سیما علی
لائبریرین
امام رضا علیہ السلام ؑنے متعدد غررحکم، آداب، وصیتیں اوراقوال، ارشاد فرمائے جن سے لوگ استفادہ کرتے تھے یہ بات اس چیز پردلالت کرتی ہے کہ آپ اپنے زمانہ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے استاد تھے اور آپ نے حکمت کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیب اور ان کی تربیت کے لئے جدوجہد کی ہے ہم ان میں سے بعض چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
عقل کی فضیلت
اللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے اور امام ؑ نے بعض احادیث میں عقل کے متعلق گفتگو کی ہے جیسے :۱۔امام رضا ؑ کا فرمان ہے :
''ہر انسان کا دوست اس کی عقل ہے اور جہالت اس کی دشمن ہے۔۔
‘(۱)۔یہ حکمت آمیز کلمہ کتنازیباہے کیونکہ عقل ہرانسان کا سب سے بڑادوست ہے جو اس کو محفوظ رکھتی ہے اور دنیوی تکلیفوں سے نجات دلاتی ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ جہالت ہے جو اس کو اس دنیا کی سخت مشکلات میں پھنسادیتی ہے ۔
۲۔امام ؑ کافرمان ہے :''سب سے افضل عقل انسان کا اپنے نفس کی معرفت کرنا ہے۔۔۔
بیشک جب انسان اپنے نفس کے سلسلہ میں یہ معرفت حاصل کرلیتاہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا اوراس کا انجام کیا ہوگا تو وہ عام اچھائیوں پر کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ برائیوں کو انسان سے دور کردیتا ہے اور اس کو نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے خالق عظیم کی معرفت پر دلالت کرتی ہے ۔جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہے :''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘۔''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلی‘‘۔
محاسبۂ نفس
امام ؑ کافرمان ہے :''جس نے اپنے نفس کا حساب کیا اس نے فائدہ اٹھایااور جو اپنے نفس سے غافل رہا اس نے گھاٹا اٹھایا ‘‘(۳)۔
بیشک انسان کا اپنے نفس کا حساب کرنا کہ اس نے کون سے اچھے کام کئے ہیں اور کون سے برے کام انجام دیئے ہیں اور اس کااپنے نفس کو برے کام کرنے سے روکنا، اور اچھے کام کرنے کی طرف رغبت دلانا تو یہ اس کی بلندی نفس ،فائدہ اور اچھائی پر کامیاب ہونے کی دلیل ہے ،اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے غفلت کی تو یہ غفلت انسان کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ہے جس کے لئے قرار وسکون نہیں ہے ۔
کارو بار کی فضیلت
امام ؑ فرماتے ہیں :''اپنے اہل وعیال کے لئے کوئی کام کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مانند ہے ،یہ وہ شرف ہے جسے انسان کسب کرتا ہے اور ایسی کوشش ہے جس پر انسان فخر کرتا ہے ‘‘(۴)۔سب سے اچھے لوگ امام ؑ سے سب سے اچھے اورسب سے نیک لوگوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوآپ ؑ نے فرمایا: ''وہ لوگ جب اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کو بشارت دی جاتی ہے ،جب ان سے برے کام ہوجاتے ہیں تووہ استغفار کرتے ہیں،جب ان کو عطاکیاجاتا ہے تو شکراداکرتے ہیں جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں
عقل کی فضیلت
اللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے اور امام ؑ نے بعض احادیث میں عقل کے متعلق گفتگو کی ہے جیسے :۱۔امام رضا ؑ کا فرمان ہے :
''ہر انسان کا دوست اس کی عقل ہے اور جہالت اس کی دشمن ہے۔۔
‘(۱)۔یہ حکمت آمیز کلمہ کتنازیباہے کیونکہ عقل ہرانسان کا سب سے بڑادوست ہے جو اس کو محفوظ رکھتی ہے اور دنیوی تکلیفوں سے نجات دلاتی ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ جہالت ہے جو اس کو اس دنیا کی سخت مشکلات میں پھنسادیتی ہے ۔
۲۔امام ؑ کافرمان ہے :''سب سے افضل عقل انسان کا اپنے نفس کی معرفت کرنا ہے۔۔۔
بیشک جب انسان اپنے نفس کے سلسلہ میں یہ معرفت حاصل کرلیتاہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا اوراس کا انجام کیا ہوگا تو وہ عام اچھائیوں پر کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ برائیوں کو انسان سے دور کردیتا ہے اور اس کو نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے خالق عظیم کی معرفت پر دلالت کرتی ہے ۔جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہے :''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘۔''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلی‘‘۔
محاسبۂ نفس
امام ؑ کافرمان ہے :''جس نے اپنے نفس کا حساب کیا اس نے فائدہ اٹھایااور جو اپنے نفس سے غافل رہا اس نے گھاٹا اٹھایا ‘‘(۳)۔
بیشک انسان کا اپنے نفس کا حساب کرنا کہ اس نے کون سے اچھے کام کئے ہیں اور کون سے برے کام انجام دیئے ہیں اور اس کااپنے نفس کو برے کام کرنے سے روکنا، اور اچھے کام کرنے کی طرف رغبت دلانا تو یہ اس کی بلندی نفس ،فائدہ اور اچھائی پر کامیاب ہونے کی دلیل ہے ،اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے غفلت کی تو یہ غفلت انسان کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ہے جس کے لئے قرار وسکون نہیں ہے ۔
کارو بار کی فضیلت
امام ؑ فرماتے ہیں :''اپنے اہل وعیال کے لئے کوئی کام کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مانند ہے ،یہ وہ شرف ہے جسے انسان کسب کرتا ہے اور ایسی کوشش ہے جس پر انسان فخر کرتا ہے ‘‘(۴)۔سب سے اچھے لوگ امام ؑ سے سب سے اچھے اورسب سے نیک لوگوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوآپ ؑ نے فرمایا: ''وہ لوگ جب اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کو بشارت دی جاتی ہے ،جب ان سے برے کام ہوجاتے ہیں تووہ استغفار کرتے ہیں،جب ان کو عطاکیاجاتا ہے تو شکراداکرتے ہیں جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں