الوداع (افسانہ)

میں بہت سارا حصہ چھوڑ گیا ہوں۔ آگے کچھ نکات پر بات کروں گا۔

وہ دو لڑکیوں کا ذکر ۔۔ بھائی اگر وہ دونوں کہانی میں اہم ہیں تو ان کو ان کی بجا اہمیت دیجئے بھی، نہیں تو ایسے سرسری انداز میں تذکرہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو حذف کر دیا جائے۔ ہاں وہ ’’کس‘‘ والا جملہ، کہانی کو ایک دم گرا دیتا ہے کہ پورے ماحول سے لگا نہیں کھاتا۔ مزید وہ کسی ڈاکٹر آصف کے دھندے کا اور چھاپے کا ذکر؟ بات وہی ہے کہ اگر اس کی کوئی اہمیت اس کہانی کے پیش منظر یا پس منظر میں کہیں ہے تو اس کو واضح بھی ہونا چاہئے۔
اگر آپ کا مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ راحیل اور طارق وہی گپ شپ لگا رہے تھے جو نوجوان اور بے تکلف دوست لگاتے ہیں، تو ایسی گفتگو لائیے کہ وہاں کسی مزید حوالے کی کھوج میں جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے وہ سگریٹ والی بات ہے کہ وہاں کسی کھوج کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

جاری ہے
 
ابا حضور کا بیٹے کی سویٹر لے کر دوڑتے ہانپتے آنا بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ کہ باپ کے سینے میں بھی دل ماں کا سا ہوتا ہے، اس کا رویہ البتہ کچھ مردانہ اور رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے، ماں کو ایسے کسی رکھ رکھاؤ سےنہ غرض ہوتی ہے نہ پروا ۔۔ اس نکتے کو ابھار کر بیان کر دیا ہوتا تو کہانی یہیں مکمل ہو جاتی۔ ایک جملے پر میری طبیعت خاصی مکدر ہوئی ۔۔ اسے ابو پر ترس آنے لگا؟ (ابو کے اوپر ۔۔ یہ تو لسانیاتی طور پر بھی زیادتی ہے)۔


جاری ہے
 
کہو تو میں بھی چلے ہی چلوں۔۔۔ ۔ ویسے بھی گھر پر بیٹھا ہی رہوں گا۔۔۔ ۔ ابو کی نحیف آواز جیسے کہوں اور نہ کہوں کے درمیان پھنس کر رہ جاتی ہے۔ زمانے بھر کا درد اور اپنی آواز کو انہوں نے اس طرح ظاہر کرنا چاہا ہے جیسے انہوں نے بہت عام اور چھوٹی سی بات کہی ہے اور اس کے نہ مانے جانے پر بھی ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔


۔۔۔ یہ جملے ایک اچھے بھلے بنتے ہوئے تاثر کو خراب کر گئے۔ اور کہانی کے مطابق یہ بات گھر پر ہوئی ہے، نہ کہ کہیں راستے میں۔ تو پھر وہ سویٹر لے کر ہانپتے ہوئے کہاں سے آئے تھے اور کہاں پہنچے تھے؟
 
نثر میں آپ پر چوں کہ کوئی بڑی لفظیاتی پابندی نہیں ہوتی اس لئے یہاں زبان و بیان، محاورہ، جملے کی ساخت، الفاظ کی ترتیب ۔۔۔ کسی پہلو سے آپ کوئی رعایت طلب نہیں کر سکتے۔ جیسے شعر میں تعقیدِ لفظی کا بہانہ تو ہر شاعر کو ملتا ہے۔ تاہم یہ مقام شعریات پر بحث کا نہیں ہے، وہ پھر کبھی کہیں اور سہی۔

کہانی میں آپ کو کہانی پن بھی قائم رکھنا ہوتا ہے اور واقعات کو کسی منطقی نتیجے پر بھی پہنچانا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی نہ کوئی سوال، کوئی چبھن، کوئی غم کی لہر، کوئی خوشی کی ہوا کا جھونکا اختتام پر یوں لانا ہوتا ہے کہ وہ ’’محض کہانی‘‘ نہ رہے۔ ایک پتے کی بات بتاؤں؟ ایک ہی واقعے کو اخبار والا کسی اور طرح لکھے گا، اس پر بڑی بوڑھیوں کی گفتگو کسی اور طرح کی ہو گی، سرِ محفل وہی واقعہ کچھ اور انداز میں بیان کیا جاتا ہو گا، اور ۔۔ کہانی کار ان سب سے جدا، ایک ایسا رس کہانی میں ڈالتا ہے کوئی ایسا نکتہ اٹھاتا ہے کہ وہی واقعہ ’’محض کہانی‘‘ کی سطح سے کہیں اوپر اٹھ جاتا ہے۔

خوش رہئے، میری تلخ باتیں پڑھ کر بھی!
 
خدا حافظ کہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔وہ جانتا تھا امی کے گلے لگا تو

۔۔۔ وہی فعل کی عدم مطابقت ’’جاتا ہے۔ وہ جانتا تھا‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں تے سوچ دا ساں پیا۔۔۔ ۔۔ بھاویں تے منڈے دا ترا ای نکل گیا ہوئے جناب محمد یعقوب آسی کی پکڑ دھکڑ نا ل
کیہ کریئے بابیو! منہ آئی گل نہ رہندی اے :bee: ۔ ایہ مُنڈا :chicken2: ایڈا تھُڑدِلا وی نہیں، خیر اے:boy:۔ تسیں کیوں گھابر گئے او؟ :star:
 
کیہ کریئے بابیو! منہ آئی گل نہ رہندی اے :bee: ۔ ایہ مُنڈا :chicken2: ایڈا تھُڑدِلا وی نہیں، خیر اے:boy:۔ تسیں کیوں گھابر گئے او؟ :star:
ہو ر تے سب ٹھیک اے۔۔ مینوں اے دسو "گھابر" گھبر سنگھ دا کوئی چاچا ، بابا تے نئیں؟:clown:
سنگھ وی کدے گھابرے نیں؟ یا پھر اوہ نت ای گھابرے ہوندے نیں! تسی نہ گھابر جانا ! نہیں تے ساقی گری گئی سمجھو!!!
کوئی ان تینوں مراسلوں کا ترجمہ کر دے تاکہ مجھے بھی سمجھ میں آئے کیا بولا جا رہا میرے دھاگہ میں:)
 
کوئی ان تینوں مراسلوں کا ترجمہ کر دے تاکہ مجھے بھی سمجھ میں آئے کیا بولا جا رہا میرے دھاگہ میں:)
یہ دوستانہ گپ شپ (بلکہ شگوفہ نگاری) ہے حضرت! اور اس کا آپ کی تحریر سے تعلق بس اتنا ہے کہ وہاں سے اس گپ شپ کی تحریک ملی۔ اور کچھ نہیں!

ساقی: میں سوچ رہا تھا کہ آسی صاحب کی کڑی گرفت سے لڑکا (اصلاحی) خوف زدہ نہ ہو جائے۔
آسی: کیا عرض کریں محترم، منہ آئی بات رہتی نہیں۔ ویسے لڑکا اتنے چھوٹے دل والا نہیں۔ آپ کیوں گھبرا گئے؟
ساقی: اور تو سب ٹھیک ہے، یہ کہئے کہ یہ ’’گھابر‘‘ کہیں گھبرسنگھ کا کوئی بزرگ تو نہیں؟
آسی: سنگھ (ذومعنی ہے) بھی کبھی گھبرائے ہیں؟ یا پھر وہ گھبرائے ہی رہتے ہیں! آپ نہ گھبرا جائیے گا، ورنہ ساقی گری گئی جانئیے!

۔۔۔۔۔۔۔۔
 
یہ دوستانہ گپ شپ (بلکہ شگوفہ نگاری) ہے حضرت! اور اس کا آپ کی تحریر سے تعلق بس اتنا ہے کہ وہاں سے اس گپ شپ کی تحریک ملی۔ اور کچھ نہیں!

ساقی: میں سوچ رہا تھا کہ آسی صاحب کی کڑی گرفت سے لڑکا (اصلاحی) خوف زدہ نہ ہو جائے۔
آسی: کیا عرض کریں محترم، منہ آئی بات رہتی نہیں۔ ویسے لڑکا اتنے چھوٹے دل والا نہیں۔ آپ کیوں گھبرا گئے؟
ساقی: اور تو سب ٹھیک ہے، یہ کہئے کہ یہ ’’گھابر‘‘ کہیں گھبرسنگھ کا کوئی بزرگ تو نہیں؟
آسی: سنگھ (ذومعنی ہے) بھی کبھی گھبرائے ہیں؟ یا پھر وہ گھبرائے ہی رہتے ہیں! آپ نہ گھبرا جائیے گا، ورنہ ساقی گری گئی جانئیے!

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
:)
 

S. H. Naqvi

محفلین
اچھا لکھا آپ نے اصلاحی بھائی، باقی پورے کا پورے پوسٹ مارٹم کر دیامحترم آسی صاحب نے۔۔۔۔!:)
مجھے تھوڑی سی یہ خامی لگی کہ آپ نے عنوان الوداع رکھا اور اس میں محبت کے 'جرم' کو شامل کر کے کچھ عجیب نہی کر دیا۔ مطلب یہ کہ الوداع کے اندر ہی ہیرو کو اپنی محبت کو چھپانے کی تگ و دو کرنی پڑی اور الوداع کے اس منظر کو کہ جب والدین ائیر پورٹ پر کھڑے ہیں اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اڑتے ہوے جہاز کو دیکھ رہے ہیں اور ہیرو من میں نئی دنیا کے خواب اور جدائی کے عذاب لیے تھکے ہوے انداز میں جہاز کی سیٹ سے ٹھیک لگا کرسفر کی شروعات کرتا ہے، ہیرو کی مجبوریاں (اپنوں کو چھوڑنا)اور نئی دنیا(تعلیم ، دولت اورترقی) کی خواہش اور ضرورت اور والدین کی مجبوریوں اور پرانے خوابوں کی تعبیر(بچے کی اعلٰی تعلیم اور اسکی دولت کے ذریعے بقیہ آرام دہ زندگی ) کے پلاٹ پر کھڑی ہونی چاہیے تھی یہ عمارت الوداع۔۔۔۔۔۔ اس میں اگر محبت کے کی کسی داستان کی گنجائش تھی تو میرے خیال میں سرسری انداز میں نہ کہ اس قدر زور دار انداز میں کہ جدائی کے اصل کردار، والدین، پیچھے کہیں گم ہو جائیں۔ پھرپراسرار انداز میں امی کو دوسرے کمرے میں بھیجنا اورمذکورہ بالا تذکرہ کرنا گویا کوئی خاص بات ہونے جا رہی ہے مگر قاری کو تجسس میں ڈالنے کہ بعد کہانی کو وہیں باپ کی محبت، لاچاری اور مجبوری کی طرف موڑ دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
 
اچھا لکھا آپ نے اصلاحی بھائی، باقی پورے کا پورے پوسٹ مارٹم کر دیامحترم آسی صاحب نے۔۔۔ ۔!:)
مجھے تھوڑی سی یہ خامی لگی کہ آپ نے عنوان الوداع رکھا اور اس میں محبت کے 'جرم' کو شامل کر کے کچھ عجیب نہی کر دیا۔ مطلب یہ کہ الوداع کے اندر ہی ہیرو کو اپنی محبت کو چھپانے کی تگ و دو کرنی پڑی اور الوداع کے اس منظر کو کہ جب والدین ائیر پورٹ پر کھڑے ہیں اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اڑتے ہوے جہاز کو دیکھ رہے ہیں اور ہیرو من میں نئی دنیا کے خواب اور جدائی کے عذاب لیے تھکے ہوے انداز میں جہاز کی سیٹ سے ٹھیک لگا کرسفر کی شروعات کرتا ہے، ہیرو کی مجبوریاں (اپنوں کو چھوڑنا)اور نئی دنیا(تعلیم ، دولت اورترقی) کی خواہش اور ضرورت اور والدین کی مجبوریوں اور پرانے خوابوں کی تعبیر(بچے کی اعلٰی تعلیم اور اسکی دولت کے ذریعے بقیہ آرام دہ زندگی ) کے پلاٹ پر کھڑی ہونی چاہیے تھی یہ عمارت الوداع۔۔۔ ۔۔۔ اس میں اگر محبت کے کی کسی داستان کی گنجائش تھی تو میرے خیال میں سرسری انداز میں نہ کہ اس قدر زور دار انداز میں کہ جدائی کے اصل کردار، والدین، پیچھے کہیں گم ہو جائیں۔ پھرپراسرار انداز میں امی کو دوسرے کمرے میں بھیجنا اورمذکورہ بالا تذکرہ کرنا گویا کوئی خاص بات ہونے جا رہی ہے مگر قاری کو تجسس میں ڈالنے کہ بعد کہانی کو وہیں باپ کی محبت، لاچاری اور مجبوری کی طرف موڑ دینا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !
بھیا بے حد شکریہ ۔
کہانی کی عمارت ہی تو محبت کے جرم پر قائم تھی ۔جہاں تک والدین کے محبت کی بات ہے تو اسے دوسرے انداز میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے ۔آپ نے جو بتایا اس پر ایک الگ کہانی بن سکتی ہے ۔لیکن یہاں جو دکھانے کی کوشش کی گئی تھی وہ یہی کہ حالات کیسے بدلتے ہیں اور اس کے لئے انسان اپنے ماں باپ کے محبت کو بھی بھینٹ چڑھانے سے دریغ نہیں کرتا ۔آپ نے پڑھا اور اپنی رائے دیا اس کے لئے میں آپ کا بے حد مشکور ہوں ۔جزاکم اللہ خیر۔
 
آخری تدوین:
محترم آسی صاحب!
اللہ آپ کو صحت دے.
میں نے علم اللہ صاحب کے افسانہ پر آپ کے کلام کو پڑھا.مکمل تو نہیں...
امید کرتا ہوں کہ مجھے بھی اپنے مفید مشورے سے نوازیں گے.
 
علم اللہ اصلاحی صاحب آپ افسانے بھی لکھتے ہیں مجھے معلوم نہیں تھا۔
میرا ماننا ہے کہ اردو محفل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کی تحریروں پر کھل کر رائے دیں تاکہ ان کی اصلاح ہوسکے۔ یہ اہل ادب کی محفل ہے۔ یعقوب صاحب کی تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پورے افسانے کو غور سے پڑھا ہے۔ امید کہ اسی لگن سے وہ افسانوں کی تنقید کرتے رہیں گے۔
اور علم اللہ بھائی آپ افسانے ۔
 
Top