اللہ کو راضی کر لو از مولانا طارق جمیل

ظفر احمد

محفلین
نام کتاب : اللہ کو راضی کر لو
از : مولانا طارق جمیل

اللہ کا تعارف

میرےمحترم بھائیوں اور دوستو! اللہ تعالٰی اس کائنات کا تنہا خالق وحدہ لا شریک اور مالک بھی ہے۔ اللہ اپنی زات میں ابتدا سےپاک ہے۔ اللھم انت الا ول فلیس قبلک شئی الاول بلا بدایہ ۔
اللہ وہ ذات ایسا اول ایسا پہلا جس کی ابتدا کوئی نہیں ابتداءتک دیکھنا چاہیں۔ آخر آخر کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ وہ آکر بھی ہےدائم بھی۔ بلا انتہا اس کی انتہائی کوئی نہیں۔ کہیں جا کر اس کا آخری کنارہ کوئی نہیں۔ تو اللہ وہ ذات ہےکہ جو دوکان میں سماتا ہےنہ مکان میں، ماضی حال مستقبل کی بندشوں میں بندھا ہوا ہےنہ اسےزمین کی ضرورت ہےنہ آسمانوں کی ضرورت ہی۔ نہ انسانوں کا محتاج، نہ فرشتوں کا محتاج، نہ نبیوں اور رسولوں کا محتاج، نہ جنت اور جہنم کا محتاج، اپنی ذات میں اپنی بقاءکےلئےنہ کھانےکا محتاج نہ پینےکا محتاج ، تھکن سےپاک، نیند سےپاک، اونکھ سےپاک، غفلت سےپاک بیوی سےپاک ، اولاد سےپاک رشتوں سےپاک، وزارت مشاورت سےپاک، اکیلا تن تنہا اتنےبڑےنظام کا خالق مالک علم قدرت اتنا کامل اتنی پھیلی ہوئی کائنات جلتی ہوئی اڑتی ہوئی تیرتی ہوئی سےذرہ برابر نہ غافل ہےاور نہ جاہل ہی۔ ایک دور تھا اس کائنات اور اس دھرتی پہ ایسا تھا کہ کچھ نہ تھا۔ اس سےاگلا دور آیا اس نےزمین کو بچھانا شروع کر دیا۔ ولارض مددنھا زمین بچھائی۔ والارض فرشنھا فنعم الماھدون۔ اللہ نےفرمایا میں نےفرش بچھایا کوئی میرےجیسا ہےجو بنا کےدکھا دے۔
 

ظفر احمد

محفلین
قدرت الٰہی کےکرشمی

بنانےمیں اللہ کی قدرت یہ ہےکہ ایک ذرہ مٹی کا نہ تھا اور یہ زمیں اتنا بڑا گولہ مٹی کا بنایا۔ ایک پتھر نہیں تھا اتنےبڑےبڑےپہاڑ بنائے۔ ایک تنکا نہ تھا کیسےکیسےدرخت اگائے۔ ہوا کا ذرہ نہ تھا ٹھنڈی اور گرم ہوائوں کا نظام چلایا۔ بادل کا کوئی ذرہ نہ تھا کوئی وجود نہ تھا، ایسےکالےاور سفید سرخ بادل بنائےاور پانی کا قطرہ نہ تھا درہا چلائےسمندر بنائےچشمےپیدا فرمائی۔ میٹھا پانی بنایا کڑوا پانی بنایا۔ ھٰذا عذب فرات وھٰذا ملح اجاج یہ میٹھا پانی، یہ کروا پانی۔ بینھما بر زخ لا یبغیٰن۔ درمیان میں پردہ لگا دیا نہ میٹھا پانی کڑوےمیں جائےنہ کڑوا پانی میٹھےمیں جا سکی۔ یہ ایک ایسا نظام ہی۔ جو اللہ تعالٰی نےپیدا فرمایا۔ رفع السمٰوٰت۔ آسمان بلند کر دئئ الشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ۔ سورج چاند ستاروں کا نظام بنایا اور چلایا ان سب کو اپنا غلام بنایا۔یغشی الل النھار دن اور رات کا نظام چلا یا۔ دن کو اجالا دیا رات کو اندھیرا دےدیا، ستاروں کو نیلاہٹ دےدی چاند کو روشنی دےدی۔ سورج کو اجالا، آگ کو تپش اور حرارت دےدی۔ زمین کو گردش دےدی پانی کو چلنا دےدیا پہاڑوں کو ٹھہرائو دےدیا۔ ہوائوں کو گرم اور ٹھنڈا لطیف بنایا۔ آسمانوں کو بلند کردیا زمین کو پست کر دیا فرشتوں کو نور بنایا، ہمیں خاک سےبنایا جنات کو آک سےبنایا ساری کائنات کےاتنےبڑےنظام بنائےاور چلائی۔ان میں اللہ نہ تھکا، نہ غافل ہوا، نہ خطا کھائی۔
صرف ایک نظام کو ہی لےلو۔ مور کےانڈےسےمرغی نہ نکلی، مرغی کےانڈےسےکوئل نہ نکلی۔ کوئل کےانڈےسےکوا نہ نکلا،کوےکےانڈےسےفاختہ نہ نکلی فاختہ کےانڈےسےمگرمچھ نہ نکلا مگر مچھ کےانڈےسےکچھوا نہ نکلا کچھوےکےانڈےسےمچھلی نہ نکلی مچھلی کےانڈےسےمچھر نہ نکلا، مچھر کےانڈےسےمکھی نہ نکلی، مکھی کےانڈے سےپسو نہ نکلا۔ دنیا میں کتنی کائنات ہےجو انڈےدےرہی ہےکبھی اللہ خطا کھا جاتا ، تو مور کےانڈےسےشتر مرغ نکلتا شتر مرغ کےانڈےسےمرغابی نکلتی مرغابی کےانڈےسےکوا نکلتا اوہو! میں بھول ہی گیا۔ کھرب ہی کھرب انڈےبکھرےپڑےہیں ایک مادہ مچھر کئی ہزار انڈےدےدیتی ہےایک شہدکی مادہ مکھی تیس ہزار انڈےدےدیتی ہےاور ان سےکیا نکالنا ہےنر یا مادہ اور اس نےکیا بننا ہےاس انڈےکو انسان کو کھانا ہےکہ اس سےبچہ نکالنا ہی، مرغی نکلنی ہےمر غا نکالنا ہی۔ یہ اللہ کا نظام تخلیق ہےبغیر کسی چیز کےسب کچھ بنایا یہ نطام بھی بنایا اور پھر ہمیں بھی بنایا سارےدنیا کےنظام کو تو قابو کرکےدکھایا اور ہمیں تھوڑی سی آزادی دےدی۔
 

ظفر احمد

محفلین
امتحان کی گھڑی

اللہ نےکہا تم کو آزادی دےرہا ہوں موت تک پھر تم سےنبٹ لونگا۔ سنفرغ لکم ایھا الثقلٰن۔ تمھاری مرضی ہے ان ٹھندی ہوائوں کو محسوس کرکےمیر ا شکر ادا کرو، یا ان ٹھنڈی ہوائوں میں مست ہو کر گانےکی محفلیں سجائو۔ میں دیکھوںگا دونوں کو مگر فیصلہ کروں گا فیصلےکےدن۔ یہ نہیں کہ ہم اللہ کی طاقت سےباہر ہو گئےہیں۔ یہ سورج زمین سےبارہ لاکھ گنا بڑا ہےنو کروڑ تیس لاکھ میل کےفاصلےپر ہی۔ چھ سو سولہ ارب ٹن ہائیڈروجن کو اللہ تعالٰی ایک سیکنڈ میں چھ سو بارہ ارب ٹن ملیم گیس سےتبدیل کرتا ہی۔ جس کی حرارت اتنی زیادہ ہےکہ پانچ کروڑ ہائیڈروجن بم اکٹھےپھٹیں تو ان سےجتنی آگ اور حرارت پیدا ہوتی ہےاتنی سورج ایک سیکنڈ میں پھینک رہا ہے۔
جو اللہ سورج جیسی آگ کو قابو میں کرےاور اس کےپانچ کروڑ ہائیڈروجن بموں جتنی آگ کو کنٹرول کرےاور زمین کی طرف جب وہ آگ سفر شروع کرےتو اس کا بیس کروڑواں حصہ نیچےپہنچےاور باقی سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے۔
جو اللہ اتنی طاقت رکھتا ہو کہ زمین ، سورج کےگرد گھومی، ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سےہماری جو گولی پستول سےیا کاشنکوف سےنکلتی ہےاس کی رفتار کوئی اٹھارہ سو کلو میٹرفی گھنٹہ ہے
توجو زمین اتنی تیز گھومےکبھی اللہ نےآپ کو چکر آنےدئے؟۔ کبھی آپ کےشہر کو الٹنےدیا؟۔ کبھی پہاڑوں کو الٹنےدیا؟۔ اتنی تیز رفتار گھومنےوالی چیز جس کی رفتار گولی کی رفتار کےقریب ہےاس کو قابو کرنا مشکل ہےیا ہمیں (انسان) کو قابو کرنا مشکل ہے۔ پھر زمین سورج کےگرد ساڑےانیس کروڑ میل کےدائرےمیں گھومتی ہے۔ سورج بھی گھوم رہا ہےزمین بھی گھوم رہی ہے۔ سورج کی رفتار چھ لاکھ میل فی گھنٹہ ہے۔ زمین کی رفتار ساٹھ ہزار میل فی گھنٹہ ہےاور ہر اٹھارہ میل کےبعد دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سےہٹ جاتی ہی۔ ملی میڑ کتنا ہوتا ہے۔ ایک سینٹی میٹر کا ہزارواں حصہ ۔ ہر سال زمیں پیچھےہٹ رہی ہےسورج آگےدوڑ رہا ہےان میں فاصلہ پانچ سو ملین میل ہر سال بڑھتا جارہا ہے۔ سورج بھی دوڑ رہا ہےزمیں بھی دوڑ رہی ہےیہ زمین ہر سال دو اشاریہ آٹھ ملی میٹر سورج سےہٹتی ہےیہ اگر دو اشاریہ پانج ملی میٹر ہےیعنی تین مائکرو میٹر ہزارواں حسہ ملی میٹر کا مائکرو میٹر ہوتا ہی۔ تو یہ زمین تین مائکرو میٹر زیادو ہٹ جائےسورج سےیا کم ہٹ جائے۔ تین مائکرو میٹر تو نظر بھی نہیں آتا بہت بڑی دور بین لگا کر دیکھا جائےتو تب جا کر نظر آجائےگا، تو تین مائکرو میٹر کی کمی زیادتی چند ہفتوں کےاندر ساری کائنات کو تباہ و برباد کر سکتی ہے۔
 

ظفر احمد

محفلین
اللہ کا علم کامل
تو میرےبھائیو! یہ بارش ہو رہی ہےیہ قطرےگر ہرےہیں۔ تقریبا بارہ سو میٹر اونچا بادل ہوتا ہےجو بارش بر ساتا ہےان بارش کےقطروں کا حجم اور وزن ہےاس وزن و حجم کی کسی چیز کو اگر بارہ سو میٹر کی بلندی سےنیچےپھینکا جائےتو اس کی رفتار ہوگی پانچ سو اٹھاون کلو میٹر فی گھنٹہ۔ جو قطرےآپ پر برس رہےہیں اب یہ سامنےآپ کو نظر آرہےہیں ان کی زمین پر آنےکی رفتار ہےدس سےبارہ کلو میٹر فی گھنٹہ اللہ اس پانی کےقطرےکو ایسی شکل دیتا ہےکہ جس سےاس کی رفتار ٹوٹتی ہےپھر ہوا میں اللہ نےایسےمادےرکھےہیں جو اس سےرگڑ کھاتےہیں اور اس کی رفتار کو توڑتےہیں ۔ جب یہ قطرہ زمین کو چومتا ہےتو اس کی رفتار دس سےبارہ کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہی۔ اگریہ رفتار دس بارہ کلو میٹر کی بجائےسو کلو میٹر ہو جائےتو۔ نہ کوئی سر سلامت رہےگا نہ کوئی چھت سلامت رہےگی، نہ کوئی پہاڑ سلامت رہےگا۔ نہ کوئی سڑک سلامت رہے۔ نہ کوئی انسان سلامت رہے۔
اب زمین پر جتنی بھی بارش ہو رہی ہےاس کی رفتار کو کنٹرول کرنا ایک ایک قطرےکو کنٹرول کرنا یہ رب کا کام ہی۔ یہ ہےمیر ا اور آپ کا رب جو اتنا کچھ کر کےنہ تھکتا ہےنہ چوکتا ہے( چوکنا یعنی غلظی کرنا) پھر یہ کتنےقطرےبرس رہےہیں کون جانتا ہے؟ اللہ فرماتا ہے۔ یعلم عدد قطر الامطار میں تمھارا رب ہوں جو بارش کےسارےقطروں کی تعداد کو جانتا ہوں۔
تو میرےبھائیو! یہ سب نظام اس بادشاہ نےبنایا ہےاسی نےچلایا اس پر قابو رکھا۔ کیا وہ ہمیں نہیں قابو کر سکتا؟ کہ دنیا میں کوئی نا فرمانی نہ کرے۔ کوئی عورت بےپردہ نہ پھرے، کوئی نوجوان مستی نہ کرے، کسی ہوٹل میں شراب نہ پی جائے، کہیں زنا نہ ہو۔ کہیںجوا نہ ہو۔کوئی بےنمازی نہ ہو، کیا مشکل ہےاللہ کےلئے؟
ا ءنتم اشد خلقا ام السمآئ۔ ترجمہ تو یہ ہی۔ کہ تمھارا بنانا مشکل ہےیا آسمان کا بنانا مشکل ہی۔ لیکن اللہ کہ رہا ہے؟ تمھیں قابو کرنا مشکل ہےیا آسمان کو قابو کرنا مشکل ہے؟ تمھیں قابو کرنا زیادہ مشکل ہےیا آسمان کو قابو کرنازیادہ مشکل ہے؟
بنا ھا میں نےاس کو بنایا۔ رفع سمکھا چھت کو اٹھایا۔فسواھا برابر کیا۔ و اغطش لیلھا رات کو لایا و اخر ج ضحھا دن کو لایا۔
والارض بمد ذلک دحھا زمین کو بچھایا۔ اخرج منھا ماءھا ومرعٰھا زمین سےپانی نکالا چارا نکالا۔ والجبال ارسٰھا پہاڑوں کو گاڑا۔ متاعالکم والانعامکم تمھارےلئےاور تمھارےجانوروں کےلئے۔جو اللہ پہاڑوں کو گاڑ کےقابو رکھی۔ بارش کےقطروں پر اپنی طاقت کو ظاہر کرکےدکھائے۔ آسمان جیسی بڑی مخلوق کو قابو کر کےدکھائے۔ وہ اس چھ فٹ کےآدمی کو کیسےقابو نہیں کر سکتا؟
 

ظفر احمد

محفلین
لمحہ فکریہ
تو میرےبھائیو! ہمارےلئےامتحان ہےبڑا زبردست بڑا خوفناک ہمارےایک ایک قول فعل پر اللہ کی نظر ہےاور ایک دن ایسا آنےوالا ہےجب اللہ ہمیں اپنےسامنےکھڑا کر دیگا۔ بتائو آسمان کو قابو کرنا مشکل ہےیا انسان کو؟ یہ اللہ پاک ہمیں متوجہ فرما رہا ہے۔ قل کل یعمل عٰلی شاکلتہ۔ کہ کرو کرو راستےکھلےہوئےہیں ۔ گناہوں کےبھی، اچھائی کےبھی ، برائی کےبھی ، ایمان کےبھی ، کفر کےبھی ، سارےراستےکھلےہوئےہیں ۔ تمھیں اختیار دےدیا ہے جو چاہےایما ن لائےاور جو چاہےکفر اختیار کرے۔ فمن شاءفلیومن و من شاءفلیکفر لیکن یہ بتایا کہ: لاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون۔ کہ اپنےرب کو غافل مت سمجھو وہ غافل نہیں ہے۔ تو میرےبھائیو! ہم موت سےپہلےپہلےاپنےآپ کو غفلت سےنکالیں اور ساری دنیا کےانسانوں کو بھی غفلت سےنکالیں کیونکہ ہمارا مسئلہ صرف اپنی ذات کےساتھ متعلق نہیں ہے۔ ساری دنیا کےانسانوں کا مسئلہ ہےاور خاص طور پر اس امت کا مسئلہ ہےجب اکثریت میں نا فرمانی آئےگی تو عذاب کےدروازےکھلیں گےاو جب اکثریت میں فرمانبرداری آئےگی تو اللہ پاک کےرحم و کرم سےفضل کےدروازےکھلیں گے۔ اسی لیےہم ہی عرض کر ہےہیں کہ بھائیو! اپنی ذات کےلئےبھی توبہ کریں اور لوگوں سےبھی توبہ کروائیں۔ اپنےشہر کا ماحول ایسا بنائیں کہ کوئی بھی یہاں آ کر گناہ کی جرات نہ کر سکے۔
 

ظفر احمد

محفلین
انسان محتاج ہے

میرےبھائیو! اور دوستو! انسان کمزور ہے ۔ خلق الانسان ضعیفا۔ یہ سہاروں کےبغیر چل نہیں سکتا ۔ جسم کےنظام کےلئےغذا کا، پانی کا اور ہوا کا محتاج ہے۔ ضروریات زندگی پورا کرنےکےلئےساری کائنات کا محتاج ہے۔ ایک ایک چیز سےاس کی ضروریات وابستہ ہیں۔ اتنا کوئی بھی محتاج نہیں ہےجتنا انسان محتاج ہے۔ جانور، پتنگے، پرندےان کی کیا ضرویات ہیں کچھ نہیں، بہت تھوڑی ، جو تھوڑی دیر میں ہی پوری ہو جاتی ہیں ۔ لیکن انسان قدم قدم پر محتاج ہےپھر جتنا مالدار بنتا جاتا ہےانتا محتاج ہوتا جاتا ہی۔ جتنا عہدوں میں ترقی کرتا ہےاتنا وہ محتاج ہوتا جاتا ہے۔
ایک آدمی اپنی ضروریات پوری کرنےکےلئےہزاروں آدمیوں کا محتاج بنتا ہےچاہےوہ جھاڑو دینےوالا ہےیا کسی ملک کا صدر اور بادشاہ ہےیا بازار میں ریڑی لگاتا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ یاایھاالناس انتم الفقرآئ۔ اےانسانوں! تم فقیر ہو اور محتاج ہو ۔اب مشکل یہ ہےکہ جن سےہم امیدیں رکھتےہیں وہ بھی ہماری طرح محتاج ہیں۔ ہماری طرح ان میں طمع ہے، ہماری طرح لالچ ہے، ہماری طرح ان کی بھی ضروریات ہیں اور انسان میں اپنی ضروریات کو پورا کرنےکا جذبی بھی ہےلہٰذا جب محتاج نےمحتاج پر سہارا کیا ، کمزور نےکمزور پر اعتماد کیا تووہ بنیاد ٹوٹ گئی، عمارت ٹوٹ گئی کھنڈر بن گئی ۔
 

ظفر احمد

محفلین
پہلا سبق

تو سب سےپہلا سبق جو اللہ تعالٰی نےمسلمانوں کو سکھاتا ہےوہ ہے لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ۔ یہ پہلا سبق اللہ دیتا ہےاور سارےنبیوں کی پہلی دعوت یہی ہےکہ تم اس کائنات میں اللہ جیسا نہیں پا سکتی۔ لیس کمثلہ شی۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا تم اللہ کو اپنےساتھ لےلو اور اس کےسامنےہر ضروریات رکھنےکی عادت بنالو اور اس کےمحتاج بن جائو ( جو کسی کا محتاج نہیں)تو وہ تمھاری دنیا اور آخرت کی ساری ضرورتوں کو پورا کر دے گا ۔

اللہ کےساتھ اپنا تعلق بنائو

لیکن اس کےلئےشرط یہ ہےکہ اس کےساتھ تعلق قائم کیا جائے۔ اور وہ تعلق قائم کیسےہوگا؟ یہ جتناتبلیغ کا کام ہو رہا ہےیہ اللہ تعالٰی ساتھ تعلق کو ٹھیک کرنےکی محنت ہو رہی ہے، اگر کسی سےتعلق بنانا ہو تو کتنا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صرف تھانیدار یا ایس پی ہے یا کمشنر یہ سارےچھوٹےچھوٹےآفیسر ہیں ان سےاگر تعلق بنانا ہو تو کس طرح آدمی گردش کرتا ہے، راستےتلاش کرتا ہے، خوشامد کرتا ہے۔ جھوٹ سچ ان کےسامنےبولتا ہے تب جا کر ان سےتعلق قائم ہوتا ہےتو اللہ سےتعلق پیدا کرنا جو زمین اور آسمان کا بادشاہ ہے، ان سب سےآسان ہےجتنےآپ انسان سےتعلق قائم کرنےمیں تھکتےہیں۔ اس سےکم اللہ تعالٰی سےتعلق قائم کرنےمیں تھکا جائےتو سارے مسئلےحل ہو جائیں ۔ اللہ تعالٰی سےتعلق قائم کرنےکی ضرورت ہے دنیا والوں سےتو یہ معاملہ ہےکہ نہیں ۔ ہمیںروٹی کی ضرورت ہےتو جس پر امید ہےوہ بھی روٹی کھاتا ہےاور ہمیں خوف سےامن کی ضرورت ہےاور جس پر ہماری امید ہےوہ خود بھی خوفزدہ ہے۔ ہماری طمع ہےکہ دولت بڑھ جائےاور جن لوگوں سےہم دولت نکالنا چاہتےہیں ان میں بھی طمع لالچ ہےکہ ہماری دولت اور مال بڑھ جائےاور ہم اپنےگھر کو روشن کر نا چاہتےہیں۔اور جن جن راستوں سےہم کوششیں کر رہےہیں جن کی جیبوں سےروپےنکال رہےہیں وہ خود بھی چاہتےہیں کہ ہمارےبھی محل کھڑےہو جائیں ۔
لیکن اگر ہم اللہ سےتعلق قائم کر لیں تو اللہ تعالٰی کسی ایک بھی چیز کا محتاج نہیں، نہ وہ کھائے ،نہ پئے ، نہ سوئےنہ تھکےنہ وہ پریشان ہو اور نہ اس کےخزانوں میں کوئی کمی آئے۔ کائنات کےاس نظام کو چلا کےنہیں تھکا کہ یہ کہنےلگےکہ میں تھک گیا ہوں اب کل دربار لگےگا ہم اپنی اپنی ضرورتیں اس کےپاس لےکر آئیں گےکیونکہ نہ سوتا ہے نہ گھبراتا ہے نہ جاہل ہے نہ عاجز ہے بلکہ وہ غالب ہے غیرالمغلوب اس پر کوئی غالب نہیں سب پر اس کی طاقت چھائی ہوئی ہے اس سےطاقت ور کوئی نہیں جو اس پر چھا جائے۔ وہ جائر ہے مجبور نہیں وہ غیرالمخلوق ہے وہ خالق ہے محلوق نہیں
 

ظفر احمد

محفلین
مالک غیر الملوک، وہ مالک ہےمملوک نہیں ۔ ناصر غیر المنصور ، وہ مدد کرتا ہےمددکا محتاج نہیں۔ حافظ غیر محفوظ وہ حفاظفت کرتا ہےاپنی حفاظت کراتا نہیں ۔
رب غیر مربوب وہ پالتا ہےاور پرورش کرتا ہےاور خود اپنی پرورش میں کسی کا محتاج نہیں۔ شاہد غیر مشہور، وہ سب کو دیکھتا ہےاس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ،
سب چیزیں اس کی نظروں میں ہیں ۔ لا تدرکہ الابصار ۔ اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ۔ وھو یدرک الا بصار۔ ہم سب کو دیکھتا ہے۔ کتنی دور ہے۔ لا تراہ العیون۔ آنکھ نہیں دیکھ سکتی ۔ آنکھ تو ستارےبھی نہیں دیکھ سکتی ، اللہ کو کیسےدیکھ سےگی۔ ولا تخالطوہ الظنون ۔ دنیا میں انسانی خیال سب سےتیز رفتار سواری ہے۔ تو اللہ تعالٰی تک خیال بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ساری دنیا کےانسانوں کےخیالوں کو اکھٹا کیا جائے تو وہ ان سےبھی اوپر ہے۔ خیال کی پرواز تخیل کی پرواز اڑتےاڑتےتھک جائےاور اللہ کو نہ پہنچ سکے۔ ولا یصفوہ الواصفون۔ سارا جہاں مل کر اس کی تعریف کرنا چاہے۔ تو سب مل کر اس کی تعریف نہ کرسکیں ۔ اتنےدور اور اتنا اونچا ہےلیکن اس کی عجیب صفت ہی۔ بل ھواقرب الیہ من حبل الورید۔ یہاں پر دو متضاد چیزیں آپس میں مل گئی ہیں دو ناممکن ، ممکن ہو گئےاتنا دور اتنا دور ہےکہ خیالات بھی اس تک نہ پہنچ سکے، اور اتنا زیادہ قریب ہےکہ شہ رگ سےبھی زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی فوقیت اور اوپر ہونا۔ فویتہ ما اکثر ملکہ کما اعلٰی مکانہ ۔ کیا عظیم الشان اس کی ملک ہےاعلٰی اس کا مکان ہے۔ ما اعظم شانہ ۔ کیا عظیم اس کی شان ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ یا اللہ سب کچھ تیرا ہے ملک تیرا ہے کبریا ئی تیری جبروت تیری قدرت تیری جمال و جلال تیرا ۔ اس ذات کو ہم ساتھ لےلیں تو کام بن گیا۔ پھر وہ ایسا بادشاہ ہےجو کسی کا محتاج نہیں دنیا کےبڑےبڑےبادشاہ سب محتاج ہیں اسمبلیاں پاس کریں سینٹ پاس کریں تب کہیں جا کےان کا حکم چلےپھر ان کےخلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہوجائےتو کرسی الٹ جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی ایسا بادشاہ نہیں ہے۔ احد اکیلا صمد بےنیاز الملک لا شریک لہ اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں اس کا کوئی مثل نہیں ۔ العالی اونچا لا ثانیہ اس کےبرابر کوئی نہیں ۔وہ غنی ہےاس کا مدد گار کوئی نہیں ۔ اسکو کسی چیز سےنفع نہیں پہنچتا ۔ اسےکوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اس پر کوئی غالب نہیں۔ اسکو کوئی چیز تھکاتی نہیں ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اس سےپہلےکچھ نہیں اسکےبعد کچھ نہیں ۔ کوئی چیز اس سےاوپر نہیں کوئی چیز اس سےچھپی ہوئی نہیں۔ اگر ایسا بادشاہ ہماری پشت پر آجائےتو ہم سےطاقت ور دنیا میں کون ہوگا۔ ہم سےبڑا عزت والا کون ہوگا؟ آج ساری دنیا میں غلط ذہین بن گیا ہےکہ پیسہ ہوگا تو کام چلےگا پیسہ نہیں ہوگا تو کام نہیں چلےگا۔

میرےبھائیو! ہم پوری دنیا کو بتائیں کہ اللہ ساتھ ہوگا تو کام چلیں گےاور اللہ ساتھ نہیں ہوگا تو کام نہیں چلیں گےاور بعض کہتےہیں کہ بہت سارےکام چلتےہیں لیکن اللہ ساتھ نہیں تو یہ ان کی ڈھیل ہےاور یہ ان کو مہلت ہےکب تک ؟ موت تک۔ اللہ کی کتاب کا اعلان ہے ہم نےاپنےنا فرمانوں کو ڈھیل دی ہوئی ہےوہ جھوٹ بول کر کما رہےہیں اور ان کو رزق آتا ہیے وہ لوگوں کےپیسےمار رہےہیں ۔ دبا رہےہیں حق مار رہےہیں خیانت کر رہےہیں غلط کو صحیح کی شکل میں بیچ رہےہیں ۔ اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ تو کیا اللہ تعالٰی کی کتاب کہتی ہےکہ ہم نےان کو مہلت دی ہوئی ہےاور ان سب کو آپ بتائیے۔ و املی لھم ان کیدی متین ۔ جب تمھارا رب ان کو پکڑےگا تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہیےایک اور جگہ اللہ فرماتا ہیےیہی تیرےرب کی پکڑ کا حال ہےجب وہ بستیوں کو پکڑتا ہےتو اس کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔ اور اس میں بڑی نشانیاں ہیں ۔ جس کو آخرت کےعذاب کا ڈر ہےوہ اس سےسبق حاصل کرےگا اور آخرت کا خوف نہیں وہ بہک جائےگا بھٹک جائےگا ۔ آخرت کو جاننےوالوں کےلئےاتنی ہی نشانیاں اس میں کافی ہیں یہ سب اللہ تعالٰی کی ڈھیل میں ہیں یہ نہیں کہ وہ اللہ تعالٰی سےغالب ہو کر کما رہےہیں۔ میرےبھائیو! ہم اللہ تعالٰی کو ساتھ لےلیں وہ کھاتا نہیں کہ اس کو طمع ہو کہ میں پہلےخود کھائوں پھر تمھیں کھلائوں ماں کو بھی سخت بھوک لگی ہوتی ہےتو پہلےخود کھا لیتی ہےپھر بچوں کو کھلاتی ہے تو اللہ تعالٰی نہ گھر کا محتاج ہےکہ پہلےاپنےلئےگھر بنائےپھر آپ کو دےنہ آرام کا محتاج ہےکہ پہلےخود آرام کرےپھر آپ کو آرام کرائے ہر چیز سےہر عیب سےپاک ذات اللہ کی ہے۔
 

ظفر احمد

محفلین
اللہ بھی ہو اور کوئی بھی

اللہ کو اپنے فیصلوں میں اسکو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا وہ حکیم ذات ہےاگر وہ ذات اکیلی ہمیں مل گئی ہمیں سب کچھ مل گیا۔ اللہ فرماتا ہے الیس اللہ بکاف عبدہ ۔ میرےبندےکافی نہیں ہوں میں؟ اللہ بھی اور کوئی بھی اسی کو تو شرک کہتےہیں اللہ بھی ہےیہ بھی ہےاور وہ بھی ہےیہیں سےشرک کےدروازےکھلتےہیں ۔ ابو طالب کےگرد قریش کا گھیرا ہےوہ اصرار کر رہےہیں کہ بھتیجےکو روک لو ورنہ ہم اسےقتل کر دیں گےانہوں نےبلا یا آپ تشریف لائےاور چار پائی کےپائوں کی طرف بیٹھ گئےکہا بھتیجےتیری قوم آئی ہےآپ ان کو کچھ کہنا چھوڑ دیں اور یہ تجھےکچھ نہیں کہیں گےآپ نےفرمایا۔ اےچچا میں ایک بات ان سےکرتا ہوں ۔ ایک بول میرا مان لیں تو عرب سارا ان کاتابع ہوگا اور سارا جہاں ان کی حکومت کےنیچےآجائےگا۔ تو یہ سب اچھل پڑےابو جہل نےاپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا تیرےباپ کی قسم دس دفعہ بھی تیرےبول ماننےکو تیار ہوں وہ بول کیا ہےجس سےپورا عرب ہمارےتابع ہوجائی؟ وہ کیا ہےجس سےعرب اور عجم ہمارا غلام ہو جائی؟ تو آپ نےفرمایا۔ لا الہ اللہ بس یہ ہےیہ مان لو۔ اس نےکہا تو کئی خدائوں کو ایک بناتا ہےیہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔ یہی آج ہماری سمجھ میں بھی نہیں آرہا ہیے میرےبھائیو! اللہ تعالٰی کو ساتھ لےلو تو بحر و بر فرش و عرش لوح و قلم کرسی زمین مکان ہوا فضا سب اللہ کی ہیں اور اللہ کےتابع ہیں یہ عالم کچھ نہ تھا اللہ نےآدم کےساتھ اس کو بنایا اور اس کو شکل دی ہر چیز کو بنایا اور اس کا اندازہ لگایا۔ پھر آسمان کو اٹھایا ۔ آسمان کےلئےستون نہیں لگایا پھر زمین کو بچھایا پھر اس میں سےپانی کو نکالا پھر چارا نکالا پھر پہاڑ لگائےرات اور دن کا نظام بنایاپھر کبھی دن کو لمبا کیا کبھی رات کو لمبا کیا۔ پھر سورج کو دہکایا۔ پھر اللہ نےچاند کی چاندنی کو ٹھنڈا کر کےزمین میں بکھیر دیا ۔اللہ فرماتا ہےکہ تم غور کیوں نہیں کرتےہو تمھارےرب نےزمین اور آسمان کو کیسےبنایا؟ تم کو جوڑا جوڑا بنایا۔ ہمیں ساری چیزوں سےکاٹ دیتی ہےنید ۔ رات کو اللہ نے سب کےلئےتمام مخلوقت کےلئےآرام کی چیز بنائی۔
 

ظفر احمد

محفلین
اللہ سےبنا کر رکھو

اللہ تعالٰی قرآن کےذریعےہمیں بتا رہےہیں کہ یہ ہوا کا نظام پانی کا نظام پہاڑوں کا دریائوں کا نظام اور زمین کا نظام ہمارےلئےہیں ۔ اللہ تعالٰی کو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں ۔ تو اللہ ہی سےبنا کر رکھو ایس پی سےمیئر سےکمشنر سےبنا کےرکھو اور زمین و آسمان کےبادشاہ سےبگاڑ کےرکھو تو کیسی حماقت ہی؟ لوگ تو بدمعاشوں سےبنا کر رکھتےہیں جن کو کام پڑتےہیں تو کام آئیں گے۔ تو ہم زمین اور آسمان کےبادشاہ سےبگاڑ کر چلیں تو ہماری زندگی کیسی سکھی ہوگی ہم کیسےچین پائیں گے؟ تو اس کےلئےمیرےبھائیو! اپنےاللہ سےتعلق قائم کر لو ہر کام میں ساتھ لےلو سب سےزیادہ آسان اللہ کو ساتھ لینا ہےبڑا آسان بادشاہ ہےاس کی قدرت اتنی بڑی ہےکہ اس کی کوئی حد نہیں ۔

اللہ کو اپنےبندےکی توبہ کا انظار ہے

اپنےبندوں سےتعلق اتنا ہےکہ کائنات کی ہر چیز نےاجازت مانگی ہےکہ اےاللہ نافرمانوں کو ہلاک کردوں ؟تو اللہ کہتا ہےکہ نہیں چھوڑ دو میں ان کی توبہ کا انتظار کر تا ہوں ۔ تو پہلےکام کرنےکا یہ ہےکہ اپنےاللہ کو ساتھ لینا ہےتو اس کےلئےتوبہ کر لیں تبلیغ کوئی جماعت نہیں یہ ایک محنت ہےکہ ہر مسلمان اپنےاللہ سےجڑ جائےاور تعلق بنا لے۔ مسئلےحل کروانا ہےتو اللہ سےحل کر والے ۔ سارےاپنی اپنی زبانوں میں مانگ لو سب اکھٹےایک ہی آواز میں مانگ لو تو اللہ تعالٰی یہ نہیں کہےگا ارےبھائی کیا کر رہےہو اتنا شور میں کن کن کی سنوباری باری مانگو ۔ اللہ کہتا ہےکہ جتنا جی میں آتا ہےمانگو ۔ فاتیٰت کل انسان مسئلہ میں تم سب کا مانگا تم سب کو دےدوں ۔ میرےخزانےمیں اتنی بھی کمی نہیں آتی جتنا سوئی کو سمندر میں ڈال کر باہر نکالا جاتا ہے۔ جس طرح سمندر میں کمی نہیں آتی اسی طرح تیرےرب کےخزانےمیں کوئی کمی نہیں آتی ۔ تو میرےبھائیو ایسےاللہ میرے اور آپ کےہو جائیں تو کیا خیال ہےہمارےکام بنیں گےیا نہیں ؟

ایک صحابی کا واقعہ

ایک صحابی اپنےگھر میں آئےتو پوچھا کچھ کھانےکو ہے؟ بیوی نےکہا نہیں فاقہ ہےتو پریشان ہو گئےگھر میں بیٹھا نہیں جا رہا تھا نہ بھوک کا حال دیکھا جائے اس لئےباہر نکل گئی۔ بیوی نے سوچا کہ میں اپنا فاقہ کیسےچھپائوں پڑوس سےکہ ہمارےگھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس نےتنور میں آگ جلائی کہ پڑوسیوں کو پتہ چل جائےکہ اس نےروٹی پکانےکےلئےتنور گرم کیا ہےاور ادھر خالی چکی چلانا شروع کر دی یوں اپنےقافہ کو چھپایا اس دوران اللہ تعالٰی سےدعا کی یا اللہ آپ جانتےہیں کہ ہم بھوکےہیں اللہ ھما ارزقنا آپ ہمیں رزق کھلا دیں ۔ صرف جملہ یا اللہ ہمیں کھلادےابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تنور سےخوشبوئیں اٹھنےلگیں اور اتنےمیں دروازےپر خاوند آیا تو خاوند کو لینےگئی میاں اور بیوی نےتنور میں جھانک کےدیکھا تو تنور میں رانیں بھنی جارہی ہیں اور چکی پر جا کےدیکھا تو اس سےآٹا نکل رہا ہےسارےبرتن بھر لئےجب چکی اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہیں تھا ۔ اب وہ حضور کی خدمت میں کہ یا رسول اللہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ آپ نےفرمایا اٹھا کر نہ دیکھتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی رہتی۔ میرےبھائیو! ایسا تعلق اللہ سےبنا لیں تو، پھر سودےمیں جھوٹ بولنےکیضرورت نہیں پڑےگی۔ پھر ہمیں سود پر سودا کرنا نہیں پڑےگا۔ پھر ادھار کا ریٹ الگ کرنےکی ضرورت نہیں پڑےگی۔ اللہ تعالٰی سےتعلق بنا لیں اس سےمانگنا آجائےیا اللہ ! خدا کی قسم اس میں جو طاقت ہےاس سےعرش کےدروازےکھل جاتےہیں۔
 

ظفر احمد

محفلین
للہ کی مدد کےبغیر کامیابی ممکن نہیں۔

سب سےپہلا معرکہ جس میں حق و باطل ٹکرائےجنگ بدر ہےبدر اسلام کا ایک بنیادی سنگ میل ہے۔ جہاں سےاسلام کی تاریخ بنی ایک طرف پوری مسلح فوج کھڑی ہوئی ہے ہزار آدمی ہیں تیں سو گھڑ سوار ہیں سات سو تلوار سےلیس باقی نیزےوالےہیں ادھر کل تین سو تیرا آدمی کھڑےہیں یہ تین سو تیرہ بغیر تیاری کےنکلےہیں لڑائی کےلیےنہ ذہنی طور پر تیار ہیں نہ تھیار ہیں سارےلشکر میں آٹھ تلوار یں ہیں سات سو تلوار اور آٹھ سو تلوار کیا مقابلہ ہے تین سو گھوڑے اور دو گھڑ سوار کیا مقابلہ ہے۔ ساٹھ اونٹنیاں یہ کل سامان جنگ ہےبدر کی لڑائی کا کل سامان جنگ اور ایک ہزار مسلح ہےاس زمانےکےسارےہتھیار وں کےساتھ اور اللہ تعالٰی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدےمیں ہیں ۔ اور دعا کر رہیں ہیں کہ انکو تونےمار دیا تو پھر تیرا نام لینےوالا کوئی نہیں رہےگا ۔ یہ الفاظ بدر کےصحابہ کی عظمت کو بتاتے ہیں کہ اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اتنا اونچا مقام دےرہا ہےکہ اگر یہ مٹ گئےتو تیرا نام بھی دنیا سےمٹ جائےگا یہ ایسےبنیادی لوگ تھےاس دن جو روئےہیں اور اللہ سےمانگا ہےکچھ بھی نہیں ہاتھ میں اور ادھر سب نےمانگا ۔ سب مانگ رہےہیں یا اللہ تو ہی کرےگا تو ہی کرےگا۔ تو اللہ نےکہا میرےہزار فرشتےآرہےہیں کافر ایک ہزار ، فرشتےبھی ایک ہزار ایک بات سمجھائی کہا فرشتوں کو نہ سمجھنا کہ فرشتوں کا کام ہوتا ہی۔ کام اللہ ہی کرتا ہیے
وما النصر الا من عنداللہ کام اللہ ہی بناتا ہیے دوسری مدد آئی ۔ اذ یغشیکم النعاس امنة منہ ۔ اللہ نےنیند دےدی سب سو گئےتھکےہوئےتھےسو گئےتھکاوٹ دور ہو گئی ۔ تیسری مدد آئی ۔ ایک تو اللہ تعالٰی نےفرشتےبھیجےشیطان کےوسوسےدور ہو ئےاور استقامت ہو گئی قدم جم گئےاور اللہ تعالٰی نےدلوں کو مضبوط کردیا ۔ پھر پانچویں مد آئی ۔ اللہ نےفرشتوں کو لڑنےکا حکم دےدیا فرشتےآتےتو تھےپر ہمیشہ ، لیکن لڑتےنہیں تھےجنگ بدر میں فرشتےلڑےہیں یہ پہلی جنگ تھی جس میں فرشتوں نےآکےلڑائی کی اور اللہ نےان کو بتایا ۔ ان کی گردنیں کاٹنا اور ان کےہاتھ کاٹنا ۔ تو کہا ں تین سو تیرہ اور کہاں ایک ہزار جب لشکر آمنےسامنےہونےلگےتو ایک ہوا چلی ایک زور سےہوا آئی ۔ حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا جبرائیل آگئےفرشتوں کےساتھ ۔ پھر ایک دوسری ہو چلی حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیسی ہوا ہے پ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا جبرائیل آگئےفرشتوں کےساتھ پھردوسری ہو چلی حضرت علی نےپوچھا یا رسول اللہ یہ کیا ہےپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہامیکائیل گئےفرشتوں کےساتھ ۔ اللہ نےمنٹوں میں پانسہ پلٹ کےدکھا دیا ۔ اللہ کی مدد کےبغیر کامیابی نا ممکن ہی۔
 

ظفر احمد

محفلین
حضرت شرابیل ابن حسن رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک پتلے دبلے سے صحابی ہیں وحی کے کاتب تھے وحی لکھتے تھے مصر میں ایک قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا کچھ دن زیادہ گزر گئے ایک دن حضرت شرابیل کو جوش آیا گھوڑے کو ایڑ لگا کے آگے ہوئے اور فیصل کے قریب جا کر فرمایا : اے قبتیو سنو! ہم ایک ایسے اللہ کی طرف تمھیں بلا رہے ہیں اگر اس کا ارادہ ہو جائے تو تمھیں اس قلعے کی آن کی آن توڑ سکتا ہے۔ لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہ کر جو شہادت کی انگلی اتھائی ۔ سارا قلعہ زمین پر آ گرا یہ کلمہ سیکھا ہوا تھا ہم گدھے ہیں جنہوں نے ابھی تک کلمہ سیکھا نہیں ہے جب کلمہ اندر آتا ہے تو باطل ایسے ٹوٹتا ہے جیسے تم انڈے کے چھلکے کو توڑتے ہو۔

تو بھائیو! آج اللہ کی محبت دلوں سے نکل گئی ہے۔ اللہ پر اعتماد اور یقین اٹھ گیا ہے وہ ہمارے تمام مسائل حل کردے گا اس کا علم تو ہے اس کا یقین ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ اس امت کا کام ہے کہ اللہ کی عظمت کبریائی جبروت جلال کے قسے سنا سنا کر لوگوں کے دلوں میں جتنے بت ہیں ان کو توڑتے ہیں اندر کے بتوں کو بھی توڑ کر لا الہ کا نقش دلوں میں راسخ کرتے ہیں کہ لا الہ الااللہ دل میں اتر جائے ایک حدیث سے آپ اندازہ لگایئے۔ والذی نفسی بیدہ۔ اس ذات کی قسم جو میری جان کا مالک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اتنا بڑا ترازو ہو کہ اس کے ایک پلڑے میں سات آسمان اور سات زمین رکھ دیئے جائیں اور ان کے درمیان میں جو کچھ بھی ہے ان سب کو رکھ دیا جائے اور دوسری طرف لا الہ الااللہ رکھ دیا جائے تو لا الہ الااللہ سب کو ہوا میں اٹھا دے گا اور وزنی ہو جائے گا اور ہماری محنت یہ ہے کہ ہم اس کو دل اتاریں اس کو سیکھیں اور اس کی دعوت دیں۔

لا الہ الااللہ میں کائنات کی طاقت نہیں اللہ کی طاقت چھپی ہوئی ہے اللہ وہ ذات ہے نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ اک کا کوئی آخر۔
 

ظفر احمد

محفلین
اللہ تعالٰی کا انسان سے شکوہ

حدیث میں آتا ہے کہ۔ میرے بندے جب تو کوئی گناہ کرتا ہے یہ نہ دیکھا کر کہ چھوٹا ہے کہ بڑا ہے۔ یہ دیکھا کر کہ نا فرمانی کس کی ہورہی ہے۔
نافرمانی تو بہت بڑے رب کی ہورہی ہے۔
اس کی ذات سے اثر لے کر چلنا یہ ایمان ہے۔
آپ میں سے بہت سارے مجھے جانتے ہیں نام سے نہیں جانتے ہیں تو شکل سے تو پہچان رہے ہیں تعارف تو اس کو بھی کہتے ہیں۔ تعارف اور تعلق کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اس کے دروازے پر آئیں تو وہ آپ کا کام ضرور کرے اگر وہ کر سکتا ہے۔ آپ کو وہ لوٹا نہ سکے۔ ایسا اللہ کے ساتھ تعلق بنالیں اور اللی تعالٰی بھی ہہی فرماتا ہے کہ اپنے بندے کا ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ اس کا نام تعلق ہے اس تعلق کو اللہ پاک کے ساتھ آپ بنا لیں۔

جب اللہ کی ورشنی اندر داخل ہوتی ہے تو اندر سینہ کھل جاتا ہے۔ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اے رسول اللہ اس نور کی کوئی نشانی ہے؟ ہم سارے ایمان والے بیٹھے ہیں ہم سارے دعا کرتے ہیں ہمارے اندر ایمان کا نور ہے دیکھو اور اس کی نشانی کیا ہے؟
اللہ پوچھنے والے کا بھلا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی نشانی تین چیزیں ہیں۔ 1دنیا سے بے رخبتی 2جنت کے شوق3موت سے پہلے موت کی فکر کرنے والا۔ یہ تین باتیں ہیں تو ایمان کا نور دل کے اندر آچکا ہے۔ اگر تین باتیں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایمان ہے لیکن نور سے خالی ہے۔ جیسے لائن ہے اندر بتی بھی ہے اور جلانے والی کوئی نہیں ہے۔ ایمان نے مگر اس کو چمکانے کی ضرورت ہے۔
 

ملنگ

محفلین
ماشااللہ مولانا صاحب ک اس بیان کا کیا نام ہے ؟؟؟
بہت اچھا ھے ایسی اچھی شیرنگ کرنے پر اللہ آپ کو جزا دے
 
Top