محسن وقار علی
محفلین
تو کیا اسٹیبلشمنٹ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ دہشت ناکوں کی ممکنہ انتخابی سٹریٹیجی کیا ہوگی؟
نوبت شائد یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں کے کسی انتخابی دفتر کو اب تک نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔ان میں سے کچھ کچھ شکر ادا کرنے کے بجائے ووٹروں سے خجل خجل سے لگ رہے ہیں۔
جو تین صوبے اس وقت انتخابی دھماکوں کی زد میں ہیں ان میں سب سے زیادہ مساوی وارداتیں بلوچستان میں ہو رہی ہیں۔جہاں دائیں یا بائیں، مذہبی و غیر مذہبی، قوم پرست یا وفاق پرستوں سمیت ہر طرح کی انتخابی مخلوق نشانے پر ہے۔جبکہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو دھماکے داری کے لیے منتخب کیا گیا ہے ۔مگر عوامی نیشنل پارٹی واحد جماعت ہے جسے پنجاب کو چھوڑ کے پشاور سے چمن اور چمن سے کراچی تک نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جہاں تک نگراں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا معاملہ ہے تو ان کا طرزِ عمل یہ ہے کہ ’بھئی جو کرنا ہے آپس میں کرو ہمارا نشہ مت خراب کرو‘۔حد یہ ہے کہ رحمان ملک شدت سے یاد آ رہے ہیں ۔وہ بھلے گڑ نہیں دیتے تھے لیکن گڑ جیسی بات تو کر دیتے تھے۔موجود وزیرِ داخلہ کا تو پورا نام بھی ڈھائی تین صحافیوں سے زیادہ کسی کو یاد نہیں۔
دوسری جانب لگ یہ رہا ہے کہ انتخابی سیاست کرنے والی آدھی جماعتوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ قدم بڑھاؤ اے جماعتوں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اور باقی آدھی جماعتوں کو کہا جا رہا ہے کہ اگر تم نے مغرب سے درآمد کردہ جمہوریت اور غیر شرعی انتخابی نظام کی سیاست جاری رکھی تو پھر تم ہم میں سے نہیں۔
پہلے سیاسی نسل کی سلیکشن مبینہ طور پر ایجنسیاں کرتی تھیں۔اب یہ کام نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔یعنی دباؤ برقرار ہے صرف دباؤ ڈالنے والے بدل گئے ہیں۔
اگرچہ یہ سوال بھی دبے الفاظ میں اٹھ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور قاف، تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کے پاس ایسی کیا بم پروف گیدڑ سنگھی ہے جس سے ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی محروم ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابی مہم کا رونق میلہ دیکھنا ہو تو پنجاب میں جا کر دیکھیے۔
مگر جنہوں نے بھی دھماکے دار حکمتِ عملی بنائی ہے وہ اتنے بےوقوف نہیں۔بھلا وہ کیوں چاہیں گے کہ ہر جگہ دھواں اور لاشیں پھیلا کر مشرق، مغرب، دائیں، بائیں کی اکثر سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اسی طرح جمع ہونے کا موقع مل جائے جیسا کہ اسلام آباد میں طاہر القادری کے دھرنے کے ردِعمل میں ہوا تھا۔سیاسی قوتوں کو تقسیم رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہر ایک کو الگ الگ لاٹھی سے ہانکا جائے۔باقی کام خود یہ سیاستدان ہی کر لیں گے۔ بظاہر دہشت ناکوں کی یہ عسکری حکمتِ عملی خاصی کامیاب ہے کہ ایک ایک کو الگ الگ کر کے مارو تاکہ سب مل کے تمہیں نہ ماریں۔
تو کیا اسٹیبلشمنٹ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ دہشت ناکوں کی ممکنہ انتخابی سٹریٹیجی کیا ہوگی؟ اب جبکہ پولنگ میں صرف 13 دن رہ گئے ہیں یہی طے نہیں ہو سکا کہ پولنگ سٹیشنوں کا تحفظ کوئی ایک ادارہ کرے گا یا سب مل کے کریں گے۔اگر کنفیوژن اور ادارتی فیصلہ سازی کا یہی حال ہے تو دو تہائی اکثریت سے جیتنے والی پارٹی بھی ان اداروں اور عمل داروں کے ہوتے نیا کیا کر لے گی؟
حالات کو قابو میں لانے کی خاطر کچھ نیا سوچنے کے لیے وقت، حاضر دماغی اور بنیادی حقائق کا میز پر ہونا ضروری ہے اور یہاں تو اکثر قائدین نے اپنا منشور ہی پوری طرح نہیں پڑھا تو نوشتہِ دیوار کیا پڑھ پائیں گے۔
اب ایک ہی طریقہ ہے خود کو پرسکون ظاہر کرنے کا۔جیسے ہی چیخ و پکار اور آہ و بکا کان میں پڑے ریڈیو یا ٹی وی کی آواز اونچی کر لو۔دنیا نارمل محسوس ہونے لگے گی۔۔۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو