با ادب
محفلین
میں = امام صاحب دنیا کا چلن بدل گیا ہے ۔
امام صاحب = ( خاموشی )
میں =چلن کی ہی کیا بات کرتے ہیں ، اقدار بھی بدل گئی ہیں ۔
امام صاحب = ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں =غلامی کا دور دورہ ہے امام صاحب ؛ دنیا کے بازار میں پھر سے انسانوں کی بولی لگنے لگی ہے ۔
امام صاحب = ( سوالیہ نگاہوں سے تکتے ہیں )
میں =اب دیکھیئے نا امام صاحب پیسہ بادشاہ ہو گیا ہے انسان غلام بن گیا ہے ۔ جس کے ھاتھ پیسہ لگ گیا جس کی چاہے بولی لگا ئے اور جتنی چاہے بولی لگائے ۔ خیالات خرید ے ، زبان خریدے ، ذہن خریدے اور تو اور دل خرید لے ۔ ۔ دل پہ ہی کیا موقوف امام صاحب پورے کا پورا بندہ بک جاتا ہے ۔
امام صاحب = ( خاموشی ہنوز برقرار ، انداز تمھیں کیا والا )
میں =اب کیا کروں امام صاحب تکلیف تو ہوتی ہے نا ۔ حساس انسان کا دنیا کے بازار میں گزارا نا ممکن ، خام مال جیسا ہے " کوئی خریدنے کو تیار نہیں ۔ بکنا چاہے بھی تب بھی خریدار کو اس سے کیا سروکار ۔ خریدار کی دلچسپی کا با عث تو بے زبان ، بے عقل اور بے ضمیر ہے ۔
امام صاحب = ( بولے اب بھی نہیں پر مجھے لگا کہتے ہوں عورت ذات اور یہ زبان )
میں = ارے ارے گھبرائیے مت ، آپ کی تربیت میں کمی نہیں آئی بس میری غور و فکر میں زیادتی آگئی ہے ۔ آپ ہی تو فرماتے ہیں ظاھر کو مت پڑھو بین السطور دیکھو ۔ پہلے تو بین السطور دیکھنا ہی نہ آیا اور جب سمجھ آہی گئی تو " فکر " کرنے والا ذہن " فکر" ہی میں مبتلا ہو گیا ۔
کیسی پیاری دنیا تھی ( ظاہر کی آنکھ سے ) ۔ فکر کر کے دیکھا تو سب بکاوء مال تھا ۔
تھوڑی بہت دولت تو ہم نے بھی سینت سینت کے رکھی تھی ۔ سوچتے ہیں دنیا کے بازار سے کچھ خرید لیں ۔
بہت گھومے امام صاحب ۔ لمبی لسٹ ھاتھ میں پکڑے گھومتے رہے ۔
دیدہء بینا خریدنا چاہا ، عنقا ہوگیا تھا ۔
دکاندار کہتے شارٹ لسٹ ہے ۔
کہا اہل علم دے دو ، کہنے لگے نیا سٹاک نہیں آیا ۔
با ضمیروں کا کیا ریٹ ہے ؟
باجی ان کی قیمت ادا کرنا آپ کے بس کی بات نہیں ۔
ارے کچھ تو ہو گا جو ہم خرید لیں ۔
جی جی باجی کیوں نہیں بے ضمیر خرید لیں ۔ الف اور ے کا ہی فرق ہے ضمیر تو دونوں کے ساتھ ہے ۔
پر اسکا ہم کریں گے کیا ؟
کچھ نہ بنا تو آگے فروخت کر دیجیئے گا ۔ اچھے دام مل جائیں گے ۔
پر بھائی مجھ سے خریدے گا کون ؟
کیا بات کرتی ہیں باجی انکی بڑی ڈیماند ہے منہ مانگے داموں بکتے ہیں ۔
نہیں بھائی رہنے دو دکانداری ہمارے بس کا روگ نہیں ۔ ایسا کرو کوئی با وفا یا مخلص پڑا ہے تو وہ دے دو ۔ اب میں اتنی بھی غریب نہیں ۔
ارے باجی غریب ہوں نہ ہوں سادھی ضرور ہیں ۔ کال پڑا ہے کال ، کس زمانے کی ہیں ؟ یہ سب آوءٹ ڈیٹڈ چیزیں ہیں ۔ نیا دور ، نیا چلن
چھوڑو بھیا تمھاری دکان ہی ٹھیک نہیں اتنی بڑی منڈی کہیں تو دستیاب ہوں گی یہ چیزین بھی ، کسی اور دکان کا پتہ بتا دو
امام صاحب شام ہوگئی پھرتے پھراتے پر بے سود کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ لوٹ کے بدھو گھر کو ائے
بھلا اب یہ بھی کوئی بات ہے جب کمارے پاس نوٹ نہیں تھے تو انتظار رہتا ایک دن دولت آئے گی ہم بھی من مرضی کی چیزوں سے گھر بھر لیں گے
دولت آگئی چیزیں نہ آئیں ۔
امام صاحب = آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے اور بے داغ دامن کو داغدار کر جاتا ہے ، لب سئیے بیٹھے ہیں
امامیات از سمیرا امام
امام صاحب = ( خاموشی )
میں =چلن کی ہی کیا بات کرتے ہیں ، اقدار بھی بدل گئی ہیں ۔
امام صاحب = ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں =غلامی کا دور دورہ ہے امام صاحب ؛ دنیا کے بازار میں پھر سے انسانوں کی بولی لگنے لگی ہے ۔
امام صاحب = ( سوالیہ نگاہوں سے تکتے ہیں )
میں =اب دیکھیئے نا امام صاحب پیسہ بادشاہ ہو گیا ہے انسان غلام بن گیا ہے ۔ جس کے ھاتھ پیسہ لگ گیا جس کی چاہے بولی لگا ئے اور جتنی چاہے بولی لگائے ۔ خیالات خرید ے ، زبان خریدے ، ذہن خریدے اور تو اور دل خرید لے ۔ ۔ دل پہ ہی کیا موقوف امام صاحب پورے کا پورا بندہ بک جاتا ہے ۔
امام صاحب = ( خاموشی ہنوز برقرار ، انداز تمھیں کیا والا )
میں =اب کیا کروں امام صاحب تکلیف تو ہوتی ہے نا ۔ حساس انسان کا دنیا کے بازار میں گزارا نا ممکن ، خام مال جیسا ہے " کوئی خریدنے کو تیار نہیں ۔ بکنا چاہے بھی تب بھی خریدار کو اس سے کیا سروکار ۔ خریدار کی دلچسپی کا با عث تو بے زبان ، بے عقل اور بے ضمیر ہے ۔
امام صاحب = ( بولے اب بھی نہیں پر مجھے لگا کہتے ہوں عورت ذات اور یہ زبان )
میں = ارے ارے گھبرائیے مت ، آپ کی تربیت میں کمی نہیں آئی بس میری غور و فکر میں زیادتی آگئی ہے ۔ آپ ہی تو فرماتے ہیں ظاھر کو مت پڑھو بین السطور دیکھو ۔ پہلے تو بین السطور دیکھنا ہی نہ آیا اور جب سمجھ آہی گئی تو " فکر " کرنے والا ذہن " فکر" ہی میں مبتلا ہو گیا ۔
کیسی پیاری دنیا تھی ( ظاہر کی آنکھ سے ) ۔ فکر کر کے دیکھا تو سب بکاوء مال تھا ۔
تھوڑی بہت دولت تو ہم نے بھی سینت سینت کے رکھی تھی ۔ سوچتے ہیں دنیا کے بازار سے کچھ خرید لیں ۔
بہت گھومے امام صاحب ۔ لمبی لسٹ ھاتھ میں پکڑے گھومتے رہے ۔
دیدہء بینا خریدنا چاہا ، عنقا ہوگیا تھا ۔
دکاندار کہتے شارٹ لسٹ ہے ۔
کہا اہل علم دے دو ، کہنے لگے نیا سٹاک نہیں آیا ۔
با ضمیروں کا کیا ریٹ ہے ؟
باجی ان کی قیمت ادا کرنا آپ کے بس کی بات نہیں ۔
ارے کچھ تو ہو گا جو ہم خرید لیں ۔
جی جی باجی کیوں نہیں بے ضمیر خرید لیں ۔ الف اور ے کا ہی فرق ہے ضمیر تو دونوں کے ساتھ ہے ۔
پر اسکا ہم کریں گے کیا ؟
کچھ نہ بنا تو آگے فروخت کر دیجیئے گا ۔ اچھے دام مل جائیں گے ۔
پر بھائی مجھ سے خریدے گا کون ؟
کیا بات کرتی ہیں باجی انکی بڑی ڈیماند ہے منہ مانگے داموں بکتے ہیں ۔
نہیں بھائی رہنے دو دکانداری ہمارے بس کا روگ نہیں ۔ ایسا کرو کوئی با وفا یا مخلص پڑا ہے تو وہ دے دو ۔ اب میں اتنی بھی غریب نہیں ۔
ارے باجی غریب ہوں نہ ہوں سادھی ضرور ہیں ۔ کال پڑا ہے کال ، کس زمانے کی ہیں ؟ یہ سب آوءٹ ڈیٹڈ چیزیں ہیں ۔ نیا دور ، نیا چلن
چھوڑو بھیا تمھاری دکان ہی ٹھیک نہیں اتنی بڑی منڈی کہیں تو دستیاب ہوں گی یہ چیزین بھی ، کسی اور دکان کا پتہ بتا دو
امام صاحب شام ہوگئی پھرتے پھراتے پر بے سود کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ لوٹ کے بدھو گھر کو ائے
بھلا اب یہ بھی کوئی بات ہے جب کمارے پاس نوٹ نہیں تھے تو انتظار رہتا ایک دن دولت آئے گی ہم بھی من مرضی کی چیزوں سے گھر بھر لیں گے
دولت آگئی چیزیں نہ آئیں ۔
امام صاحب = آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے اور بے داغ دامن کو داغدار کر جاتا ہے ، لب سئیے بیٹھے ہیں
امامیات از سمیرا امام
آخری تدوین: