صرف علی
محفلین
امام علی علیہ السلام قرآنی آیات کی روشنی میں
(ا)۔ عَنْ اُمِّ سلمہ قَالَتْ: نَزَلَتْ ھٰذِہِ الآیَةُ فِی بَیْتِیْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“، وَفِی الْبَیْتِ سَبْعۃ، جبرئیل و میکائیل و علیٌ فاطمۃ والحسن والحسین وأَنَا عَلٰی بٰابِ الْبَیْتِ قُلْتُ: یٰارَسُوْلَ اللّٰہِ، أَ لَسْتُ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ؟ قٰالَ اِنَّکِ عَلٰی خَیْرِ اِنَّکِ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیَ۔
”اُمِ سلمہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہٴ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی اور آیت کے نزول کے وقت گھر میں سات افراد موجود تھے اور وہ جبرئیل، میکائیل، پیغمبر اسلام، حضرت علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام تھے۔ میں گھر کے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں؟“ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے سلمہ! بے شک تو خیر پر ہے لیکن تو ازواج میں شامل ہے“۔
(ب)۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں اُمِ سلمہ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم گھر میں موجود تھے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ریشمی چادر اپنے بابا کے پاس لائیں۔ پیغمبر خدا نے فرمایا:”بیٹی فاطمہ ! اپنے شوہر اور اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ“۔ بی بی فاطمہ نے اُن کو اطلاع دی اور وہ آگئے۔ غذا تناول کرنے کے بعد پیغمبر نے چادر اُن پر ڈال دی اور کہا:
’اَلّٰلھُمَّ ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُبَیْتِیْ وَعِتْرَتِیْ فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیْرا‘
”خداوندا! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔
اس وقت یہ آیت ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“نازل ہوئی۔
میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! کیا میں بھی آپ کے ساتھ اس میں شامل ہوں؟“ آپ نے فرمایا:”سلمہ! تو خیر اور نیکی پر ہے(لیکن تو اس میں شامل نہیں)“۔
(ج)۔ علمائے اہلِ سنت کی کثیر تعداد نے جن میں ترمذی ، حاکم اور بہیقی بھی شامل ہیں، اس روایت کو نقل کیا ہے:
عَنْ اُمِّ سَلْمَہ قٰالَت: فِیْ بَیْتِیْ نَزَلَتْ”اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ وَفِیْ الْبَیْتِ فاطمۃ وَعَلیُ والحسنُ والحُسینُ فَجَلَّلَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلَّم بِکِسٰاءِ کَانَ عَلَیْہِ، ثُمَّ قٰالَ: ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُ بَیْتِی فَاَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھِّرْھُمْ تَطْھِیْرا۔
”اُمِ سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ آیہٴ تطہیر اُن کے گھر میں نازل ہوئی۔ آیت کے نزول کے وقت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام گھر میں موجود تھے۔ اُس وقت رسول اللہ نے اپنی عبا جو اُن کے جسم پر تھی، اُن سب پر ڈال دی اور کہااے میرے اللہ)! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ پس ہر قسم کے رجس کو ان سے دور رکھ اور ان کوایسا پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ56اورصفحہ31۔
2۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، بابِ مناقب ِ اہلِ بیت ، ج9،ص169 وطبع دوم ،ج9،ص119۔
3۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین ، حدیث345،صفحہ301، طبع اوّل۔
4۔ خطیب ِ بغدادی، تاریخ بغداد ج9،ص126، باب شرح حال سعد بن محمد بن الحسن عوفی
5۔ گنجی شافعی، کتاب کفایۃ الطالب، باب62، صفحہ242اور باب 100،صفحہ371۔
6۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ133،146،172 اور جلد2،صفحہ416۔
7۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ج3،ص483،البدایہ والنہایہ ج7،ص339، بابِ فضائلِ علی
8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب 33،صفحہ124اور صفحہ271۔
9۔ فخر رازی تفسیر کبیر میں، جلد25،صفحہ209۔
10۔ زمخشری تفسیر کشاف میں، جلد1،صفحہ369۔
11۔ سیوطی ، تفسیر الدرالمنشور، جلد5،صفحہ215۔
12۔ ابی عمر یوسف بن عبداللہ، استیعاب، ج3،ص1100، روایت شمارہ1855، بابِ علی
13۔ ذہبی، تاریخ اسلام، واقعات61ہجری تا 80ہجری، تفصیل حالاتِ امام حسین ،ص96
14۔ حافظ بن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث98، جلد13،صفحہ67۔
15۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں جلد22،صفحہ6،7۔
دسویں آیت
موٴدتِ اہلِ بیت کا ایک انداز
قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
”(اے میرے رسول) کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہلِ بیت سے محبت کرو“۔(سورئہ شوریٰ:آیت23 )
تشریح
”اس آیت کی شانِ نزول اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب پیغمبر اسلام مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کی بنیاد مضبوط ہوئی تو انصار کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:”یا رسول اللہ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر آپ کوکوئی مالی یا اقتصادی مشکل درپیش ہے تو ہم اپنے اموال و دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔ جب انصار یہ باتیں کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:
”قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“
”میں تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں سے
مودّت کرو“۔
پس رسولِ خدا نے اپنے قریبیوں سے محبت کرنے کی تاکید کی ہے۔
(مجمع البیان، جلد9،ص29)
قربیٰ سے مراد کون کونسے رشتہ دار ہیں؟
قربیٰ کو پہچاننے کا سب سے بہترین اور احسن ترین ذریعہ قرآنی آیات اور روایات ہیں۔ قربیٰ سے محبت تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ اجرِ رسالت بھی ہے ، خدا اور اُس کے رسول کا حکم بھی۔ لہٰذا ان کو پہچاننے میں نہایت دقت اورسوچ سمجھ سے کام لینا ہوگا۔ ہم بغیر کسی مزید بحث کئے ہوئے برادرانِ اہلِ سنت کی کتب سے تین روایات نقل کرتے ہیں، ملاحظہ ہوں:
(ا)۔ احمد بن حنبل کتاب” فضائل الصحابہ“ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ’قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی
قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہ مَنْ قَرابَتُکَ؟مَنْ ھٰوٴلَاءِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّ تُھُم؟ قَالَ صلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَآلہ وَسَلَّم علیٌ فاطمۃُ وَ اَبْنآھُمَا وَقٰالَھٰا ثَلَا ثاً۔
جب یہ آیہٴ شریفہ ”قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“ نازل ہوئی۔ اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آپ کے جن قرابت داروں کی محبت ہم پر واجب ہوئی، وہ کون افراد ہیں؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دونوں فرزند ہیں“۔ آپ نے اسے تین بار تکرار کیا۔
(ب)۔ سیوطی تفسیر”الدرالمنثور“ میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ابن عباس سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:
اَنْ تَحْفَظُوْنِیْ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ وَتُوَدُّوْھُمْ بِیْ
”میرے اہلِ بیت کے بارے میں میرے حق کی حفاظت کریں اور اُن سے میری وجہ سے محبت کریں“۔
(ج)۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ایک بہترین اور خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں۔ فخررازی ، قرطبی اور دوسروں نے بھی اپنی تفسیروں میں اس کے کچھ حصے نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث واضح طور پر مراتب و مقام اور فضیلت ِآلِ محمدکوبیان کرتی ہے۔ ہم بھی اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظر تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّٰی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(i)۔ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَھِیْداً۔
جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا، وہ شہید مرا۔
(ii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوْراً۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ مغفور (جس کے سارے گناہ بخش
دئیے جائیں) مرا۔
(iii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ تائب(جس کی توبہ قبول ہوگئی
ہو)مرا۔
(iv)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُوٴمِناً مُسْتَکْمِلَ الاِ یْمَانِ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا وہ مومن اور مکمل ایمان کے ساتھ مرا۔
(v)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ بَشَّرَہ مَلَکُ الْمَوْتِ بِالجَنَّۃِ ثُمَّ مُنکَرٌوَنَکِیرٌ۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُس کو ملک الموت نے اور پھر منکر و نکیر
نے جنت کی بشارت دی۔
(vi)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ یَزَّفُ اِلی الجَنَّۃِ کَمَا تَزُفُّ العُرُوسُ اِلٰی بَیتِ زَوجِھَا۔
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُسے جنت میں ایسے لے جایا جائے گا
جیسے دلہن اپنے شوہر کے گھر لے جائی جاتی ہے۔
(vii)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فُتِحَ لَہ فِیْ قَبْرِہ بَابَانِ اِلٰی الجَنَّۃِ
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اُس کی قبر میں دودروازے جنت کی
طرف کھول دئیے جاتے ہیں۔
(viii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ جَعَلَ اللّٰہُ قَبْرَہ مَزَارَ مَلا ئِکَۃِ الرَّحْمَۃِ
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مرا اللہ نے اُس کی قبر کو فرشتوں کی زیارت
گاہ بنادیا۔
(ix)۔اَ لَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ عَلَی السُنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ
آگاہ ہوجا ئیے کہ جو کوئی محبت ِآلِ محمد میں مراوہ اہلِ سنت والجماعت کے طریقہ
پرمرا۔
(x)۔ اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ جاءَ یَوْمَ القِیٰامَۃِ مَکْتُوْبٌبَیْنَ عَیْنَیْہِ اَئِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔
آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے
گا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”خدا کی رحمت سے مایوس“ لکھا ہوا ہوگا۔
(xi)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِرًا
آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا، وہ کافر مرا۔
(xii)۔اَ لَاوَمَنْ مَاتَ عَلٰی بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُُمَّ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ۔
آگاہ ہوجائیے کہ جو کوئی دشمنیِ آلِ محمد میں مرا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا۔
آلِ محمد کے بارے میں فخرالدین رازی کے نظریات
بڑی دلچسپ بات ہے کہ فخرالدین رازی جو اہلِ سنت کے بڑے بزرگ عالمِ دین ہیں، نے حدیث ِ بالا جو تفسیر کشاف میں بڑی واضح طور پر اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے، کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ آلِ محمد سے مرادوہ افراد ہیں جن کا پیغمبر خدا سے بڑا گہرا اور مضبوط تعلق ہو اور اس میں شک تک نہیں کہ جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، علی علیہ السلام، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کا تعلق پیغمبر خدا سے سب سے زیادہ تھا اور یہ مسلمہ حقیقت ہے اور روایاتِ متواترہ سے ثابت شدہ ہے۔پس لازم ہے کہ انہی ہستیوں کو آلِ محمد قرار دیاجائے۔
فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب نے عرض کیا:”یا رسول اللہ! وہ آپ کے قریبی رشتہ دار کون سے افراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟“ آپ نے فرمایا:”وہ علی علیہ السلام ، فاطمہ سلام اللہ علیہا،
حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں“۔
اس کے علاوہ اہلِ سنت کی کتابوں میں بہت سی دوسری احادیث اور روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ اُن سب کو یہاں پر بیان کرنا ممکن نہیں اور صرف مزید اطلاع دینے کی غرض سے اشارہ کررہے ہیں کہ اوپر درج کی گئی حدیث جو محبت ِآلِ محمد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی اہم ہے، اہلِ سنت کی کم از کم پچاس معروف کتابوں میں درج کی گئی ہے۔
تصدیقِ فضیلت اہلِ سنت کی کتب سے
1۔ زمخشری تفسیر کشاف میں ، جلد4،صفحہ219۔
2۔ بیضاوی اپنی تفسیر(تفسیر بیضاوی ) میں، جلد2،صفحہ362۔
3۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں، جلد 4،صفحہ112۔
4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب32،صفحہ123اور 444، اس کے
علاوہ اس حدیث کو مکمل طور پر مقدمہٴ کتاب میں بھی نقل کیا ہے۔
5۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِعلی علیہ السلام میں، حدیث352،صفحہ307۔
6۔ حافظ حسکانی، کتاب شواہد التنزیل، جلد2،صفحہ130، طبع اوّل، حدیث822۔
7۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل، کتاب الفضائل میں، حدیث263،صفحہ187،طبع اوّل،
بابِ فضائلِ امیرالمومنین علی ۔
8۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، جلد9،صفحہ168، بابِ فضائلِ اہلِ بیت ۔
9۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد6،صفحہ7،8۔
10۔ فخر رازی اپنی تفسیر(تفسیر کبیر) میں، جلد27،صفحہ166۔
11۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب86۔
12۔ حموینی ، کتاب فرائد السمطین، باب26،جلد2،صفحہ120۔
13۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ حبیب ابن ابی ثابت کے تراجم میں، جلد5،صفحہ367۔
14۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد3،صفحہ172 اور بہت سے علمائے اہلِ سنت۔