امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات

مختلف مشاہد کی وضاحت
خطیبِ پاکستان واعِظِ شیریں بیان حضرتِ مولیٰنا الحاج الحافظ محمد شفیع اوکاڑوی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی تالیف "شامِ کربلا" میں تحریر فرماتے ہیں: سرِ انور کے متعلق مختلف روایات ہیں اور مختلف مقامات پر مَشاہَد بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِن رِوایات اور مَشاہَد کا تعلق چند سروں سے ہو کیوں کہ یزید کے پاس تمام شہدائے اہلبیت علیہم الرضوان کے سر بھیجے گئے تھے۔ تو کوئی سر کہیں اور کوئی کہیں دفن ہوا ہو۔ اور نسبت حُسنِ عقیدت کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے صرف حضرتِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کر دی گئی ہو۔ وَ اللہ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَتِ الْحال۔ (شامِ کربلا ص۲۴۹)
 

عین عین

لائبریرین
"وَ اللہ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَتِ الْحال"
یہ بھی اچھا ہے! سب بیان کر دو اور اللہ کا نام استعمال کرلو کہ وہی جانتا ہے حقیقت تو۔ یعنی ہم کو جو عقل اور شعور دیا گیا ہے اس کا استعمال تو کرنا نہیں ہے۔ جتنی باتیں ہیں سب بیان کرنی ہیں ورنہ ایمان کو خطرہ ہے۔ اور سب کچھ نقل کرنے کے بعد کہہ دو کہ حقیقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔
 
مغفرت سے مایوسی کی لرزہ خیز حکایت
حضرتِ سیدنا ابومحمد سلیمان الاعمش کوفی تابعی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: میں حجِ بیت اللہ کے لئے حاضر ہوا، دورانِ طواف ایک شخص کو دیکھا کہ غلافِ کعبہ کے ساتھ چمٹا ہوا کہہ رہا تھا: یا اللہ! مجھے بخش دے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تُو مجھے نہیں بخشے گا۔" مٰں اس کی اِس عجیب سی دُعا پر بہت متعجب ہوا کہ سبحٰن اللہِ العظیم آخر اس کا ایسا کون سا گناہ ہے جس کی بخشش کی اِس کو امید نہیں، مگر میں طواف میں مصروف رہا۔ دوسرے پھیرے میں بھی سنا تو یہی کہہ رہا تھا، میری حیرانی میں مزید اضافہ ہوا۔ میں نے طواف سے فارغ ہو کر اس سے کہا، تُو ایسے عظیم مقام پر ہے جہاں بڑے سے بٹا گناہ بھی بخشا جاتا ہے تو اگر تُو اللہ عزوجل سے مغفرت اور رحمت طلب کرتا ہے تو اس سے اُمید بھی رکھ کیوں کہ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے بندے تو کون ہے؟ میں نے کہا، میں سلیمان الاعمش (رحمۃ اللہ علیہ) ہوں! اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا، میرا بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے کہا، کیا تیرا گناہ پہاڑوں، آسمانوں، زمینوں اور عرش سےبھی بڑا ہے؟ کہنے لگا، ہاںمیرا گناہ بہت زیادہ بڑا ہے! افسوس! اے سلیمان! میں اُں ستر بدنصیب آدمیوں میں سے ہوں جو حضرت سیدنا امام عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِانور کو یزید پلید کے پاس لائے تھے۔ یزید پلید نے اس مبارک سر کو شہر کے باہر لٹکانے کا حکم دیا۔ پھر اس کے حکم سے اتارا گیا اور سونے کے طشت میں رکھ کر اس کے سونے کے کمرے (BEDROOM) میں رکھا گیا۔ آدھی رات کے وقت یزید پلید کی زوجہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سرِ انور سے لے کر آسمان تک ایک نورانی شعاع جگمگا رہی ہے! یہ دیکھ کر وہ سخت خوفزدہ ہوئی اور اس نے یزید پلید کو جگایا اورکہا، اُٹھ کر دیکھو، میں ایک عجیب و غریب منظر دیکھ رہی ہوں، یزید نے بھی اُس روشنی کو دیکھا اور خاموش رہنے کے لئے کہا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے سرِ مبارک نکلوا کر دِیبائے سبز (ایک عمدہ قسم کے سبز کپڑے) کے خیمے میں رکھوا دیا اور اس کی نگرانی کے لئے ستر آدمی مقرر کر دیئے، میں بھی ان میں شامل تھا۔ پھر ہمیں حکم ہوا جاؤ کھاناکھا آؤ۔ جب سورج غروب ہو گیا اور کافی رات گزر گئی تو ہم سو گئے۔ یکا یک میری آنکھ کھل گئی، کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان پر ایک بڑا بادل چھایا ہوا ہے اور اس میں سے گڑگڑاہٹ اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آواز آ رہی ہے پھر وہ بادل قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ زمین سے مل گیا اور اس میں سے ایک مرد نمودار ہوا جس پر جنت کے دو حُلّے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک فرش اور کرسیاں تھیں،اُس نے وہ فرش بچھایا اور اس پر کرسیاں رکھ دیں اور پکارنے لگا: اے ابو البشر! اے آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام! تشریف لائیے۔ ایک نہایت حسین و جمیل بزرگ تشریف لائے اور سرِ مبارک کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا: "سلام ہو تجھ پر اے اللہ کے ولی! سلام ہو تجھ پر اے بقیۃ الصالحین! زندہ رہے تم سعید ہو کر، قتل ہوئے تم طرید یعنی خلف ہو کر، پیاسے رہے حتی کہ اللہ عزوجل نے تمہیں ہم سے ملا دیا۔ اللہ عزوجل تم پر رحم فرمائے اور تمہارے قاتل کے لئے بخشش نہیں۔ تمہارے قاتل کے لئے کل قیامت کے دن دوزخ کا بہت بُرا ٹھکانا ہے۔"
یہ فرما کر وہ وہاں سے ہٹے اور اُن کرسیوں میں سے ایک کرسی پر تشریف فرما ہو گئے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک اور بادل آیا وہ بھی اِسی طرح زمین سے مل گیا اور میں نے سنا کہ ایک منادی نے ندا کی: اے نبی اللہ! اے نوح علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام! تشریف لائیے۔ ناگاہ ایک صاحبِ وجاہت زردی مائل چہرہ والے بزرگ دو جنتی حُلّے پہنے ہوئے تشریف لائے اور اُنہوں نے بھی وہی الفاظ ارشاد فرمائے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر ایک اور بڑا بادل آیا اور اس میں سے حضرت سیدنا ابراھیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نمودار ہوئے۔ انہوںنے بھی وہی کلمات فرمائے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے اِسی طرح حضرتِ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام اور حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام تشریف لائے اور اِسی طرح کےکلمات ارشاد فرما کر کُرسیوں پر جلوہ افروز ہو گئے۔ پھر ایک بہت ہی بڑا بادل آیا اُس میں سے حضرتِ سیدنا و مولیٰنا محمدِ مدنی ﷺ اور حضرتِ سیدتنا بیبی فاطمہ اور حضرتِ سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ملائکہ نمودار ہوئے۔ پہلے مدینے کےسلطان، رحمتِ عالمیان، سرورِ ذیشان ﷺ سرِ انور کے پاس تشریف لے گئے اور سرِ مبارک کو سینے سے لگایا اور بہت روئے۔پھر حضرتِ سیدتنا بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا، اُنہوں نے بھی سینے سے لگایا اور بہت روئیں۔پھر حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے نبی رحمت، شفیعِ امت، شہنشاہِ نبوت، تاجدارِ رِسالت ﷺ کےپاس آکر یوں تعزیت کی:
السلام علی الولد الطیب، السلام علی الخلق الطیب، اعظم اللہ اجرک و احسن عذاءک فی ابنک الحسین۔
سلام ہو پاکیزہ فطرت و خصلت والے پاک فرزند پر، اللہ آپ کو بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور آپ ﷺ کے شہزادۂ گرامی حسین (کے اس امتحان) میں احسن یعنی بہترین صبر دے۔
اِسی طرح حضرتِ سیدنا نوح نجی اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام، حضرت سیدنا ابراھیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام، حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام، حضرتِ سیدنا عیسیٰ روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی تعزیت فرمائی۔ پھر سرکارِ والا تبار، باذنِ پروردگار دوجہاں کے مالِک و مختار، شہنشاہِ ابرار ﷺ نے چند کلمات ارشاد فرمائے۔ پھر ایک فرشتے نے سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ، قرارِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ ﷺ کے قریب آ کر عرض کی، اے ابوالقاسم ﷺ (اس واقعۂ ہائلہ سے) ہمارے دل پاش پاش ہو گئے ہیں۔ میں آسمانِ دنیا پر مؤکل ہوں۔ اللہ تعالٰی نے مجھے آپ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اگر آپ ﷺ مجھے حکم فرمائیں تو میں ان لوگوں پر آسمان ڈھا دوں اور ان کو تباہ کر دوں۔ پھر ایک اور فرشتہ نے آ کر عرض کی، اے ابوالقاسم! ﷺ میں دریاؤں پر مُوَکَّل ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں ان پر طوفان برپا کر کے ان تہس نہس کر دوں۔سرکارِ مدینہ ﷺ نے فرمایا: اے فرشتو! ایسا کرنے سے باز رہو۔ حضرت سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے (سوئے ہوئے چوکیداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت ﷺ میں) عرض کی، نانا جان! یہ جو سوئے ہوئے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو میرے بھائی (حسین) کے سرِ انور کو لائے ہیں اور یہی نگرانی پر بھی مقرر ہیں۔ تو نبی پاک ﷺ نے فرمایا: "اے میرے رب کے فرشتو میرے بیٹے کے قتل کے بدلے میں ان کو قتل کر دو۔" تو خُدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ چند ہی لمحوں میں میرے سب ساتھ ذبح کر دیئے گئے۔ پھر ایک فرشتہ مجھے ذبح کرنے کے لئے بڑھا تو میں پکارا، اے ابو القاسم! ﷺ مجھے بچائیے اور مجھ پر رحم فرمائیے اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ تو آپ ﷺ نے فرشتہ سے فرمایا: "اسے رہنے دو" پرھ آپ ﷺ نے میرے قریب آ کر فرمایا: تو ان ستر آدمیوں میں سے ہے جو سر لائے تھے؟ میں نے عرض کی، جی ہاں! پس آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے میں ڈال کر مجھے منہ کے بل گرا دیا اور فرمایا: "اللہ تجھ پر رحم نہ فرمائے اور نہ تجھے بخشے، اللہ عزوجل تیری ہڈیوں کو نارِ دوزخ میں جلائے۔" تو یہ وجہ ہے کہ میں اللہ عزوجل کی رحمت سے ناامید ہوں۔ حضرت سیدنا اعمش رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سُن کر فرمایا: او بدبخت! مجھ سے دور ہو کہیں تیری وجہ سے مجھ پر بھی عذاب نازل نہ ہو جائے۔ (شامِ کربلا)

باغِ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا ﷺ
اے زہے قسمت تمہاری کُشتَگانِ ۱؎ اہلبیت رضی اللہ عنہم

۱؎ کُشتہ کی جمع، مقتولین، عُشّاق

حُبِّ جاہ و مال
حب جاہ و مال بہت ہی برا وبال ہے۔ میرے پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ ﷺ کا فرمانِ معظم ہے: "دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و مرتبہ کا لالچ انسان کےدین کو نقصان پہنچاتاہے۔" (سنن ترمذی ج۴ حدیث ۲۳۸۳)
یزید پلید مال و جاہ کی محبت ہی کی وجہ سے سانحۂ ہائلۂ کرب و بلا کے وقوع کا باعث بنا۔ اِس ظالِمِ بد انجام کو امامِ عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ و ارضاہ کی ذاتِ گرامی سےاپنے اقتدار کو خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ حالانکہ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کو دنیائے ناپائیدار کے اقتدار سے کیا سروکار! آپ رضی اللہ عنہ تو کل امتِ مسلمہ کے دلوں کے تاجدار تھے، آج بھی ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔؎

نہ ہی شمر کا وہ ستم رہا، نہ یزید کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حسین کا، جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
 
یزید کی عبرتناک موت
حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلاً مروی ہے کہ: حُبُّ الدنیا رأس کل خطیئۃ یعنی دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ص۲۲۳ حدیث ۳۶۶۲ دار الکتب العلمیہ بیروت)
یزید پلید کا دل چونکہ دنیائے ناپائیدار کی محبت سے سرشار تھا اِس لئے وہ شہرت و اقتدار کی ہوس میں گرفتار ہو گیا۔ اپنے انجام سے غافل ہو کر اُس نے امامِ عالی مقام اور آپ کے رفقاء علیہم الرضوان کے خونِ ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیا۔ جس اقتدار کی خاطر اُس نے کربلا میں ظلم و ستم کی آندھیاں چلائیں وہ اقتدار اُس کے لئے کچھ زیادہ ہی ناپائیدار ثابت ہوا۔ بدنصیب یزید صرف تین برس چھے ماہ تختِ حکومت پر شیطنت (یعنی شرارت و خباثت) کر کے ربیع النور شریف ۶۴؁ھ کو ملک شام کے شہر حمص کے علاقے حوارین میں ۳۹ سال کی عمر میں مر گیا۔ (الکامل فی التاریخ ج۳ ص۴۶۴ دار الکتب العلمیہ بیروت)
یزید پلید کی موت کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک رُومیُ النسل لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا، مگر وہ لڑکی اندرونی طور پر اُس سے نفرت کرتی تھی۔ ایک دن رنگ رلیاں منانے کے بہانے اس نے یزید کو دُور ویرانے میں تنہا بُلایا۔ وہاں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے یزید کو بدمست کردیا۔ اُس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت و نابَکار اپنے نبی کے نواسے کا غَدّار ہو وہ میرا کب وفادار ہو سکتا ہے، خنجرِ آبدار سے پے در پے وار کر کے چیر پھاڑ کر اس کو وہیں پھینک دیا۔ چند روز تک اُس کی لاش چیل کووں کی دعوت میں رہی۔ بالآخر ڈھونڈتے ہوئے اُس کے اَہالی مَوالی وہاں پہنچے اور گڑھا کھود کر اُس کی سڑی ہوئی لاش کو وَہیں داب آئے۔ (اوراقِ غم ص۵۵۰)

وہ تخت ہے کس قبر میں وہ تاج کہاں ہے؟
اے خاک بتا زورِ یزید آج کہاں ہے؟

 

عین عین

لائبریرین
وہ تخت ہے کس قبر میں وہ تاج کہاں ہے؟
اے خاک بتا زورِ یزید آج کہاں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مان لیا کہ :
تخت بھی تھا، تاج بھی لشکر بھی وہاں تھا
اس وقت مگر آپ کا ایمان کہاں تھا؟؟؟
راس الحسین نیزے پہ بس دیکھتے رہے
کیا چاہنے والوں کو معجزے کا گماں تھا؟
 

محمد امین

لائبریرین
تین کرامات ظاہر ہوئیں۔ ایک کو گھوڑے نے آگ میں گرا دیا، دوسرے کو بچھو نے ڈس لیا،تیسرے کو پانی نہ ملا اس پر بھی اتنے بڑے لشکر یزید(جیسا کہ بتایا جاتا ہے) میں سے کوئی ایسا نہیں نکلا جو ان نشانیوں سے سیکھتا اور حق کی طرف آتا۔ واقعی بہت ہی سیاہ بخت اور مردہ دل تھے وہ ہزاروں یزیدی، چلو یہ ہوا لیکن پھر سر نیزے پر لے کر چلے، عام لوگ اپنے گھروں سے نکلے، دیکھا، جگہ جگہ پھرایا گیا، دیکھنے والوں نے دیکھا اور سننے والوں نے سنا کہ سرمبارک تلاوت کر رہا ہے، جنبش ہو رہی ہے لب حسین کو، خوشبو آرہی ہے، خود پھرانے والوں نے اور یزید کے ملازموں نے جو یہ سب کر رہے تھے وہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوں گے مگر پھر بھی وہ حق کی طرف نہیں لوٹے، ایسی بد بختی طاری تھی ان پر، کوئی تو ہوتا، جو سر پھرانے کے دوران یہ سب کرامات دیکھ کر یزید کے لشکر اور یزید کے خلاف میدان میں اتر جاتا۔ اتنا کچا ایمان تھا ان کا کہ جان کی پروا تھی، مصلحت کے تحت نواسہ رسول کے سر کو نیزے پر دیکھتے رہے لیکن کچھ نہ کر سکے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس وقت ایمان کی کمزوری کا یہ عالم تھا تو آج تو کوئی بھی ایمان والا نہ ہو گا۔ نقل کیے جائو جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر

تو بھیا ہمیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ یزید موصوف کو (رحمۃ اللہ علیہ) کہنے والوں میں سے ہیں؟؟ بہرحال آپ کا انداز کافی سخت ہے۔۔۔ اللہ ہمیں بہتر سمجھ عطا فرمائے۔
 

عین عین

لائبریرین
تو بھیا ہمیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ یزید موصوف کو (رحمۃ اللہ علیہ) کہنے والوں میں سے ہیں؟؟ بہرحال آپ کا انداز کافی سخت ہے۔۔۔ اللہ ہمیں بہتر سمجھ عطا فرمائے۔
نہیں امین۔ میں اسے رحمتہ اللہ علیہ کہنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ انداز سخت لگا ہو گا میں نے اپنی طرف سے طنز کیا ہے بہت نارمل انداز میں۔ کیا یہ محسوس نہں ہوتا کہ ہم سنی سنائی کو آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے اپنے وچار کچھ نہیں ہیں۔ موصوف نے جو کچھ پوسٹ کیا ہے کیا وہ اسٹوریاں نہں معلوم ہوتیں۔ ایک ہی بات کو سو طرح سے بیان کی اگیا ہے۔ اور بیان کرنے والے یوں بیان کرتے ہیں کہ گویا خود موقعے پر موجود تھے۔ حد ہوتی ہے۔
میں اس خیال کاہوں کہ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سرور کائنات شافع محشر کے نواسے تھے اور جناب حضرت علی اور بی بی فاطمہ کے گھر سے تھے، ان کی حق اور سچائ کی خاطردی گئی قربانی لاجواب اور رہتی دنیا تک مثال ہے لیکن اسے جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ عقل میں آتا نہٰں ہے۔
امام غزالی نے غالبا لکھا ہے کہ اس معاملے میں خاموشی بہتر ہے۔ اور یار اس پر بحث بہت ہو چکی ہے۔ بس ان عطاری بھائی کی کاپی پیسٹ کی حرکت دیکھ کر جی جلا کہ بنا سوچے سمجھے ہم لوگ لگے ہوئے ہیں
 

Ukashah

محفلین
نہیں امین۔ میں اسے رحمتہ اللہ علیہ کہنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ انداز سخت لگا ہو گا میں نے اپنی طرف سے طنز کیا ہے بہت نارمل انداز میں۔ کیا یہ محسوس نہں ہوتا کہ ہم سنی سنائی کو آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے اپنے وچار کچھ نہیں ہیں۔ موصوف نے جو کچھ پوسٹ کیا ہے کیا وہ اسٹوریاں نہں معلوم ہوتیں۔ ایک ہی بات کو سو طرح سے بیان کی اگیا ہے۔ اور بیان کرنے والے یوں بیان کرتے ہیں کہ گویا خود موقعے پر موجود تھے۔ حد ہوتی ہے۔
میں اس خیال کاہوں کہ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سرور کائنات شافع محشر کے نواسے تھے اور جناب حضرت علی اور بی بی فاطمہ کے گھر سے تھے، ان کی حق اور سچائ کی خاطردی گئی قربانی لاجواب اور رہتی دنیا تک مثال ہے لیکن اسے جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ عقل میں آتا نہٰں ہے۔
امام غزالی نے غالبا لکھا ہے کہ اس معاملے میں خاموشی بہتر ہے۔ اور یار اس پر بحث بہت ہو چکی ہے۔ بس ان عطاری بھائی کی کاپی پیسٹ کی حرکت دیکھ کر جی جلا کہ بنا سوچے سمجھے ہم لوگ لگے ہوئے ہیں
بہت شکریہ ۔آپ نے اچھی باتیں کیں ۔ میں آپ سے متفق ہوں ۔ جزاکم اللہ خیرا۔

ویسے حسین رضی اللہ عنہ کی ایک کرامت تلاش کرنے پر بھی نہیں ملی جو انھوں نے کربلا کے میدان میں ابن زیاد اور اور اس کے ساتھی کوفہ کے شیعان علی کے خلاف لڑائی میں دکھائی تھی ، جس کی بدولت وہ اپنے قافلے سمیت خیریت سے واپس مکہ پہنچ گئے تھے ، کیا کسی کو معلوم ہے ؟ اگر کسی کو معلوم ہو تو پلیز شیئر کریں ۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 
ابنِ زیاد کا دردناک انجام:
یزید پلید کی وہ چنڈال چوکڑی جس نے میدانِ کربلا میں گلشنِ رِسالت کے مدنی پھولوں کو خاک و خون میں تڑپایا تھا۔ اُن کا عبرتناک انجام ہوا یزیدِ پلید کے بعد سب سے بڑا مجرم کوفہ کا گورنر عبیدُ اللہ ابنِ زیاد تھا۔ اِسی بدنہاد کے حکم پر امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہلبیتِ کرام علیہم الرضوان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ نیرنگیٔ دنیا کا تماشہ دیکھئے کہ مختار ثقفی کی ترکیب سے ابراہیم بن مالک اشتر کی فوج کے ہاتھوں دریائے فرات کے کنارے صرف 6 برس کے بعد یعنی 10 محرم الحرام ۶۷؁ھ کو ابنِ زیادِ بدنِہاد انتہائی ذلت کے ساتھ مارا گیا! لشکریوں نے اس کا سر کاٹ کر ابراہیم کو پیش کر دیا اور ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ بھجوا دیا۔ (سوانحِ کربلا ص۱۲۳ ملخصاً)

جب سرِ محشر وہ پوچھیں گے بُلا کے سامنے
کیاجوابِ جُرم دو گے تم خدا کے سامنے


ابنِ زیاد کی ناک میں سانپ

دارُ الامارات کوفہ کو آراستہ کیا گیا اور اُسی جگہ ابنِ زیادِ بد نِہاد کا سرِ ناپاک رکھا گیا جہاں 6 برس قبل امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ پاک رکھا گیا تھا۔ اِس بدنصیب پر رونے والا کوئی نہیں تھا بلکہ اس کی موت پر جشن منایا جا رہا تھا۔ (سوانحِ کربلا ص۱۲۳) صحیح حدیث میں عِمَارہ بن عُمَیر سے مروی ہے کہ جب عبید اللہ ابنِ زیاد کا سر مع اس کے ساتھیوں کے سروں کے لا کر رکھا گیا تو میں ان کے پاس گیا۔ اچانک غُل پڑ گیا "آیا آیا"۔ میں نے دیکھا کہ ایک سانپ آ رہا ہے، سب سروں کے بیچ میں ہوتا ہوا ابنِ زیاد کے (ناپاک) نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر چلا گیا حتی کہ غائب ہوگیا۔ پھر غُل پڑا، "آیا آیا"، دو یا تین بار ایسا ہی ہوا۔
(سنن ترمذی ج۵ ص۴۳۱ حدیث ۳۸۰۵ دار الفکر بیروت)
ابنِ زیاد، ابنِ سعد، شمر، قیس ابن اشعث کندی، خولی ابنِ یزید، سنان ابنِ انَس نخعی، عبد اللہ ابنِ قیس،یزید بنمالک اور باقی تمام اشقیاء ۱؎ جو حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھے اور ساعی (یعنی کوشش کرنے والے تھے) طرح طرح کی عقوبتوں (یعنی اذیتوں) سے قتل کیے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرائی گئیں۔ (سوانحِ کربلا ص۱۵۸)

کب تلک تم حکومت پہ اِتراؤ گے
کب تک آخر غریبوں کو تڑپاؤ گے
ظالمو! بعد مرنے کے پچھتاؤ گے
تم جہنم کے حق دار ہو جاؤ گے


۱؎ شقی کی جمع، بد بخت لوگ

سچ ہے کہ بُرے کا انجام بُرا ہے
مختار ثقفی نے چن چن کر یزیدیوں کا صفایا کیا۔ ظالموں کو کیا معلوم تھا کہ خونِ شہداء رنگ لائے گا اور سلطنت کے پرزے اُڑ جائیں گے۔ ہر ایک شخص جو قتلِ امام میں شریک ہوا ہے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہو گا۔ وہی فرات کا کنارہ ہو گا، وہی عاشوراء کا دن، وہی ظالموں کی قوم ہو گی اور مختار کے گھوڑے انہیں روندتے ہوں گے۔ ان کی جماعتوں کی کثرت ان کے کام نہ آئے گی۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے، گھر لوٹے جائیں گے، سولیاں دی جائیں گی، لاشیں سڑیں گی اور دنیا میں ہر شخص تُف تُف کرے گا۔ اُن کی ہلاکت پر خوشی منائی جائے گی۔ معرکۂ جنگ میں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں ہو گی مگر وہ دل چھوڑ کر ہیجڑوںکی طرح بھاگیں گے اور چوہوں اور کتوں کی طرح انہیں جان بچانی مشکل ہو گی۔ جہاں پائے جائیں گے مار دیئے جائیں گے۔ دنیا میں قیامت میں ان پر نفرت و ملامت کی جائے گی۔ (سوانحِ کربلا ص۱۲۵)
؎ دیکھے ہیں یہ دن اپنے ہی ہاتھوں کی بدولت
سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے

مختار نے نبوت کا دعویٰ کر دیا
اپنے بارے میں اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر کوکوئی نہیں جانتا کہ کیا ہے۔ مختار ثقفی جس نے قاتلینِ حسین کو چُن چُن کر مارا اور مُحبینِ حُسین کے دل جیتے مگر اُس پر شقاوتِ ازَلی ۱؎ غالب ہوئی اور اُس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہنے لگا، میرے پاس وَحْیْ آتی ہے۔
(الصواعق المحرقۃ ص۱۹۸)

۱؎ ازلی بد بختی

وسوسہ: اتنا زبردست محبِ اہلبیت کس طرح گمراہ ہو کر مرتد ہو سکتا ہے۔ کیا کسی جھوٹے نبی کو بھی ایسے شاندار کارنامے کرنے کی توفیق حاصل ہو سکتی ہے؟
وسوسہ کا علاج: اللہ عزوجل بے نیاز ہے۔ اُس کی خفیہ تدبیر سے ہم سبھی کو ڈرنا چاہئے کہ نہ جانے ہمارا اپنا کیا بنے گا! دیکھئے! شیطان بھی بہت زبردست عالم و فاضل اور عابد و زاہد تھا۔ اس نے ہزاروںسال عبادت کی تھی مگر شقاوتِ ازلی غالب آئی اور وہ کافر و ملعون ہو گیا۔ بلعم بن باعورا بھی بہت بڑا عالم، عابد و زاہد اور مُستجابُ الدَّعوات تھا۔ اُس کو اسمِ اعظم کا علم تھا اپنی جگہ بیٹھ کر روحانیت کے سبب عرشِ اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا مگر شقاوتِ ازلی جب غالب آ گئی تو بے ایمان ہو کر مر گیا اور کتے کی شکل میں داخلِ جہنم ہو گا۔ ابنِ سَقا جو کہ ذہین ترین عالم و مُناظر تھا مگر وقت کے غوث کی بے ادبی کا مرتکب ہو گیا بالآخر نصرانی شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو کر نصرانی مذہب قبول کرنے کے بعد ذلت کی موت مر گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو وحی فرمائی کہ میں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے قتل کے عوض ستر ہزار افراد مارے تھے اور تمہارے نواسے کے عوض ان سے دُگنے (یعنی ڈبل) ماروں گا۔ (المستدرک للحاکم ج۳ ص۴۸۵ حدیث ۴۲۰۸)
تو تاریخ شاہد ہے کہ حضرتِ یحییٰ بن زکریا علیہما الصلوۃ و السلام کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بختِ نصر جیسے ظالم کو متعین کیا جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ اِسی طرح حضرتِ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختار ثقفی جیسے کذاب کو مقرر فرمایا۔ (شامِ کربلا ص۲۸۵)
اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں خود وہی جانتا ہے۔ وہ اپنی مَشیّت سے ظالموں کے ذریعے بھی ظالموں کو ہلاک کرتا ہے۔ چنانچہ پارہ ۸ سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۲۹ میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ کَذَالِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضاً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ (پ۸ الانعام ۱۲۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یوں ہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں۔ بدلہ ان کے کئے کا۔

حضورِ پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشور ﷺ فرماتے ہیں: بے شک اللہ عزوجل اس دینِ اسلام کی مدد فاجِر یعنی بدکار آدمی کے ذریعہ سے بھی کرا لیتا ہے۔ (صحیح بخار ج۲ ص۳۲۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے
ہمیں ہر وقت اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہئے اپنی علمیت، شان و شوکت اورجسمانی طاقت پر گھمنڈ سے بچنا چاہئے اور چرب زبانی اور پھوں پھاں سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ نہ معلوم علمِ الٰہی عزوجل میں ہمارا کیا مقام ہو۔ کہیں ایسا نہ کہ ایمان برباد ہوجائے۔

یا اللہ عزوجل! شاہِ خیر الانام، صحابۂ کرام شہیدِ مظلوم امامِ عالی مقام اور جملہ شہیدان و اسیرانِ کربلا ﷺ و علیہم الرضوان کا واسِطہ ہمارا ایمان سلامت رکھ، ہمیں قبر و حشر میں امان بخش اور ہماری بے حساب مغفرت فرما یا اللہ عزوجل! ہمیں زیرِ گنبدِ خضرا، جلوۂ محبوب ﷺ میں ایمان و عافیت کے ساتھ شہادت، جنّتُ البقیع میں مدفن اور جنتُ الفردوس میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کا پڑوس نصیب فرما۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْامین ﷺ

مشکلیں حل کر شہِ مشکل کشا کے واسطے
کر بلائیں رد شہیدِ کربلا کے واسطے






-----------------------------------------------------------------
مرد کے لئے سب سے بڑا وظیفہ:
تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ پانچ وقت مسجد کی پہلی صف میں باجماعت نماز پڑھنا
---------------------------------------------------------------
 

mohsin iqbal

محفلین
تمام مسلمان دوستوں کو السلامُ علیکم
اوپر ایک بھائی کی بات پسند آئی کہ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سرور کائنات شافع محشر کے نواسے تھے اور جناب حضرت علی اور بی بی فاطمہ کے گھر سے تھے، ان کی حق اور سچائ کی خاطردی گئی قربانی لاجواب اور رہتی دنیا تک مثال ہے لیکن اسے جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ عقل میں آتا نہیں ہے۔
بہرحال اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہلبیت رسول رضی اللہ عنہم کی محبت اور عقیدت نصیب فرمائے۔
 

عین عین

لائبریرین
تمام مسلمان دوستوں کو السلامُ علیکم
اوپر ایک بھائی کی بات پسند آئی کہ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سرور کائنات شافع محشر کے نواسے تھے اور جناب حضرت علی اور بی بی فاطمہ کے گھر سے تھے، ان کی حق اور سچائ کی خاطردی گئی قربانی لاجواب اور رہتی دنیا تک مثال ہے لیکن اسے جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ عقل میں آتا نہیں ہے۔
بہرحال اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہلبیت رسول رضی اللہ عنہم کی محبت اور عقیدت نصیب فرمائے۔
شکریہ محسن۔
 

میر انیس

لائبریرین
محمد شکیل عطاری بھائی نے جو بھی یہاں لکھا محبت اہلِ بیت میں لکھا یہ صحیح ہے کہ روایات میں بہت اختلافات ہے اور اسکی وجہ اسوقت کی ظالم حکومت تھی لوگ بہت مشکل سے صحیح روایات اور احادیث ایک دوسرے تک پہنچا پاتے تھے اگر ذرا سا محسوس بھی ہوجاتا کہ کسی کا تعلق اہلِ بیت سے محبت کرنے والوں میں ہے تو اسکو قتل کردیا جاتا تھا آجکل کی طرح کے صفحات اور پرنٹنگ نہیں تھی بعض روایات انک مٹ جانے کی وجہ سے آدھی رہ جاتی تھیں بعض کاغز کے بوسیدہ ہونے کی وجہ سے کچھ سے کچھ پڑھیں گئیں-
عین عین صاحب آپ نے جو فرمایا کہ اتنے معجزات و کرامات دیکھنے کے باوجود لوگوں کے دل حضرت امام حسین کی طرف مائل کیوں نہ ہوئے تو میں اپ کی توجہ تاریخ کے سب سے عظیم معجزے شق القمر کی طرف دلانا چاہتا ہوں اسکو دیکھ کر تو سارے کافروں کو مسلمان ہوجانا چاہئے تھا پر کتنی مسلمان ہوئے تھے ؟ اللہ خود قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ۔ تو جن کے دلوں پر مہریں لگی ہوئ ہوں ان سے اپ کیا امید رکھتے ہیں چلیں لوگ سب معجزات اور کرامات کو چھوڑیں یہ تو سب کو پتہ تھا نہ کہ یہ نواسہ رسول (ص) ہیں جنکا ہم کلمہ پڑھتے ہیں ۔ جنت کے سردار ہیں جب وہ ان سب باتوں کے باوجود ظلم کرنے سے بعض نہیں آئے تو باقی تو سب ثانوی باتیں ہیں۔
بہت شکریہ ۔آپ نے اچھی باتیں کیں ۔ میں آپ سے متفق ہوں ۔ جزاکم اللہ خیرا۔

ویسے حسین رضی اللہ عنہ کی ایک کرامت تلاش کرنے پر بھی نہیں ملی جو انھوں نے کربلا کے میدان میں ابن زیاد اور اور اس کے ساتھی کوفہ کے شیعان علی کے خلاف لڑائی میں دکھائی تھی ، جس کی بدولت وہ اپنے قافلے سمیت خیریت سے واپس مکہ پہنچ گئے تھے ، کیا کسی کو معلوم ہے ؟ اگر کسی کو معلوم ہو تو پلیز شیئر کریں ۔ جزاکم اللہ خیرا۔
ایسی کوئی روایت موجود ہی نہیں ہے ۔ صرف چند افراد یزید پلیت کی نمک خواری کا حق ادا کرنے کیلئے جو انکے باپ دادا نے کھایا تھا اسکے ظلم پر پردہ ڈالنے کیلئے آج کل نئی روایات گھڑنا چاہ رہے ہیں
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوگیا بس کربلا کے بعد
 
Top