عمر میرزا
محفلین
السلام علیکم برادران مخترم !
پرویز مشرف نےآخر کار آج وردی اتار دی اور مشرف کے بحثیت ایک آمرتاریک دور کا خاتمہ ہو گیا ۔مگرسے پاکستانی سیاست کےسیاہ ترین دور کا خاتمہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وردی کا اتارنا بھی آئندہ آنے والے بدترین حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
۔مشرف کے بحیثیت آرمی چیف والے سابقہ دور کا تجزئیہ کیا جائے تو بلاشبہ اسے ایک سیاہ ترین دور کہا جا سکتا ہے ۔جس میں امت پاکستان کو پھر سے جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔پاکستان کی حوشحالی کو غربت میں بدل دیا مہنگائی کے عفریت نے عوام کو اپنے جبڑوں تلے جکڑ لیا ۔لاقا نونیت اپنے عروج پر رہی سٹریٹ کرائمز جیسے تحفے اسی دور میں ملے۔ کئی اہم ترین ملکی اداروں کی نجکاری کر دی گئی ۔کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ پاکستانی زمین کو خرید سکیں۔فارن انوسٹمنٹ کے نام سے بیرونی سرمایہ کاروں کو ملکی کاروبار پر قابض ہونے کی راہ دکھائی ۔اپنے خاشیہ برداروں اور چاپلوس ساتھیوں کو وزارتوں اور سفارتوں سے نوازہ گیا ۔کیبل پر غیر اخلاقی چینلوں کو آزادانہ نشریات کی اجازت دی جس سے مک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا۔غیر اسلامی تہواروں جیسے ہولی بسنت ،ویلنٹائن دے کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا گیا۔عورتوں کی میراتھن ریس کروائی گئی۔ نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کرائیں تاکہ معصوم طالب علموں کے دلوں سے اسلام کھرچ ڈالا جائے۔روشن خیالی کے نام سے کرپٹ مغربی اقدار اور روایات کو فروغ دیا گیا تاکہ وہ اسلام کی بجائے مغرب کو اپنا آئیڈیل محسوس کریں ۔
اسلام پسند عناصر کو دہشت گرد اور انتہا پرست جیسے مغرب سے درآمد شدہ توہین آمیز آلقابات دیئے گئے اور صرف اسی پر بس نہیں اس غدار نے پاکستان کے دروازے اپنے استعماری آقاؤں کے لئے کھول دئے اسی غدار حکمران نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وہ افغانستان کے اندر وحشیانہ کارووائیاں کر سکے اور وہاں پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرے چناچی ستاون ہزار سے زائد پروازیں جو پاکستان سے کی گئی تھیں ہزاروں مسلمان بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو بھی موت کے گھات اتارا گیا ۔
اور جب مشرف کی غداری پر امریکہ خوش نہ ہوا اور مشرف کو مزید کچھ کرنے کا حکم دیا تو اس نے پاکستان کے مسلمان فوجیوں کو اپنے ہی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور جو کچھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہوا وہ بھی ہمیں یاد ہے جہاں لڑکیوں اور ننھے بچوں کو فاسفورس بموں سے بھون دیا گیا۔اس سنگدل انسان نے سرحد اور قبائلی علاقوں کے باشندوں کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ہر روز درجنوں کے حساب سے لوگوں کو موت کی نیند سلایا ۔
ان سب کاموں کی وجہ سے عوام میں مشرف کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور آج لوگ اس کے دور کے لئے حاتمے کی دعا کر رہے ہیں اس بات کو اس نے خود بھی محسوس کیا کہ اس کی ساکھ ختم ہو چکی ہے تو اس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کی بحالی کا نعرہ لگایااور انتحابات کا ڈھونگ رچانے کا سوچا چناچہ اس نے بے نظیر کو پاکستان آنے دیا اور جب عدلیہ سے خطرہ محسوس کیا تو ملک میں ایمرجنسی عائد دی۔
مشرف کے کالے کارناموں کی فہرست بہت لمبی ہے مگر ان کو قلمبند کرناابھی بے مصرف ہےکیونکہ یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد آئندہ آنے والے حالات کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا ہے اب یہ پرانے شکاری ایک نئے جال اور نئے حربوں کے ساتھ میدان میں آنے والے ہیں۔عوام کو دوبارہ ڈسنے کا منصوبہ تیار ہوچکاہے ۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے ہم نہ صرف ان حکمرانوں کی عوام دشمن پالسیوں کےخلاف صدائے احتجاج کریں بلکہ احتجاج کے ساتھ ساتھ الیکشنوں کا بائیکاٹ بھی کریں ،تاکہ یہ لوگ جان سکیں کہ عوام ان سے کتنی بیزار ہو چکی ہے اور مزید ان کے دجل و فریب میں آنے والی نہیں ہے ۔
ولسلام
پرویز مشرف نےآخر کار آج وردی اتار دی اور مشرف کے بحثیت ایک آمرتاریک دور کا خاتمہ ہو گیا ۔مگرسے پاکستانی سیاست کےسیاہ ترین دور کا خاتمہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وردی کا اتارنا بھی آئندہ آنے والے بدترین حالات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
۔مشرف کے بحیثیت آرمی چیف والے سابقہ دور کا تجزئیہ کیا جائے تو بلاشبہ اسے ایک سیاہ ترین دور کہا جا سکتا ہے ۔جس میں امت پاکستان کو پھر سے جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔پاکستان کی حوشحالی کو غربت میں بدل دیا مہنگائی کے عفریت نے عوام کو اپنے جبڑوں تلے جکڑ لیا ۔لاقا نونیت اپنے عروج پر رہی سٹریٹ کرائمز جیسے تحفے اسی دور میں ملے۔ کئی اہم ترین ملکی اداروں کی نجکاری کر دی گئی ۔کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ پاکستانی زمین کو خرید سکیں۔فارن انوسٹمنٹ کے نام سے بیرونی سرمایہ کاروں کو ملکی کاروبار پر قابض ہونے کی راہ دکھائی ۔اپنے خاشیہ برداروں اور چاپلوس ساتھیوں کو وزارتوں اور سفارتوں سے نوازہ گیا ۔کیبل پر غیر اخلاقی چینلوں کو آزادانہ نشریات کی اجازت دی جس سے مک میں فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا۔غیر اسلامی تہواروں جیسے ہولی بسنت ،ویلنٹائن دے کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا گیا۔عورتوں کی میراتھن ریس کروائی گئی۔ نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کرائیں تاکہ معصوم طالب علموں کے دلوں سے اسلام کھرچ ڈالا جائے۔روشن خیالی کے نام سے کرپٹ مغربی اقدار اور روایات کو فروغ دیا گیا تاکہ وہ اسلام کی بجائے مغرب کو اپنا آئیڈیل محسوس کریں ۔
اسلام پسند عناصر کو دہشت گرد اور انتہا پرست جیسے مغرب سے درآمد شدہ توہین آمیز آلقابات دیئے گئے اور صرف اسی پر بس نہیں اس غدار نے پاکستان کے دروازے اپنے استعماری آقاؤں کے لئے کھول دئے اسی غدار حکمران نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وہ افغانستان کے اندر وحشیانہ کارووائیاں کر سکے اور وہاں پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرے چناچی ستاون ہزار سے زائد پروازیں جو پاکستان سے کی گئی تھیں ہزاروں مسلمان بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو بھی موت کے گھات اتارا گیا ۔
اور جب مشرف کی غداری پر امریکہ خوش نہ ہوا اور مشرف کو مزید کچھ کرنے کا حکم دیا تو اس نے پاکستان کے مسلمان فوجیوں کو اپنے ہی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور جو کچھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہوا وہ بھی ہمیں یاد ہے جہاں لڑکیوں اور ننھے بچوں کو فاسفورس بموں سے بھون دیا گیا۔اس سنگدل انسان نے سرحد اور قبائلی علاقوں کے باشندوں کے خلاف اعلان جنگ کیا اور ہر روز درجنوں کے حساب سے لوگوں کو موت کی نیند سلایا ۔
ان سب کاموں کی وجہ سے عوام میں مشرف کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور آج لوگ اس کے دور کے لئے حاتمے کی دعا کر رہے ہیں اس بات کو اس نے خود بھی محسوس کیا کہ اس کی ساکھ ختم ہو چکی ہے تو اس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کی بحالی کا نعرہ لگایااور انتحابات کا ڈھونگ رچانے کا سوچا چناچہ اس نے بے نظیر کو پاکستان آنے دیا اور جب عدلیہ سے خطرہ محسوس کیا تو ملک میں ایمرجنسی عائد دی۔
مشرف کے کالے کارناموں کی فہرست بہت لمبی ہے مگر ان کو قلمبند کرناابھی بے مصرف ہےکیونکہ یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد آئندہ آنے والے حالات کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا ہے اب یہ پرانے شکاری ایک نئے جال اور نئے حربوں کے ساتھ میدان میں آنے والے ہیں۔عوام کو دوبارہ ڈسنے کا منصوبہ تیار ہوچکاہے ۔۔۔۔۔۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے ہم نہ صرف ان حکمرانوں کی عوام دشمن پالسیوں کےخلاف صدائے احتجاج کریں بلکہ احتجاج کے ساتھ ساتھ الیکشنوں کا بائیکاٹ بھی کریں ،تاکہ یہ لوگ جان سکیں کہ عوام ان سے کتنی بیزار ہو چکی ہے اور مزید ان کے دجل و فریب میں آنے والی نہیں ہے ۔
ولسلام