النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ کی تفاسیر۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیّین سیدنا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمانوں کا قلبی و روحانی تعلق کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس امت محمدیہ کی تمام اسناد ، تمام طرق اور تمام سلسلے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے نام مبارک اور وجود مسعود سے برکت حاصل کرتے ہیں۔ اور آپ ہی کی ذات عالی ہر معاملے میں ہمارے لیے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جا بجا اپنے حبیب مکرم کی شان عالی بیان فرمائی ہے اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو نہ صرف تمام عالم اور مخلوقات کے لیے رحمت و برکت کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے بلکہ مسلمانوں پر خصوصی شفقت و مہربانی فرماتے ہوئے حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ کا مژدہ جانفزا سنایا ہے جس کی تشریح ایک الگ دھاگے کی متقاضی ہے۔ قرآن پاک کی ایسی بہت سی آیات میں سے ہمارے اس دھاگے کا موضوع سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 6 ہے۔ جس میں اللہ عزوجل نے نہایت ہی پیارے ،مختصر لیکن جامع انداز میں مؤمنوں کا اپنے نبئ مکرم کے ساتھ خصوصی تعلق اور رشتہ بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 6۔
ان شاءاللہ العزیز اس دھاگے میں مندرجہ بالا آیت کے حوالے سے مختلف علماء کرام کےعلم سے اکتساب فیض کرنے اور مختلف تفاسیر سے خوشہ چینی کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم پر اپنے حبیب کی صورت میں جو احسان عظیم فرمایا ہے اس کی کسی حد تک معرفت و محبت حاصل کی جا سکے۔ اللہ عزوجل اپنی ، اپنے حبیب مکرم اور ان کی آل و اصحاب کی محبت سے ہمارے دلوں کو منور فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔​
(تفسیر صراط الجنان)

یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں: اولیٰ معنی ہیں زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں تینوں معنی درست ہیں اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام امور میں نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم مسلمانوں پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اور آپ کے حکم کے مقابلے میں نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤمنین پر اُن کی جانوں سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اور انہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ یعنی مسلمانوں پر بہت مہربان ، رحمت فرمانے والے ہیں۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سیدالمرسلین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری مثال اور لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، جب اس نے اپنے ماحول کو روشن کیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے کیڑے اس میں گرنا شروع ہو گئے تو وہ آدمی انہیں آگ سے ہٹانے لگا لیکن وہ اس پر غالب آ کر آگ میں ہی گرتے رہے، پس میں کمر سے پکڑ کر تمہیں آگ سے کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے ہی جا رہے ہو"۔(صحیح بخاری)

تاجدار رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان والوں کے سب سے زیادہ قریبی ہیں: مسلمانوں پر جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ قریب ہیں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سید المرسلین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ، تو جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے عصبہ (یعنی وارثوں) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں۔(صحیح بخاری)۔

وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ :- اور ان (نبی) کی بیویاں اُن(مومنوں) کی مائیں ہیں: نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا امہات المومنین کا تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو سگی ماں کا ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں کی وراثت میں وہ بطور ماں شریک نہ ہوں گی، نیز امہات المومنین کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مومنین کے ماموں، خالہ نہ کہا جائے گا۔(امام بغوی)
(تفسیر صراط الجنان)
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔​

علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:-

حضورﷺ ہم سے دور نہیں، یہ اور بات ہے کہ ہم خود ہی حضورﷺ سے دور ہوں ورنہ حضورﷺ کی شان تو یہ ہے کہ آپ ﷺ ہماری جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ قران مجید میں ہے۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ (الاحزاب آیت ۶)
٭ معنی یہ ہیں کہ یہ نبی ﷺ ایمان والوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ اگر حضورﷺ ہم سے دور ہوں تو پھر حضورﷺ سے ہمارا رابطہ کیسے ہوگا اور ہمیں رسالت کا فیض کیسے حاصل ہوگا۔ دیکھئے یہ آسمان کا سورج ہم سے دور نہیں جو جہاں بیٹھا ہے لاہور‘ کراچی‘ ملتان میں وہ کہتا ہے سورج میرے قریب ہے حالانکہ سورج تو ایک ہے اور وہ سورج سب کے قریب ہے یہ اور بات ہے کوئی شخص شامیانہ تان لے تو وہ خود سورج سے دور ہوگیا۔ شامیانہ ہٹا کر دیکھے تو سورج کو اپنے قریب پائے گا یہ تو دنیا کے سورج کا حال ہے اور جو ساری کائنات کا سورج میں اور تمام اشیاء کا مبدأ ہیں ان کے قرب کا کیا عالم ہوگا۔ بے شک ان کی شان یہی ہے کہ وہ تو ہماری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

٭ صحیحین کی حدیث ہے کہ حضورﷺ سورج گرہن کی نماز پڑھا رہے ہیں اور نماز پڑھاتے ہوئے کچھ آگے بڑھے اور پھر پیچھے آئے۔ نماز کے بعد صحابہ کرام نے وجہ پوچھی تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ کو میرے سامنے کردیا میں نے ارادہ کیا کہ جنت کے انگور کا خوشہ توڑ لوں اگر میں توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے۔
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو فقط جنت اور دوزخ کی مثالی صورتیں تھیں اور جنت دوزخ کی حقیقت نہیں تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے گھر سے کسی دوسرے مقام پر جائے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ شخص تو آگیا لیکن اپنی حقیقت اپنے گھر چھوڑ کر آیا تو جب حضورﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے لائی گئیں تو بے شک وہ فی الحقیقت جنت اور دوزخ ہی تھیں ان کی مثالی صورتیں نہیں تھیں اگر حقیقت نہ ہوتی تو حضورﷺ نے کیوں فرمایا کہ میں نے چاہا جنت کے انگور کا خوشہ توڑ لوں۔ کیا مثالی صورت کو کھایا جاتا ہے اگر مثالی صورت کو کھایا جاسکتا ہے تو کاغذ پر انگور کی مثالی شکل بنی ہوئی ہے اسے کوئی کھا کر دکھائے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے دوزخ کی حرارت بھی محسوس فرمائی اگر دوزخ کی حقیقت نہ ہوتی تو حرارت کیوں محسوس ہوتی۔ کیا مثالی سے بھی حرارت محسوس ہوسکتی ہے۔
٭ بعض لوگ یہ شبہ بھی وارد کرتے ہیں کہ اتنی بڑی جنت دوزخ کیسے ممکن ہے کہ ایک دیوار میں سما جائیں۔ یہ شبہ اس لیے پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو فراموش کردیا۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ اتنی بڑی جنت دوزخ کو اپنے حبیب ا کے سامنے دیوار قبلہ میں رکھ دے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نشانیاں دکھائی ہیں۔ آفاق اور انفس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم نشان موجود ہیں غور فرمائیے ہماری آنکھ کیسی چھوٹی سی ہے لیکن یہی چھوٹی سی آنکھ بڑی سے بڑی شے کا احاطہ کرلیتی ہے تو معلوم ہوا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ضرور قادر ہے کہ وہ جنت اور دوزخ کو ایک دیوار میں رکھ دے۔
٭ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کو دوزخ کی حرارت محسوس ہوئی اور حضورﷺ نے اس کا ذکر بھی فرمایا تو کیا آتش دوزخ سے جلنے کا خوف تھا ۔ افسوس! ایسی بات کوئی مومن نہیں کرسکتا کوئی جلنے کا خوف کہے تو خود ہی اپنا انجام سوچے میں یہ کہتا ہوں کہ حضورﷺ اس لیے پیچھے ہٹے کہ کہیں دوزخ کی آگ بجھ نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ دشمنان رسول کیلیے دوزخ کی آگ بھڑکتی ہی رہے۔ حضورﷺ کی شان کا کیا کہنا حدیث شریف میں تو یہ مضمون آیا ہے کہ جب حضورﷺ کے غلام پل صراط سے گزریں گے تو دوزخ فریاد کرے گی اور کہے گی۔
جُزْ یَا مُؤْمِنُ فَاِنَّ نُوْرَکَ اَطْفَاَ نَارِیْ
ترجمہ٭ اے مومن! تو جلدی سے گزر جا کیونکہ تیرے نور نے میری نار کو بجھا دیا ہے۔
٭ مقام غور ہے جب غلاموں کا یہ حال ہے کہ دوزخ بھی پناہ طلب کررہی ہے اور بجھ جانے کے خوف سے فریاد کررہی ہے تو حضورﷺ کے نور کا کیا عالم ہوگا۔

ربط۔ خطبات علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔​

مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ معارف القرآن میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:-

نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہنچاتا ہے کبھی نقصان، کیونکہ اگر نفس اچھا ہے ، اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے تو خود اپنا نفس ہی اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔ اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو پھر بھی اس کا نفع رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفع کے برابر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اپنے نفس کو تو خیر و شر اور مصلحت و مضرت میں مغالطہ بھی ہو سکتا ہے، اور اس کو مصالح و مضار کا پورا علم بھی نہیں، بخلاف رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں۔ اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے۔ اور وہ حق یہی ہے کہ آپ کی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ تعظیم و تکریم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں۔

اس آیت نے ازواج مطہرات کو صراحتاً امت کی مائیں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اشارتاً امت کے روحانی باپ قرار دے دیا، تو اس سے بھی اسی طرح کا ایک التباس اور اشتباہ ہو سکتا تھا جس طرح کا اشتباہ متبنیٰ کو اس کے غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنے میں ہوتا تھا، جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا کہ امت کے مسلمان سب آپس میں حقیقی بھائی بہن ہو جائیں تو ان کے آپس میں نکاح کا تعلق حرام ہو جائے، اور میراث کے احکام میں بھی ہر مسلمان دوسرے کا وارث قرار دیا جائے، اس التباس کو دور کرنے کے لیے آیت کے آخر میں فرما دیا :وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا۔ یعنی رشتہ دار کتاب اللہ یعنی حکم شرعی میں ایک دوسرے سے (میراث کا) زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے ان دوستوں سے بطور وصیت کے کچھ سلوک کرنا چاہو تو وہ جائز ہے، یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے کہ ابتداء ہجرت میں ایمانی اخوت کی بناء پر مہاجرین کو انصار کی میراث کا حق دار بنا دیا گیا تھا مگر بالآخر تقسیم میراث رشتہ داری اور ارحام کی بنیاد پر رہے گی۔
(تفسیر معارف القرآن)
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔​

ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:-

اس آیت مبارکہ میں نہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے دین کا ذکر ہے اور نہ تعلیمات و افکار کا۔ وہ سب رحمت ہی رحمت ہیں مگر یہاں اس آیت کا موضوع حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات اقدس ہے۔ اس لیے فرمایا النّبیُ ، نبی کی ذات جن کا نام محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یہ مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قریب ہونے کے حوالے سے جب اپنا ذکر کیا کہ میں بھی قریب ہوں تو فرمایا: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔ ’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔ (50: 16)
شہ رگ خون کی بڑی نالی کو کہتے ہیں۔ جسم کا ایک حصہ ہے جس میں خون دل سے جاتا ہے اور پورے جسم میں پھیلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قریب ہونے کو شہ رگ کی قربت کے موازنہ سے بیان فرمایا لیکن جب محبوب کا ذکر کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ شہ رگ سے قریب ہے، بلکہ فرمایا: میرا محبوب تمہاری جانوں سے بھی قریب ہے۔ اس لئے کہ شہ رگ کا پھر بھی تھوڑا سا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ ہیں پیار و محبت کے انداز جو چھپائے نہیں جاتے۔

اب میں جو بات بیان کرنے لگا ہوں میری اس بات پر فتویٰ کوئی نہ لگائے، سودا پسند آئے تو لے جائیں، نہیں تو چھوڑ جائیں۔ ہمارے پاس بڑے گاہک ہیں کسی اور کو بیچ دیں گے اور اگر کوئی فتویٰ لگا بھی دے تو ہم اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔ شہ رگ کٹ جائے تو مرنے میں کچھ دیر لگتی ہے۔ جب ہم جانور ذبح کرتے ہیں تو اس کی شہ رگ کاٹتے ہیں، شہ رگ کٹ بھی جائے تو اس کو مرنے میں پھر بھی وقت لگتا ہے۔ بکرا تڑپ۔تا تڑپتا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ شہ رگ کا کٹنا ہے۔ دوسری طرف جان ہے۔ کبھی ایسا بھی سنا کہ جان نکلے تو بندہ اُس کے بعد ایک سیکنڈ بھی زندہ رہے یا تڑپے؟ جان نکل جائے تو بندہ ختم ہو جاتا ہے۔ شہ رگ کٹے تو بندہ مرنے میں کچھ وقت لیتا ہے۔ جان نکل جائے تو مرنے میں کچھ وقت نہیں لگتا، اس لئے کہ جان نکلنے کا نام ہی مرنا ہے۔ جان نکل گئی تو مر گیا۔ شہ رگ کٹ گئی تو مرنے میں کچھ وقت لگا۔ فرمایا: ہم تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ کتنا قریب ہیں؟ آگے ذکر نہیں کیا، وہ چھوڑ دیا اور جب محبوب کا ذکر کیا تو فرمایا: میرا محبوب تمہاری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ جس طرح جان نکل جائے تو تم زندہ نہیں رہتے، زندہ رہنے کا امکان ہی نہیں رہتا، اس طرح میرے محبوب سے دور ہو گئے یا اُن کی رحمت سے محروم ہو گئے تو ساری کائنات ہی زندہ نہیں رہے گی۔ اس لئے کہ ساری کائنات میں زندگی کا ہونا بھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب سے ہے۔۔۔ مومن کے ایمان کی زندگی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے۔۔۔ جس طرح جان نکلے تو وقت نہیں لگتا اسی طرح میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ گویا جان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد ہی گھومتی ہے اور ایمان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد ہی گھومتا ہے۔
حضور کی رحمت، قربت اور عنایت کے بغیر نہ جان ہے اور نہ مومن کا ایمان ہے۔ یہ قربت و رحمت النَّبِيُ کی ذات کی شان ہے۔ لوگ تو ایسے ہی مناظروں میں الجھے رہتے ہیں۔ یہاں، وہاں چنیں، چناں کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ واضح اندازمیں فرمادیا کہ نبی تمہاری جانوں سے زیادہ قریب بھی ہیں، محبوب بھی ہیں اور عزیز بھی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن کے ساتھ ہیں!
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: أَنَا أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ۔ ’’میں ہر مومن کی جان سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم)۔
ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے فرمایا: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ ’’کوئی مومن نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے مگر یہ کہ میں دنیا اور آخرت میں اس کے زیادہ قریب تر ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری)۔
آیت مبارکہ میں مِنْ اَنْفُسِهِمْ فرمایا اور پہلی حدیث میں مِنْ نَفْسِهِ فرمایا جبکہ اب لفظ أنْفُسْ نہیں بلکہ فرمایا: أَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ دنیا میں بھی میں اُس مومن کے قریب تر ہوں اور آخرت میں بھی قریب تر ہوں۔ یعنی جس کے قریب میں نہیں ہوں وہ مومن ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

یہاں سے عقیدہ کی ایک فرع واضح ہو گئی کہ بعض لوگ پوچھنا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں اور کہاں نہیں ہیں؟ اور کتنا قریب ہیں کتنا نہیں ہیں؟ سن لیں! جو مومن ہیں اور جہاں بھی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ساتھ ہیں اور جو مومن نہیں، وہ بے شک جتنا بھی سمجھ لے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں ہیں اور یہاں نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہیں ہی نہیں۔ اُس کا حق ہے وہ جو چاہے کہتا پھرے، اُس کے لیے کھلی چھٹی ہے۔ اس لئے کہ جو مومن ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں ہیں اور وہاں نہیں یا وہاں ہیں اور یہاں نہیں۔ آقا علیہ السلام نے وہاں یہاں کے فرق کو ختم کر دیا۔ فرمادیا: أَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ یہاں بھی میں ساتھ ہوں اور آخرت میں بھی ساتھ ہوں۔ یہ رحمۃ للعالمین کا مطلب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا اظہار ہے۔

ربط - شان رحمۃ ً للعالمین۔۔۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔
تفسیر ابن کثیر۔

تکمیل ایمان کی ضروری شرط: چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک لہ کو علم ہے کہ حضور اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں اس لیے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ اختیار دیا۔ یہ خود اپنے لیے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو دل و جان سے قبول کرتے جائیں، جیسے فرمایا ، فلا وربک لا یؤمنون الخ، یعنی تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو دل وجان اور کشادہ پیشانی سے قبول نہ کر لیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی با ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے ، اس کے مال سے، اس کی اولاد سے اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے، حضور فرماتے ہیں، تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم۔ سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے ، اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے اور اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے۔
پھر فرماتا ہے، حضور کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں، عزت اور اکرام میں، بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسے خود ان کی اپنی مائیں۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلاً خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں۔۔۔

(تفسیر ابن کثیر)۔
۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت امام زین العابدین ع
فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں نور تھا۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی۔ (پھرحضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:)آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارا بیٹا احمد ہے،یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج5،ص483)
اسلامی عقائد و معلومات - نور والے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
درود و سلام کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO (الاحزاب، 33 : 56)
” بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo“

بے شمار درود سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر۔۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا۔
الشفاء بھیا۔
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔​

سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ تفہیم القرآن کے حاشیہ میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:-

مسلمانوں کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں ، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں ، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں ، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں ، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں ، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں ، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں ، اور آپؐ کے ہر حکم سرِ تسلیم خم کر دیں۔
اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سی لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیّت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اُسی طرح اُن کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سِوا دُنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نِکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ باقی دوسری احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان اُن کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ اُن کے بھائی بہن مسلمانوں کی لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔یہاں یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ تمام ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔

(تفہیم القرآن)
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۔
یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 6۔​

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عثمانی میں اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں:-

مومن کا ایمان اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک شعاع ہے اس نور اعظم کی جو آفتاب نبوت سے پھیلتا ہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام ہوئے، بناء بریں مومن (من حیث ہو مومن) اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لیے حرکت فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور اگر اس روحانی تعلق کی بناء پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ کے بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہو گا۔۔۔۔۔ باپ بیٹے کے تعلق میں غور کرو تو اس کاحاصل یہ ہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے لیکن نبی اور امتی کا تعلق کیا اس سے کم ہے؟ یقیناً امتی کا ایمانی و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا پرتو اور ظل ہوتا ہے اور جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملی ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف اتنا نہیں چلتا جتنا نبی کا چلتا ہے۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں اور اگر نبی حکم دیدے تو فرض ہو جائے"۔ ان ہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا کہ تم میں کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور سب آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
ازواج مطہرات مومنین کی مائیں ہیں، یعنی دینی مائیں ہیں تعظیم و احترام میں اور بعض احکام جو ان کے لیے شریعت سے ثابت ہوں، کل احکام میں نہیں۔

(تفسیر عثمانی)
۔۔۔​
 

ضیاء حیدری

محفلین
اَلنَّبِىُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِ۔مْ ۖ وَاَزْوَاجُهٝٓ اُمَّهَاتُهُ۔مْ ۗ وَاُولُو الْاَرْحَامِ بَعْضُهُ۔مْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِىْ كِتَابِ اللّ۔ٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهَاجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوٓا اِلٰى اَوْلِيَآئِكُمْ مَّعْرُوْفًا ۚ كَانَ ذٰلِكَ فِى الْكِتَابِ مَسْطُوْرًا (6)
نبی مسلمانوں کے معاملہ میں ان سے بھی زیادہ دخل دینے کا حقدار ہے، اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں، اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے کچھ سلوک کرنا چاہو، یہ بات لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔
 
Top