محمد وارث
لائبریرین
پہلے ذرا حکومت وقت کی لی لوٹ کھوٹ سے فارغ ہوں لے، پھر عام عوام کی لوٹ مار پر توجہ دیں گے ۔
عوام کو بڑے پیمانہ پر سستی توانائی فراہم کر نا حکومت کا کام ہے جو سابقہ اور حالیہ حکومتوں نے کیا نہیں۔ اسپر ستم یہ ہے کہ سادہ لوح عوام یہ سمجھتی ہے کہ شمسی توانائی اسکا متبادل ہے۔ حالانکہ ساری رات دن کو چارج ہونے والی بیٹری پر گزارہ کرنا اقتصادی اعتبار سے ممکن ہی نہیں۔ اسکے لئے ہر گھر کو کھیتوں کے حساب سے سولر پینل درکار ہوں گے اور ایسی مہنگی بیٹریاں جو سالہا سال تک خراب نہ ہوں۔ یعنی یہ توانائی بھی مکمل طور پر امراء کے ہاتھ میں ہے۔
نیز ہمارے ہاں بارش، طوفان، سیلاب، آندھی، دھواں اور آلودگی بہت عام ہے۔ میں جب سردیوں میں پاکستان گیا تھا تو دھوپ کی فراہمی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ کئی کئی دن دھند کی وجہ سے سولر آؤٹ پٹ قریباً ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ ایسے میں سولر انرجی پر لاکھوں یا کروڑوں کی انویسٹمنٹ بالکل بیکار ثابت ہوتی ہے۔ قریباً یہی حال ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی کا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سب سے سستی اور قائم بجلی کی فراہمی یا تو پانی کے ڈیمز سے حاصل ہوتی ہے یا نیوکلیئر بجلی گھروں سے۔ شمسی اور ہوائی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی ایک جگاڑ ہے۔ اسے ہر وقت، ہر جگہ اپلائی نہیں کیا جا سکتا۔
گھر کے لیے سولر انرجی واقعی اچھا آپشن نہیں ہے، خاص طور پر جیسے پنجاب کے میدانی علاقے، سردیوں میں دھند اور گرمیوں میں برساتیں اس کو چلنے نہیں دیتیں۔
عام طور پر جہاں لوڈ شیڈنگ شیڈول کے مطابق ہوتی ہے وہاں یو پی ایس کافی کارگر ہے۔ فریج، استری اور اے سی کے بغیر دیگر چیزوں کے لیے ضرورت کے مطابق ایک اچھا انورٹر اور بیٹری یا دو بیٹریاں چالیس پچاس ہزار کا خرچہ ہے، اور ہر ڈیڑھ دو سال بیٹریوں کی تبدیلی یوں کہہ لیے مہینے کا دو سے اڑھائی ہزارعلاوہ گورنمنٹ بل کے جس سے آپ اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے روشنی اور شدید گرمی میں کم از کم پنکھے کی ہوا کا بندوبست کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان میں آپ "فری چوری کی فلمیں" تو دیکھ سکتے ہیں لیکن بنیادی ضرورتوں کے لیے یہ اضافی خرچہ کرنا ہی پڑتا ہے۔