با ادب
محفلین
امام صاحب کی شخصیت بے حد خوب ہے ۔ مردوں کی یہ قسم اب نا پید ہو چکی ہے لیکن شاید ہر زمانے میں پچھلے زما نے کی با قیات رہ جا تی ہیں ۔ یا اللہ میا ں کو ایک آدھ ایسی مثال زندہ رکھ کر نئ نسل کو پرانی نسل سے آگاہی دینا مقصود ہوتی ہے ۔
نرمی ، شائستگی کسی زما نے میں امام صاحب کا خا صہ ہوا کرتی تھی ، حس مزاح خوب ہی نہیں نہایت خوب تھی ۔ تلخ بات کو بھی اس شیریں انداز بیاں سے کرتے کہ سننے والے فدا ہو جاتے ۔دعسروں کی غلطی کی نشان دہی اس عجز و انکسار سے بیان کرتے کہ سننے والے کو گمان بھی نہ گزرتا کہ غلطی سراسر اسکی ہےوہ سمجھتا غلطی امام صاحب نےہی کی ہے ۔ غلطی کی نشان دہی کے بعد امام صاحب سامنے والے کو اتنا مان دیتے ان کے ایسے عقیدت مند بن جاتے ، ایسی مسند اعلی پر بٹھا دیتے کہ چاہنے کے با وجود وہ ائندہ امام صاحب کے سامنے صرف وہی غلطی کیا کسی بھی دوسری کمینگی سے احتراز بر تتا
میں نے زندگی بڑے آرام سے جوہڑ کے مینڈک کی طرح گزاری تھی ۔ مجھے نہ تو تو سمندر سے آشناہی تھی اور نہ اس آشناہی کی طلب ۔
جوہڑ میں رہنے والا کیا جانتا ہے کہ سمندر کی وسعت اور شفافیت میں کیسے کیسے راز پنہاں ہیں ۔ سمندروں سے آگاہی باعث تسکین ہونے کے ساتھ باعث تکلیف بھی ہوتی ہے۔خاص کر جوہڑ کے مینڈک کے لئے ۔
وہ ایسے درد میں مبتلا ہو جاتا ہے اس آگہی کے بعد کہ نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے ۔ جینے کی خواہش میں مرنے لگتا ہے اور مرنے کی خواہش میں جی اٹھتا ہے ۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ۔ وسعت کو دیکھنے کی قطعاکوئ طلب نہ تھی ۔ طلب ہوتی بھی کیسے وسعت کا تصور تک ذہن میں نہ تھا ۔
شومئ قسمت کہیے ک جوہڑ میں ڈبکیاں لگاتے لگاتے جانے کیسے سمندر میں جا گری۔ تحیر در تحیر ۔ حیرت سے آنکہیں نہ کھلتیں نہ بند ہو تی تھیں ۔
اللہ اللہ یہ وسعتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدایا یہ دنیا!
کیا کیا رنگ ہیں قدرت کے ۔ کیسی کیسی تخلیق ہے ۔ سمندر کے اندر کی دنیا الاماں الحفیظ ۔ سانپ، جھینگے، سیپیاں، مگرمچھ،مچھلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلقت ہی خلقت ۔ رنگ ہی رنگ ۔ ۔ ۔ کچھ جانوروں کے تو نام بھی نہ آتے تھے ۔ زبان گنگ اور گونگی۔
میں تو اہل زباں بھی نہ تھی کہ بیان کی خوبصورتی سے توجہ حاصل کر لیتی۔۔ ۔ اور چلیے توجہ نہ بھی حاصل کر سکتی تو حال دل ہی بیاں کر دیتی۔
خیر اس کیفیت میں ہمارا واسطہ آن پڑا امام صاحب سے
یک رنگی،دورنگی،سہ رنگی ، چو رنگی ،رنگا رنگی۔
مارے حیرت کے ہم انگلیاں منہ میں دابتے ۔ ہر نئے رنگ پہ آنکھیں باہر کو ابل پڑتیں۔
میں اسی ورطئہ حیرت میں ڈوبتی ابھرتیشیاد کسی کنارے لگ ہی جاتی لیکن امام صاحب کے وسیع ظرف نے ہمیں دیوتا بنا ڈالا ۔
وہ ہماری کم عقلی ، کم فہمی اور کم ظرفی کو وسعت دینا چاہتے تھے ۔ ہم وسعت سے قطعا نا واقف ۔ طرہ یہ کہ نا واقفیت کے با وجود واقفیت کا اصرار۔ ہم سب جانتے ہیں ہمیں سب پتہ ہے۔
ہما رے اس بے بنیاد دعوے پر امام صاحب تبسم فرماتے ،سر دھنتے اور ایسی واہ واہ کرتے کہ ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا۔ ہم سر مستی کے عالم میں خوب پھول کر کپا ہو جا تے۔
بچپن میں ایک کہانی سنی تھی ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سمندری مینڈک ایک کنوئیں کے مینڈک کا مہمان ہو جاتا ہے ۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ سمندر بہت بڑا ہوتا ہے ۔ کنو ئیں کا مینڈک خود کو پھلاتا ہے اور پوچھتا ہے اتنا بڑا ۔ ۔ ۔ سمندری مینڈک ارشاد کرتا ہے نہیں اس سے بھی بڑا ۔ وہ خود کو مزید پھلا کہ پوچھتا ہے اتنا ۔ ۔ ۔
نہیں اور زیادہ ۔ ۔ سمندر کا مینڈک پریشان ۔ خدایا کیو نکر اسے سمندر خی وسعت سے آگا ہی دے ۔ قدرت کے ہاتھوں عاجز ہے کہ ستم ظریفئ قدرت نے اس کنوئیں میں لا پھینکا ہے ۔
اور وہ استطا عت نہیں رکھتا کہ کنو ئیں سے نکلے اپنے ساتھی کو نکا لے اور لے جا کے سمندر کے سامنے کھڑا کر دے کہ یہ دیکھو اتنا وسیع ۔ ۔ اتنا بڑا ۔ ۔ اتنا فراخ ۔ ۔ اتنا اعلی ظرف ۔ ۔ تمھیں بھی گلے لگا لے گا آگے بڑھ کے تو دیکھو۔
اس سب سے قاصر بے چارہ فقط زبان کے جوہر دکھا کے وسعت کو الفاظ میں مقید کرتا ہے۔
لیکن کنو ئیں کے مینڈک کی کم عقلی تک رسائ نہیں کہ کم بخت اپنی جان کا دشمن ہو جا ئے گا۔ وہ خود کو پھلاتا جاتا ہے پھلاتا جاتا ہے ۔ اتنا وسیع اتنا وسیع کی گردان اسے موت کے منہ تک لے جاتی ہے ۔ پھولتے پھولتے پھٹ جاتا ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے ۔ کون جانے اگلے جہان میں مینڈک کو جنت الفردوس اعلی مقام ملتا ہے یا نہیں ۔ گر ملتا ہے تو پھر تو یہ بھی امید ہے کہ اللہ تعالی جنت میں سمندر کا نظارہ کروا دیں گے۔ دکھی روح کو سکون مل جائے گا۔
ہمیں باری تعالی نے موت کے منہ میں لے جانے سے بچا لیا تھا کہ جب ہم خوب پھول کر کپا ہو کے پھٹنے کے دہانے پر آکھڑے ہوئے۔ قریب تھا کہ موت واقع ہو جاتی ۔ تقدیر نے ھاتھ تھاما ۔ ۔ ۔ عین آخری لمحات میں امام صاحب کی عقل جاگ گئ ۔ میری کم عقلی تک رسائ حاصل ہو گئ ۔ وہ آگے بڑھے ۔ دونوں ھاتھوں سے پکڑا او اور زور کا جھٹکا دےکر ہوا میں اچھالااور زمین دے مارا ۔ ساری ہوا نکل گئ ۔ ساری پھوں پھاں رخصت ہو گئ ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔ ناگواری کی شدید لہر دماغ میں اٹھی اور دیوتا حقیر پجاری کی جرات پہ طیش میں آکے اسے لتاڑنے کی کوشش میں آکے اسے لتاڑنے کی کوشش میں منہ کھولتا ،بند کرتا ہے۔
عین اسی لمحے حقیقت کے در وا ہو جاتے ہیں اور کنوئیں کا مینڈک حقیقت حال سے واقف ہو جاتا ہے ۔
اس اٹھا پٹخ کے بعد اب امام صاحب پھر سر جھکائے مجذوب بن کر عجزوانکسار میں ملفوف بن بیٹھے ہیں ۔
بس ایسی شخصیت تھی ان کی ۔ کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے نہیں فرماتے ک بھائ غلطی تمھاری ہے ۔ تم غلطی پر ہو ۔ دیکھو غلط بات کر رہے ہو ۔ ایسے مت کہو ۔
اختلاف رائے بلاشبہ وہ کرتے تھے لیکن مخالفت پر کبھی کمر بستہ نہ ہوئے تھے کہ انا کی تسکین کی خاطر دوسرے کو پچھاڑتے اور اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتے کہ چل بول اب تجھے کون بچھائے گا ۔
میں نے یہ طریقئہ واردات کبھی دیکھا ہی نہیں تھا کہ اختلاف دھیمے دھیمے تبسم سے بھی ہو سکتا ہے اختلاف خاموش رہ ک سر دھننے سے بھی ہو سکتا ہے ۔
اختلاف دوسروں کو دیوتا بنا کر خود انکا پجاری بن کر دونوں ھاتھ جوڑ کر سامنے کھڑے ہوکر یہ کہنے سے بھی ہو سکتا ہے کہ عالی مرتبت ! آپکی شان نہیں کہ آپ کبھی غلط بات کریں ۔ اپنی شان قائم رکھنے کو عالی جاہ ایک بار پھر اپنی بات پر غور کر لیجئے ۔
اور خوب غور و خوض کے بعد اپنا قول دھرائیے ۔ عالی مقام دوبارہ دہراتے ہوئے اگر بات میں مزید زریں اقوال شامل ہو جائیں تو داس انھیں دل و جان سے اپنائے گا ۔
دیوتا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی شان کی خاطر بات پہ غور کرنا شروع کرتا ہے اور درست مقام پہ پہنچ جاتا یے ۔
پہلے تولو پھر بولو ۔ ۔ کسی دانا کا قول ہے ۔ لیکن اس قول کو امام صاحب اس عاجزی سے سمجھاتے ہیں کہ سمجھنے والا جان ہی نہیں پاتا کہ اسکی اصلاح کی گئ ہے ۔ بلکہ وہ اسی میں خوش رہتا ہے کہ اس نے خود ایک زریں قول کہہ دیا ہے ۔
امام صاحب کی اس عادت نے نا چیز کو زندگی کا ایک بہترین سبق دیا ہے ۔ اور یہ سبق سیکھنے کے بعد جب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو اختلافی معاملات کو ہوا دیتے اور انھیں لڑ جھگڑ کر حل کرتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کاش ہر انسان ایک بار سچے دل سے اپنے امام کی تقلید کرے ۔ اور منہ جب ایک بار ول کعبے شریف ہو جائے تو زندگی سنور جاتی ہے ۔ صرورت اس امر کی نہیں کہ ہمارے موقف کی آ واز بیت بلند ہو بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موقف بہت بلند ہو ۔
کسی بھی قول اور قدم سے پہلے کچھ دیر رک کر آخری جائزہ لینا انسان کو عمر بھر کی پشیمانی سے بچا لیتا ہے
۔
امامیات از سمیرا امام
نرمی ، شائستگی کسی زما نے میں امام صاحب کا خا صہ ہوا کرتی تھی ، حس مزاح خوب ہی نہیں نہایت خوب تھی ۔ تلخ بات کو بھی اس شیریں انداز بیاں سے کرتے کہ سننے والے فدا ہو جاتے ۔دعسروں کی غلطی کی نشان دہی اس عجز و انکسار سے بیان کرتے کہ سننے والے کو گمان بھی نہ گزرتا کہ غلطی سراسر اسکی ہےوہ سمجھتا غلطی امام صاحب نےہی کی ہے ۔ غلطی کی نشان دہی کے بعد امام صاحب سامنے والے کو اتنا مان دیتے ان کے ایسے عقیدت مند بن جاتے ، ایسی مسند اعلی پر بٹھا دیتے کہ چاہنے کے با وجود وہ ائندہ امام صاحب کے سامنے صرف وہی غلطی کیا کسی بھی دوسری کمینگی سے احتراز بر تتا
میں نے زندگی بڑے آرام سے جوہڑ کے مینڈک کی طرح گزاری تھی ۔ مجھے نہ تو تو سمندر سے آشناہی تھی اور نہ اس آشناہی کی طلب ۔
جوہڑ میں رہنے والا کیا جانتا ہے کہ سمندر کی وسعت اور شفافیت میں کیسے کیسے راز پنہاں ہیں ۔ سمندروں سے آگاہی باعث تسکین ہونے کے ساتھ باعث تکلیف بھی ہوتی ہے۔خاص کر جوہڑ کے مینڈک کے لئے ۔
وہ ایسے درد میں مبتلا ہو جاتا ہے اس آگہی کے بعد کہ نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے ۔ جینے کی خواہش میں مرنے لگتا ہے اور مرنے کی خواہش میں جی اٹھتا ہے ۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ۔ وسعت کو دیکھنے کی قطعاکوئ طلب نہ تھی ۔ طلب ہوتی بھی کیسے وسعت کا تصور تک ذہن میں نہ تھا ۔
شومئ قسمت کہیے ک جوہڑ میں ڈبکیاں لگاتے لگاتے جانے کیسے سمندر میں جا گری۔ تحیر در تحیر ۔ حیرت سے آنکہیں نہ کھلتیں نہ بند ہو تی تھیں ۔
اللہ اللہ یہ وسعتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدایا یہ دنیا!
کیا کیا رنگ ہیں قدرت کے ۔ کیسی کیسی تخلیق ہے ۔ سمندر کے اندر کی دنیا الاماں الحفیظ ۔ سانپ، جھینگے، سیپیاں، مگرمچھ،مچھلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلقت ہی خلقت ۔ رنگ ہی رنگ ۔ ۔ ۔ کچھ جانوروں کے تو نام بھی نہ آتے تھے ۔ زبان گنگ اور گونگی۔
میں تو اہل زباں بھی نہ تھی کہ بیان کی خوبصورتی سے توجہ حاصل کر لیتی۔۔ ۔ اور چلیے توجہ نہ بھی حاصل کر سکتی تو حال دل ہی بیاں کر دیتی۔
خیر اس کیفیت میں ہمارا واسطہ آن پڑا امام صاحب سے
یک رنگی،دورنگی،سہ رنگی ، چو رنگی ،رنگا رنگی۔
مارے حیرت کے ہم انگلیاں منہ میں دابتے ۔ ہر نئے رنگ پہ آنکھیں باہر کو ابل پڑتیں۔
میں اسی ورطئہ حیرت میں ڈوبتی ابھرتیشیاد کسی کنارے لگ ہی جاتی لیکن امام صاحب کے وسیع ظرف نے ہمیں دیوتا بنا ڈالا ۔
وہ ہماری کم عقلی ، کم فہمی اور کم ظرفی کو وسعت دینا چاہتے تھے ۔ ہم وسعت سے قطعا نا واقف ۔ طرہ یہ کہ نا واقفیت کے با وجود واقفیت کا اصرار۔ ہم سب جانتے ہیں ہمیں سب پتہ ہے۔
ہما رے اس بے بنیاد دعوے پر امام صاحب تبسم فرماتے ،سر دھنتے اور ایسی واہ واہ کرتے کہ ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا۔ ہم سر مستی کے عالم میں خوب پھول کر کپا ہو جا تے۔
بچپن میں ایک کہانی سنی تھی ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سمندری مینڈک ایک کنوئیں کے مینڈک کا مہمان ہو جاتا ہے ۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ سمندر بہت بڑا ہوتا ہے ۔ کنو ئیں کا مینڈک خود کو پھلاتا ہے اور پوچھتا ہے اتنا بڑا ۔ ۔ ۔ سمندری مینڈک ارشاد کرتا ہے نہیں اس سے بھی بڑا ۔ وہ خود کو مزید پھلا کہ پوچھتا ہے اتنا ۔ ۔ ۔
نہیں اور زیادہ ۔ ۔ سمندر کا مینڈک پریشان ۔ خدایا کیو نکر اسے سمندر خی وسعت سے آگا ہی دے ۔ قدرت کے ہاتھوں عاجز ہے کہ ستم ظریفئ قدرت نے اس کنوئیں میں لا پھینکا ہے ۔
اور وہ استطا عت نہیں رکھتا کہ کنو ئیں سے نکلے اپنے ساتھی کو نکا لے اور لے جا کے سمندر کے سامنے کھڑا کر دے کہ یہ دیکھو اتنا وسیع ۔ ۔ اتنا بڑا ۔ ۔ اتنا فراخ ۔ ۔ اتنا اعلی ظرف ۔ ۔ تمھیں بھی گلے لگا لے گا آگے بڑھ کے تو دیکھو۔
اس سب سے قاصر بے چارہ فقط زبان کے جوہر دکھا کے وسعت کو الفاظ میں مقید کرتا ہے۔
لیکن کنو ئیں کے مینڈک کی کم عقلی تک رسائ نہیں کہ کم بخت اپنی جان کا دشمن ہو جا ئے گا۔ وہ خود کو پھلاتا جاتا ہے پھلاتا جاتا ہے ۔ اتنا وسیع اتنا وسیع کی گردان اسے موت کے منہ تک لے جاتی ہے ۔ پھولتے پھولتے پھٹ جاتا ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے ۔ کون جانے اگلے جہان میں مینڈک کو جنت الفردوس اعلی مقام ملتا ہے یا نہیں ۔ گر ملتا ہے تو پھر تو یہ بھی امید ہے کہ اللہ تعالی جنت میں سمندر کا نظارہ کروا دیں گے۔ دکھی روح کو سکون مل جائے گا۔
ہمیں باری تعالی نے موت کے منہ میں لے جانے سے بچا لیا تھا کہ جب ہم خوب پھول کر کپا ہو کے پھٹنے کے دہانے پر آکھڑے ہوئے۔ قریب تھا کہ موت واقع ہو جاتی ۔ تقدیر نے ھاتھ تھاما ۔ ۔ ۔ عین آخری لمحات میں امام صاحب کی عقل جاگ گئ ۔ میری کم عقلی تک رسائ حاصل ہو گئ ۔ وہ آگے بڑھے ۔ دونوں ھاتھوں سے پکڑا او اور زور کا جھٹکا دےکر ہوا میں اچھالااور زمین دے مارا ۔ ساری ہوا نکل گئ ۔ ساری پھوں پھاں رخصت ہو گئ ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔ ناگواری کی شدید لہر دماغ میں اٹھی اور دیوتا حقیر پجاری کی جرات پہ طیش میں آکے اسے لتاڑنے کی کوشش میں آکے اسے لتاڑنے کی کوشش میں منہ کھولتا ،بند کرتا ہے۔
عین اسی لمحے حقیقت کے در وا ہو جاتے ہیں اور کنوئیں کا مینڈک حقیقت حال سے واقف ہو جاتا ہے ۔
اس اٹھا پٹخ کے بعد اب امام صاحب پھر سر جھکائے مجذوب بن کر عجزوانکسار میں ملفوف بن بیٹھے ہیں ۔
بس ایسی شخصیت تھی ان کی ۔ کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے نہیں فرماتے ک بھائ غلطی تمھاری ہے ۔ تم غلطی پر ہو ۔ دیکھو غلط بات کر رہے ہو ۔ ایسے مت کہو ۔
اختلاف رائے بلاشبہ وہ کرتے تھے لیکن مخالفت پر کبھی کمر بستہ نہ ہوئے تھے کہ انا کی تسکین کی خاطر دوسرے کو پچھاڑتے اور اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتے کہ چل بول اب تجھے کون بچھائے گا ۔
میں نے یہ طریقئہ واردات کبھی دیکھا ہی نہیں تھا کہ اختلاف دھیمے دھیمے تبسم سے بھی ہو سکتا ہے اختلاف خاموش رہ ک سر دھننے سے بھی ہو سکتا ہے ۔
اختلاف دوسروں کو دیوتا بنا کر خود انکا پجاری بن کر دونوں ھاتھ جوڑ کر سامنے کھڑے ہوکر یہ کہنے سے بھی ہو سکتا ہے کہ عالی مرتبت ! آپکی شان نہیں کہ آپ کبھی غلط بات کریں ۔ اپنی شان قائم رکھنے کو عالی جاہ ایک بار پھر اپنی بات پر غور کر لیجئے ۔
اور خوب غور و خوض کے بعد اپنا قول دھرائیے ۔ عالی مقام دوبارہ دہراتے ہوئے اگر بات میں مزید زریں اقوال شامل ہو جائیں تو داس انھیں دل و جان سے اپنائے گا ۔
دیوتا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی شان کی خاطر بات پہ غور کرنا شروع کرتا ہے اور درست مقام پہ پہنچ جاتا یے ۔
پہلے تولو پھر بولو ۔ ۔ کسی دانا کا قول ہے ۔ لیکن اس قول کو امام صاحب اس عاجزی سے سمجھاتے ہیں کہ سمجھنے والا جان ہی نہیں پاتا کہ اسکی اصلاح کی گئ ہے ۔ بلکہ وہ اسی میں خوش رہتا ہے کہ اس نے خود ایک زریں قول کہہ دیا ہے ۔
امام صاحب کی اس عادت نے نا چیز کو زندگی کا ایک بہترین سبق دیا ہے ۔ اور یہ سبق سیکھنے کے بعد جب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو اختلافی معاملات کو ہوا دیتے اور انھیں لڑ جھگڑ کر حل کرتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کاش ہر انسان ایک بار سچے دل سے اپنے امام کی تقلید کرے ۔ اور منہ جب ایک بار ول کعبے شریف ہو جائے تو زندگی سنور جاتی ہے ۔ صرورت اس امر کی نہیں کہ ہمارے موقف کی آ واز بیت بلند ہو بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ موقف بہت بلند ہو ۔
کسی بھی قول اور قدم سے پہلے کچھ دیر رک کر آخری جائزہ لینا انسان کو عمر بھر کی پشیمانی سے بچا لیتا ہے
۔
امامیات از سمیرا امام