محمد وارث
لائبریرین
ٹھیک کہا وارث بھائی اس عمر میں بچوں کی دلچسپی زیادہ تصویری کتابوں اور کہانیوں کی طرف ہوتی ھے اور یہی تصویریں اس وقت ان کے ذہن پہ نقش ہو جاتی ہیں اسی لیے بچوں کو کلر بکس اور تصویری کہانیوں کے ذریعے ہی تعلیم دی جاتی ھے ، اگر انہیں زبردستی ایک جگہ بٹھا کر لیکچر سننا پڑے تو کبھی نہیں سن پائیں گے ، کھیل کھیل میں سوال جواب کا طریقہ اپنایا جائے تو خاصا مفید رہتا ھے ۔
غالب سے میری شناسائی بھی نویں دسویں جماعت میں ہی ہوئی تھی غالب کے خطوط کے ذریعے لیکن اس وقت اتنی ثقیل اردو اوپر سے گزر جاتی تھی اور یہ والا سین ہوتا تھا کلاس میں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی صحیح کہا زونی، حسن اور میرے مکالمے کا طریقہ بھی یہی ہوتا ہے، ہر بچے کی طرح وہ بھی سوال کرتا ہے، اور بقولِ اسکے میرے جوابات زیادہ "تسلی بخش" ہوتے کہ "ماما کو تو سب چیزوں کا پتہ ہی نہیں ہے" اور حیرت انگیز طور پر ایسے موقعے پر اسکی ماما بھی، کوئی روایتی "لاہوری جگت" لگانے کی بجائے، خوش ہوتی ہے