکر کرنے کا درس دیتا ہے۔
غلط فہمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سائنس دان جسکا اسلام کا مطالعہ نہ ہو یا کوئی عالم جس کا سائنسی مطالعہ نہ ہو اور وہ رائے زنی کر ئے اس چیز پر جسکا اسے مطالعہ نہیں۔
پہلے علما بیک وقت سائنس دان اور مذھبی سکالر ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ حال نہیں۔ اسی طرح سائنس دان اسلام کا مطالعہ کم ہی کرتے ہیں۔
یہ کہہ دینا کہ اسلام دیگر مذاھب سے تعصب سکھاتا ہے ، بہت آسان ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟کسی کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے؟
جہاں تک پرویز ہود بھائی نے ہر چیزمیںخدا کی ڈائرکٹ مداخلت سے انکار کیا ہے تو یہ ان کا نظریہ ہو سکتا ہے سائنسی قانون نہیں کیونکہ قانون وہ ہوتا ہے جسے تجرباتی طور پر ثابت کیا جا چکا ہو۔
جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ “پھر ہمیں ایسا راستہ ڈھونڈنا ہوگا کہ قرآن اور ہماری سائنس آپس میں متصادم نہ ہوں۔ “ تو یہ بات بالکل غلط ہے کہ قرآن اور سائنس باہم متصادم ہیں۔
اب میرا ایک سوال ہے کہ کیا سائنس کو نظریہ حیات سمجھا جاسکتا ہے قطع نظر سائنس کی تعریف کے؟
 

نعمان

محفلین
یہ کہہ دینا کہ اسلام دیگر مذاھب سے تعصب سکھاتا ہے ، بہت آسان ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟کسی کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے؟

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے یہ نہیں کہا بلکہ یہ کہا ہے کہ پاکستان کا نصاب تعلیم دیگر مذاہب سے تعصب برتنا سکھاتا ہے۔ میرے خیال میں آپ سے پڑھنے میں غلطی ہوگئی۔

کسی سائنسدان کی بات سمجھنے کے لئیے ضروری ہے کہ آپ پہلے سائنسی طرز فکر سمجھتے ہوں۔ سائنسی طرز فکر یہ ہے کہ جو بات فی الحال سائنس سے ثابت نہیں ہوسکتی اور استدلال بھی اس معاملے میں کہیں اور اشارہ کررہا ہو تب بھی ضروری نہیں کہ وہی بات صحیح ہو تا آنکہ سائنسی تجربات سے حقائق ملیں اور اس بات کی تصدیق ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب اس طرز فکر کو سائنسی استدلال کی رو سے قریب تر مانتے ہیں کہ خدا کی کائنات کے ہر عمل میں ڈائریکٹ انٹروینشن نہیں ہے بلکہ کائنات ایک ایسی گھڑی ہے جو گھڑی ساز کے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت خودمختار طریقے سے چلتی ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب یا دیگر سائنسدان اسے صحیح ثابت نہیں کرسکتے مگر موجودہ سائنسی معلومات کی روشنی میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ خدا کی کائناتی امور میں مداخلت سائنس کا موضوع قطعا نہیں ہے
 

شعیب صفدر

محفلین
پرویز ہودھ واقعی ایک ذہین آدمی ہے۔۔۔ میں پی ٹی وی پر ان کا پروگرام کافی شوق سے دیکھا کرتا تھا جب وہ آتا تھا (نام یاد نہیں)۔۔ ان کی بات کو کاٹنے والی بات اچھی نہیں۔۔۔۔۔
روداد لکھے پر میں آپ کا ممنون ہو۔۔۔۔ شکریہ
 
Top