طارق راحیل بھائی شعر کا مطلب تو سمجھا ہی دیں گے لیکن یہ دھاگا غلط ہے۔
شب دیجور کا مطلب ہے بہت ہی کالی رات
تو شاعر کو اپنے محبوب کی زلف بہت ہی زیادہ کالی رات کی طرح لگتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ شاعر نابینا تھے۔ (مجھے اس وقت ان کا نام یاد نہیں آ رہا۔) ابھی انہوں نے پہلا مصرعہ ہی کہا تھا یا سوچا تھا لیکن دوسرا مصرعہ موزوں نہیں ہو رہا تھا۔ اتنے میں ان کے ایک دوست آ گئے۔ وہ بھی شاعر تھے۔ (افسوس کے ان کا نام بھی اس وقت ذہن میں نہیں ہے)۔ حال احوال پوچھنے کے بعد نابینا شاعر نے بتایا کہ ایک مصرعہ ہوا ہے۔ دوسرا موزوں نہیں ہو رہا۔ دوست نے کہا کیا مصرعہ ہے تو نابینا شاعر نے بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم دوسرا مصرعہ لگا کر شعر اپنے نام کر لو گے۔
تھوڑی بحث کے بعد نابینا شاعر نے مصرعہ پڑھ دیا :
اُس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
دوست شاعر نے فی البدیہ دوسرا مصرعہ پڑھ دیا
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
یعنی کہ اپنے اندھے دوست کو اندھے پن کے باوجود بہت دور کی سوجھی۔
نابینا شاعر اپنے دوست کو مارنے کو دوڑے اور بہت دیر تک لاٹھی لیکر ان کا پیچھا کرتے رہے۔