ام نور العين
معطل
بسم الله الرحمن الرحيم
امام ابن تيمیہ ( رحمه الله) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت
مولانا عطاء اللہ حنيف بھوجيانى( رحمه الله) كى تحقيق
امام ابن تيمیہ ( رحمه الله) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت
مولانا عطاء اللہ حنيف بھوجيانى( رحمه الله) كى تحقيق
مولانا غلام رسول مہر، لکھتے ہیں : " مولانا ( محمد عطا ء اللہ حنيف بھوجيانى ) كى شان تحقيق كے ثبوت ميں صرف ايك مثال پیش كردينا كافي ہے ۔
ابن بطوطة کے سفرنامے ميں درج ہے کہ جب وہ دمشق ميں تھا تو جمعہ كے دن جامع مسجد گیا . ابن تيميه رحمه الله منبر پر وعظ كر رہے تھے . دورانِ وعظ فرمايا كہ اللہ تعالى رات كے آخرى حصے میں پہلے آسمان پر اترتا ہے، پھر منبر کے بالائى حصہ سے ايك پایہ نیچے اتر کر کہا : یوں اترتا ہے جيسے ميں اتررہا ہوں ۔
چوں کہ یہ الزام عینی شہادت كے دعوى پر مبنی تھا ، اس لیے اكثر لوگوں نے اسے درست سمجھ لیا ۔ چھ سات سو سال تك يہ الزام جس كى حيثيت ايك تہمت سے زيادہ نہ تھی ، امام ابن تيمية رحمہ اللہ کے مخالفوں کے ليے ايك دستاویز بنا رہا . اور عقيدت مند بھی اس كے خلاف كوئى واضح شہادت پیش نہیں کر سکتے تھے ۔
مولانا محمد عطاء اللہ حنيف نے تحقیق کے بعد يہ ثابت كر ديا ہے کہ ابن بطوطہ نو رمضان 736 ه۔ ( 9 اگست 1326ء) كو جمعرات كے دن دمشق پہنچا تھا اور امام ابن تيميہ اس سے بائیس روز قبل 16 شعبان ، 726 ه۔ ( 18 جولائى 1326ء) كو قلعهء دمشق ميں مجبوس ہو چکے تھے ۔ اور اسى قيد ميں ان كا انتقال ہوا ۔
گويا نه امام ابن تيميه رحمه الله ، ابن بطوطة كے دمشق پہنچنے کے وقت آزاد تھے، نه وه جامع مسجد ميں خطبه دے سكتے تھے ، نه ابن بطوطه كے ليے ايسى كوئى بات خود امام كى زبان سے سننے كا موقع آيا، جو بہ وثوق ان سے منسوب كر دى گئی ۔
علاوه بر ايں، خود ابن بطوطہ نے لكھا ہے جب وه دمشق پہنچا تو جامع مسجد كے خطيب و امام قاضي القضاة جلال الدين القزوينى تھے اور سركارى خطيب وامام كے ہوتے ہوئے امام ابن تيمية رحمه الله كے ليے كوئى خطبه دينا بحالت آزادى بھی خارج از بحث تھا كيونكہ وقت كا محكمہء قضا اور خود قزوينى ، امام ابن تيمية رحمہ اللہ كے مخالفين ميں سے تھے ۔
بہر حال ابن بطوطہ كا يہ بيان بالكل بے بنياد ہے ، ممكن ہے سفرنامہ لكھواتے وقت اس كى ياد داشتوں ميں بے ترتیبی پیدا ہو گئی ہو ۔ يہ بھى ممكن ہے كہ دمشق ميں اس كى ملاقاتيں امام ابن تيمية رحمہ اللہ كے مخالفوں سے ہوتی رہی ہوں اور انہوں نے بظاہر اسى قسم كى بے سروپا باتیں ابن بطوطہ کو سنائى ہوں جنہیں اس نے غير شاياں وثوق كى بنا پر ذاتى مشاہدے كا رخ دے ديا ہو ۔
غرض ابن بطوطہ كے دوسرے بيانات كتنے ہی مستند اور درخور قبول كيوں نہ ہوں، يہ بيان بداہتاً غلط ہے ۔كيونكه امام ابن تيمية رحمہ اللہ ، ابن بطوطه كے دمشق پہنچنے سے پيشتر قيد ہو چکے تھے ۔ ان كے تمام رفيق ونياز مند زير عتاب تھے اور اس امر كے وقوع كا امكان ہی نہ تھا جسے واقعيت كے لباس ميں پیش كيا گیا ۔ اس معاملے كى تفصيل آپ اصل كتاب ميں ملاحظہ فرمائيں گے "۔ انتھی ( بحوالہ: مولانا غلام رسول مہر: مقدمه حيات شيخ الاسلام ابن تيمية : ص 17_ 18 )
آگے بڑھنے سے قبل يہ عرض كردينا ضرورى ہے كہ حضرت مولانا غلام رسول مرحوم سے سہو ہوا ، امام ابن تيمیة رحمہ اللہ ، ابن بطوطه كے دمشق پہچنے سے بائيس روز قبل 16 شعبان كو قلعه ميں محبوس نہیں ہوئے تھے بلكھ اكتيس بتيس يوم پہلے 6 يا 7 شعبان كو قلعہ ميں بند كرديئے گئے تھے ۔
مولانا مہر مرحوم سے یہ غلطى يوں ہوئی كھ حضرت مولانا كے ضميمہ ميں 6 شعبان كى بجائے 16 شعبان كتابت كى غلطى سے چھپ گیا ۔مگر انہوں نے بعد كے الفاظ پر غور نہ فرمایاجس ميں حضرت مولانا مرحوم نےبصراحت لكھا ہے كہ: " يعنى ابن بطوطه كے پہنچنے سے 32 دن قبل قلعہ ء دمشق ميں محبوس ہو چکے تھے ۔ _( حيات شيخ الاسلام ص 150 ) اور يہ بتيس دن تبھى پورے ہوتے ہیں جب تاريخ 6 شعبان ہو ۔
يہاں یہ بات مزيد قابل وضاحت ہے كہ شيخ ابوزھرة نے لكھا ہے كہ شيخ الاسلام ابن تيميه كى گرفتارى كا شاہى حكم دمشق ميں 7 شعبان 626ه۔ كو پہنچا . فورا ہی تعميل حكم كى غرض سے امام صاحب كو مطلع كيا گیا اور ان كى خدمت ميں سوارى بھيج كر دمشق كے قلعہ ميں انہیں پہنچا كر محبوس كرديا گیا ( بحوالہ: حيات شيخ الاسلام ابن تيمية : ص 150) .
شيخ ابو زهرة چند صفحات كے بعد لكھتے ہیں : 20" ذو القعده كو امام صاحب اس دنيائے نا پائیدار سے رخصت ہو گئے . ابتلاء اور مصيبت كا يہ آخرى دور تقريبا 5 ماہ تك جارى رہا . " ( حيات شيخ الاسلام ص 157)
اصل عربى نسخہ تو پیش نگاه نہیں تا ہم دور ابتلاء كى يه مدت چارماه تيره دن ہے ، جسے تقريبا پانچ ماه سے تعبير كيا گیا ہے اور قيد كئے جانے كى تاريخ سات شعبان ہے ۔واللہ تعالى اعلم .
اندازه فرمائيے كہ كس قدر صاف اور واضح بات ہے کہ اكتيس بتيس يوم پہلے قيد كئے جانے والے كو ابن بطوطہ نے دمشق ميں خطبہ ديتے ہوئے کیسے دیکھ لیا ؟ سبحانك هذا بهتان عظيم .
تاريخ ورجال كا عالم اس بات سے بخوبي واقف ہے کہ راويوں كو جانچنے اور پرکھنے كا ايك طريقہ يہی علم التاريخ والوفيات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انتہی ۔
( اقتباس ازمضمون : مولانا عطاء اللہ حنيف ( رحمہ اللہ ) كا ذوق تاريخ ورجال ،
مؤلف : مولانا ارشادالحق اثري ( حفظہ الله) ،
مطبوعہ ضمن : اشاعت خاص " الاعتصام " بياد مولانا عطاء اللہ حنيف بھوجيانى _ رحمه الله_ )
مؤلف : مولانا ارشادالحق اثري ( حفظہ الله) ،
مطبوعہ ضمن : اشاعت خاص " الاعتصام " بياد مولانا عطاء اللہ حنيف بھوجيانى _ رحمه الله_ )