افتخار راجہ
محفلین
گزشتہ ہفتہ کی شب اسلم بھائی جان نے مجھے فون کیا یہ چوہدری فرخ ندیم تشریف فرما ہیں اگر ملنا ہے تو چلو، چوہدری صاحب جہلم کے مشہور سیاسی خاندان کے سپوت اور ممبر صوبائی اسمبلی بھی ہیں آجکل اٹلی کے دھواں دھار دورے پر ہیں، اٹلی میں تو ہم بھی ہیںمگر ترتیب اور ہے، ہم ادھر کام کرنے اور پاکستان زرمبادلہ بھیجنے آئے ہیں مگر وہ زرمبادلہ خرچ کرنے اور کام سے جان چھڑانے آئے ہیں، یعنی کہ سرکاری دورے پر،
مگر معلوم نہیں کیوں بریشا میں آ ٹپکے، بقول ہمارے شاہ جی کے، ہم لوگ ان کی وجہ سے ادھر آئے ہیں اور یہ ہیں کہ ہمارے پیچھے پیچھے، مرکے بھی چین نہ پائیں تو کدھر جائیں کے مصداق جانے کی حامی بھری، ہفتہ کی شام سیاہ ست دان کے نام، ورنہ اس شام کو ہم یاروں کے ساتھ گھپیں ہانک رہے ہوتے ہیں کسی اوپن بار میں بیٹھے یا پھر بچوں کو ساتھ لے کر کسی پارک میں جھولوں کے گرد جھول رہے ہوتے ہیں، بچے جھولے جھول رہے ہوتے ہیں اور ہم پورے ہفتے کے کام کی تھکاوٹ کی وجہ سے جھول رہے ہوتے ہیں، خیر، مقام جلسہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ لیٹ ہوگئے ہیں چوہدری صاحب سے ہاتھ ملایا، مسکراہٹوں کا تبادلہ، خیریت مطلوب و موجود کے کلمات اور پھر وہ آخری کونے میں جگہ لی، ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو خیر سے ہونگے کوئی پچاس کے قریب شرکاء اور اکثریت جہلم کے اور ہمارے جاننے والے، گویا ایک مقامی یا علاقائی ملاقات ہوئی۔
جلسہ کا آغاز ہوا محبی عامر بٹ صاحب نے اٹھ کر چوہدری صاحب کا انکی مہمانداری کروانے پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بریشیا میں قدم رنجہ فرمایا اور اس شہر کی عزت افزائی کی، کیسے میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔ پھر چوہدری صاحب کو دعوت خطاب دی گئی۔
خیر سے خطاب شروع ہوا، سامعین کا شکریہ ادا کیا گیا اور حاضرین کا بھی جنہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیت سے وقت نکالا اور تشریف لائے، پھر انہوں نے موضوع پکڑا کہ آپ لوگ خوش نصیب ہیں جو یہاں پر آ گئے ہیں اور یہ آپ کی اولادوں کو بھی یہاں آنا نصیب ہوا ہے، جہاں پر زندگی معیاری ہے اور مواقع زیادہ ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ پر اللہ کا کرم ہوا ہے جو آپ اٹلی میں ہیں، میں حیران رہ گیا کہ یہ ایک ایم پی اے بول رہا ہے؟ میاں کونسا اللہ کا کرم، پاکستان میں گزٹڈ پوسٹ پر تھے ادھر مزدور ہیں، ادھر راجہ صاحب، نمبردار صاحب، ڈاکٹر صاحب، پروفیسر صاحب سر تھے ادھر صرف اور صرف ایک غیر ملکی اور مہاجر ہیں؛ مہاجر ہونا، پردیسی ہونا، اپنے دیس میں رزق نصیب نہ ہونا، کیا یہ اللہ کا کرم ہے؟ یا سزا ہے؟ ماں مرگئی منہ نہ دیکھ سکا، کوئی ہم سے پوچھے، پردیس کیا ہے؟ سال میں تین دفعہ فلیٹ تبدیل کرنا پڑتا ہے، دو دفعہ نوکری ڈھونڈنی پڑتی ہے، نہیں تو ہر دوسرے برس شہر تبدیل کرلیا کہ جہاں دانہ پانی لے جائے۔ کیا یہ اللہ کا کرم ہے یا عذاب ہے؟
مگر معلوم نہیں کیوں بریشا میں آ ٹپکے، بقول ہمارے شاہ جی کے، ہم لوگ ان کی وجہ سے ادھر آئے ہیں اور یہ ہیں کہ ہمارے پیچھے پیچھے، مرکے بھی چین نہ پائیں تو کدھر جائیں کے مصداق جانے کی حامی بھری، ہفتہ کی شام سیاہ ست دان کے نام، ورنہ اس شام کو ہم یاروں کے ساتھ گھپیں ہانک رہے ہوتے ہیں کسی اوپن بار میں بیٹھے یا پھر بچوں کو ساتھ لے کر کسی پارک میں جھولوں کے گرد جھول رہے ہوتے ہیں، بچے جھولے جھول رہے ہوتے ہیں اور ہم پورے ہفتے کے کام کی تھکاوٹ کی وجہ سے جھول رہے ہوتے ہیں، خیر، مقام جلسہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ لیٹ ہوگئے ہیں چوہدری صاحب سے ہاتھ ملایا، مسکراہٹوں کا تبادلہ، خیریت مطلوب و موجود کے کلمات اور پھر وہ آخری کونے میں جگہ لی، ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو خیر سے ہونگے کوئی پچاس کے قریب شرکاء اور اکثریت جہلم کے اور ہمارے جاننے والے، گویا ایک مقامی یا علاقائی ملاقات ہوئی۔
جلسہ کا آغاز ہوا محبی عامر بٹ صاحب نے اٹھ کر چوہدری صاحب کا انکی مہمانداری کروانے پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بریشیا میں قدم رنجہ فرمایا اور اس شہر کی عزت افزائی کی، کیسے میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔ پھر چوہدری صاحب کو دعوت خطاب دی گئی۔
خیر سے خطاب شروع ہوا، سامعین کا شکریہ ادا کیا گیا اور حاضرین کا بھی جنہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیت سے وقت نکالا اور تشریف لائے، پھر انہوں نے موضوع پکڑا کہ آپ لوگ خوش نصیب ہیں جو یہاں پر آ گئے ہیں اور یہ آپ کی اولادوں کو بھی یہاں آنا نصیب ہوا ہے، جہاں پر زندگی معیاری ہے اور مواقع زیادہ ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ پر اللہ کا کرم ہوا ہے جو آپ اٹلی میں ہیں، میں حیران رہ گیا کہ یہ ایک ایم پی اے بول رہا ہے؟ میاں کونسا اللہ کا کرم، پاکستان میں گزٹڈ پوسٹ پر تھے ادھر مزدور ہیں، ادھر راجہ صاحب، نمبردار صاحب، ڈاکٹر صاحب، پروفیسر صاحب سر تھے ادھر صرف اور صرف ایک غیر ملکی اور مہاجر ہیں؛ مہاجر ہونا، پردیسی ہونا، اپنے دیس میں رزق نصیب نہ ہونا، کیا یہ اللہ کا کرم ہے؟ یا سزا ہے؟ ماں مرگئی منہ نہ دیکھ سکا، کوئی ہم سے پوچھے، پردیس کیا ہے؟ سال میں تین دفعہ فلیٹ تبدیل کرنا پڑتا ہے، دو دفعہ نوکری ڈھونڈنی پڑتی ہے، نہیں تو ہر دوسرے برس شہر تبدیل کرلیا کہ جہاں دانہ پانی لے جائے۔ کیا یہ اللہ کا کرم ہے یا عذاب ہے؟