سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 25 اپریل 2013
از طرف: سید انور محمود
نوٹ: یہ مضمون مارچ کے شروع میں لکھا گیا تھا۔
نواز شریف اور غلام اسحاق کے اختلافات کے باعث 1993 میں بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ برسرِ اقتدار آئیں۔ اس درمیان میں بینظیر بھٹو نےایک کام یہ بھی کیا کہ اپنے والد کے زمانے کے پرانے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو صاف کردیا۔ ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات تو انکی پہلی حکومت سے ہی لگنے شروع ہوگے تھے اور زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی دیا گیا۔ آصف زرداری پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے1990 میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کی ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری پر کرپشن کے انیس ریفرینسز فائل کئے لیکن ان میں سے کوئی ثابت نہیں ہو سکا۔ آصف زرداری کےمیر مرتضی بھٹوسے شدید اختلافات تھے، بیس ستمبر 1996کو میرمرتضی بھٹوکو انکے چھ ساتھیوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹو کے لائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی دوسری اور آخری حکومت کوکرپشن کی بنیادپر برطرف کردیا بعد میں آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں بھی آیا۔ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری اس وقت کرپشن میں دھنس چکے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کنیڈا کی حکومت نے صرف اس بنیاد پر بینظیر بھٹو کو کنیڈا کا ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا کہ ان پر سوئس عدالتوں میں کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔
نواز شریف کے دوسرئے دور میں آصف زرداری پر اسٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور اسپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد الزام لگاے گے۔ یہ بھی الزام لگا کہ آصف زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلمیا اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ بینظیر بھٹو نواز شریف کے دوسرئے دور میں ملک سے باہر چلی گیں اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں زرداری بھی ملک سے باہر چلے گے۔ اکتوبر 2007 میں بینظیر بھٹو نے مشرف حکومت سے ایک معاہدہ کیا اور پھراین آر او کا وجود عمل میں آیا جس کے تحت پرانے مقدمات کو حکومت نے ختم کردیا یہ الگ بات ہے کہ بعد میں سپریم کورٹ نے این آر او کو ختم کردیا۔ این آر او ختم ہونے کے بعد ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری پر بینظیر بھٹوحکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔
اٹھارہ اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو اپنی طویل جلاوطنی ختم کرکے کراچی پہنچی جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں تو وہ بچ گیں مگر اُسی سال ستائیس دسمبرکو راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں انکو قتل کر دیا گیا۔ اپنے قتل کیے جانے سے قبل تک بینظیر بھٹو یہ نعرہ مسلسل لگاتی رہیں "کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے"۔ ان کے قتل کے بعدآصف زرداری نے سب سے پہلے اپنے بیٹے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری کردیا اور 2008 کے انتخابات میں ایک اور نئے نعرہ کا اضافہ کیا "تم کتنے بھٹو ماروگے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا"۔ زرداری کو معلوم ہے کہ بھٹو کا نام لیے بغیر وہ کچھ نہیں ہیں۔ پارٹی کی قیادت آصف زرداری نے سنبھالی اور فروری 2008کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا اور جسطرح بینظیر بھٹو نے اپنے والد سے قریب لوگوں کی چھٹی کی ٹھیک اُسی طرح آصف زرداری نے ان لوگوں کی چھٹی کی جو بینظیر بھٹوکے قریب تھے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران زرداری حکومت نے بدترین کرپشن ‘ بری گورننس ‘ طویل لوڈشیڈنگ ‘ غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ کیا اور قومی ملکیتی ادارے تباہ کیے۔ آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے ملکر کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ توڑڈالے ۔ آج ملک کا سیاسی اورمعاشی طور پر برا حال ہے۔ مگر ان تمام تر برئے حالات کے باوجود بھٹو کے نام کو استمال کیا جاتا رہا۔ آج پیپلز پارٹی اور خاصکر زرداری کے قریب صرف وہ لوگ ہیں جو نہ صرف بھٹو کے سخت ترین مخالف تھے، بلکہ ضیا کی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ آج وہ لوگ بھی آصف زرداری کے بہت قریب ہیں جو کل تک بینظیر بھٹوکوملک کے لیےسیکورٹی رسک کہتے تھے۔ آج پیپلز پارٹی پر زرداری خاندان کا قبضہ ہے، بیگم نصرت بھٹو کو تو آصف زرداری نے بینظیر بھٹوکے ساتھ ملکر پہلے ہی یرغمال بنایا ہوا تھا اب تو وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کی واحد شخصیت صنم بھٹو اس دنیا میں موجود ہیں مگر سیاست اور پاکستان سے دور ہیں۔ بھٹو خاندان کو پیپلزپارٹی سے دور رکھنے کے لیے آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کو کبھی انکو انکے خاندان کے قریب نہیں جانے دیا یہی وجہ ہے کہ غنوئ بھٹو اور انکے بچے بینظیر بھٹو کے جنازئے سے دور رہے۔
پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑا نام ہے مگر جسطرح آج کی کسی بھی مسلم لیگ کا تعلق قائد اعظم سے نہیں مگر سب اپنا تعلق ان سے بتاتے ہیں بلکل اسطرح آج کی پیپلز پارٹی جو زرداری خاندان کی ملکیت بن چکی ہے ذوالفقار علی بھٹوسےکوئی تعلق نہیں۔ پیپلز پارٹی جو ماضی کے تین انتخابات میں سے دو مرتبہ بھٹو کی شہادت اور ایک مرتبہ بینظیرکی شہادت پر عوام کے ووٹ حاصل کرچکی ہےاس کی چوتھی حکومت ختم ہورہی ہے۔ کوئی تازہ شہید بھی اب بھٹو خاندان سے نہیں مل سکتا لہذاآنے والے انتخابات میں آصف زرداری پھر بھٹو اور بینظیر کا نام استمال کرینگے ۔ مگر اب قوم بھٹو صاحب کو الوداع کہہ رہی ہے اور زرداری کے کانوں تک یہ بات پہنچ جانی چاہیے کہ اب بھٹو کے نام پر قوم دھوکا نہیں کھاے گی۔ بھٹو صاحب کے نام پر پیپلز پارٹی اور آصف زرداری تین مرتبہ اس قوم کو لوٹ چکے ہیں اورگذشتہ پانچ سال سے پاکستانی قوم جو اذیت برداشت کررہی ہے اسکے بعد قوم اب کہہ رہی ہے "الوداع الوداع۔ بھٹو صاحب الوداع"۔
از طرف: سید انور محمود
نوٹ: یہ مضمون مارچ کے شروع میں لکھا گیا تھا۔
الوداع الوداع ۔ بھٹو صاحب الوداع
ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے شہرت پانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے پاک بھارت جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ سے اختلاف کی وجہ سے ایوب کابینہ سے استعفی دیا اور 30 نومبر 1967کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ 1970 کے انتخابات میں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر جب بھٹو نے انتخابات لڑا تو مغربی پاکستان بھٹو کا ہمنوا تھا اس لیے پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور بنگلہ دیش بنے کے بعد بیس دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو صدر بننے اور بعد میں وزیراعظم۔1977 میں ان پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا اور بعد میں ضیاالحق حکومت پر قابض ہوگیا۔ ضیا حکومت نے جب یہ دیکھا کہ بھٹو کی مقبولیت اقتدا رسے علیدہ ہونے کے بعد بھی کم نہیں ہورہی تو اس نے غیر سیاسی ھتکنڈئے استمال کیے۔ سب سے پہلے اُس نے بھٹو پر مالی بدعنوانی کا الزام لگایا کہ عرب امارات سے ملنے والے پچیس لاکھ ڈالر بھٹو نے خردبرد کرلیےمگر اس وقت کے عرب امارات کے حکمراں نے خود اس کی تردید کردی۔ چار اپریل 1979 کو ضیا حکومت نے بھٹو کو پھانسی دے دی جسکو آج ایک عدالتی قتل بھی کہا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر اُن کے مخالفین بہت سےالزامات لگاتے ہیں مگرانکے ایک کٹر نظریاتی مخالف جماعتِ اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد سے کئی برس پہلے جب پوچھا گیا کہ کیا بھٹو صاحب مالی خردبرد میں ملوث تھے تو پروفیسر غفور نے جواب دیا تھا کہ بھٹو پر ہر الزام لگایا جاسکتا ہے لیکن بھٹو پر مالی خرد برد اور لوٹ مار کا الزام کوئی نہیں لگاسکا۔1988 میں ضیا کی موت کے بعد انتخابات میں پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرئے کے ساتھ ساتھ ایک نیا نعرہ لگایا "کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے"، پاکستان کے عوام اس وقت بھی بھٹو کے سحر میں تھے لہذا بینظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں مگر اس سے پہلے بینظیر بھٹو بیگم زرداری بھی بن چکی تھی اس لیے وہ زرداری کے رنگ میں جلدہی رنگ گیں اور صرف بیس مہینوں کے بعد اُس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بے پناہ بدعنوانی کے باعث بینظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کردیا۔ نواز شریف اور غلام اسحاق کے اختلافات کے باعث 1993 میں بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ برسرِ اقتدار آئیں۔ اس درمیان میں بینظیر بھٹو نےایک کام یہ بھی کیا کہ اپنے والد کے زمانے کے پرانے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو صاف کردیا۔ ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات تو انکی پہلی حکومت سے ہی لگنے شروع ہوگے تھے اور زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی دیا گیا۔ آصف زرداری پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے1990 میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کی ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری پر کرپشن کے انیس ریفرینسز فائل کئے لیکن ان میں سے کوئی ثابت نہیں ہو سکا۔ آصف زرداری کےمیر مرتضی بھٹوسے شدید اختلافات تھے، بیس ستمبر 1996کو میرمرتضی بھٹوکو انکے چھ ساتھیوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹو کے لائے ہوئے صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی دوسری اور آخری حکومت کوکرپشن کی بنیادپر برطرف کردیا بعد میں آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں بھی آیا۔ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری اس وقت کرپشن میں دھنس چکے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کنیڈا کی حکومت نے صرف اس بنیاد پر بینظیر بھٹو کو کنیڈا کا ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا کہ ان پر سوئس عدالتوں میں کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔
نواز شریف کے دوسرئے دور میں آصف زرداری پر اسٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور اسپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد الزام لگاے گے۔ یہ بھی الزام لگا کہ آصف زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلمیا اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ بینظیر بھٹو نواز شریف کے دوسرئے دور میں ملک سے باہر چلی گیں اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں زرداری بھی ملک سے باہر چلے گے۔ اکتوبر 2007 میں بینظیر بھٹو نے مشرف حکومت سے ایک معاہدہ کیا اور پھراین آر او کا وجود عمل میں آیا جس کے تحت پرانے مقدمات کو حکومت نے ختم کردیا یہ الگ بات ہے کہ بعد میں سپریم کورٹ نے این آر او کو ختم کردیا۔ این آر او ختم ہونے کے بعد ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری پر بینظیر بھٹوحکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔
اٹھارہ اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو اپنی طویل جلاوطنی ختم کرکے کراچی پہنچی جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں تو وہ بچ گیں مگر اُسی سال ستائیس دسمبرکو راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں انکو قتل کر دیا گیا۔ اپنے قتل کیے جانے سے قبل تک بینظیر بھٹو یہ نعرہ مسلسل لگاتی رہیں "کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے"۔ ان کے قتل کے بعدآصف زرداری نے سب سے پہلے اپنے بیٹے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری کردیا اور 2008 کے انتخابات میں ایک اور نئے نعرہ کا اضافہ کیا "تم کتنے بھٹو ماروگے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا"۔ زرداری کو معلوم ہے کہ بھٹو کا نام لیے بغیر وہ کچھ نہیں ہیں۔ پارٹی کی قیادت آصف زرداری نے سنبھالی اور فروری 2008کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا اور جسطرح بینظیر بھٹو نے اپنے والد سے قریب لوگوں کی چھٹی کی ٹھیک اُسی طرح آصف زرداری نے ان لوگوں کی چھٹی کی جو بینظیر بھٹوکے قریب تھے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران زرداری حکومت نے بدترین کرپشن ‘ بری گورننس ‘ طویل لوڈشیڈنگ ‘ غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ کیا اور قومی ملکیتی ادارے تباہ کیے۔ آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے ملکر کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ توڑڈالے ۔ آج ملک کا سیاسی اورمعاشی طور پر برا حال ہے۔ مگر ان تمام تر برئے حالات کے باوجود بھٹو کے نام کو استمال کیا جاتا رہا۔ آج پیپلز پارٹی اور خاصکر زرداری کے قریب صرف وہ لوگ ہیں جو نہ صرف بھٹو کے سخت ترین مخالف تھے، بلکہ ضیا کی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ آج وہ لوگ بھی آصف زرداری کے بہت قریب ہیں جو کل تک بینظیر بھٹوکوملک کے لیےسیکورٹی رسک کہتے تھے۔ آج پیپلز پارٹی پر زرداری خاندان کا قبضہ ہے، بیگم نصرت بھٹو کو تو آصف زرداری نے بینظیر بھٹوکے ساتھ ملکر پہلے ہی یرغمال بنایا ہوا تھا اب تو وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کی واحد شخصیت صنم بھٹو اس دنیا میں موجود ہیں مگر سیاست اور پاکستان سے دور ہیں۔ بھٹو خاندان کو پیپلزپارٹی سے دور رکھنے کے لیے آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کو کبھی انکو انکے خاندان کے قریب نہیں جانے دیا یہی وجہ ہے کہ غنوئ بھٹو اور انکے بچے بینظیر بھٹو کے جنازئے سے دور رہے۔
پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑا نام ہے مگر جسطرح آج کی کسی بھی مسلم لیگ کا تعلق قائد اعظم سے نہیں مگر سب اپنا تعلق ان سے بتاتے ہیں بلکل اسطرح آج کی پیپلز پارٹی جو زرداری خاندان کی ملکیت بن چکی ہے ذوالفقار علی بھٹوسےکوئی تعلق نہیں۔ پیپلز پارٹی جو ماضی کے تین انتخابات میں سے دو مرتبہ بھٹو کی شہادت اور ایک مرتبہ بینظیرکی شہادت پر عوام کے ووٹ حاصل کرچکی ہےاس کی چوتھی حکومت ختم ہورہی ہے۔ کوئی تازہ شہید بھی اب بھٹو خاندان سے نہیں مل سکتا لہذاآنے والے انتخابات میں آصف زرداری پھر بھٹو اور بینظیر کا نام استمال کرینگے ۔ مگر اب قوم بھٹو صاحب کو الوداع کہہ رہی ہے اور زرداری کے کانوں تک یہ بات پہنچ جانی چاہیے کہ اب بھٹو کے نام پر قوم دھوکا نہیں کھاے گی۔ بھٹو صاحب کے نام پر پیپلز پارٹی اور آصف زرداری تین مرتبہ اس قوم کو لوٹ چکے ہیں اورگذشتہ پانچ سال سے پاکستانی قوم جو اذیت برداشت کررہی ہے اسکے بعد قوم اب کہہ رہی ہے "الوداع الوداع۔ بھٹو صاحب الوداع"۔