محب علوی
مدیر
امام غزالی کی ولادت با سعادت 450 ہجری بمطابق 1058 میں ایران کے شہر طوس کے قصبہ غزال میں ہوئی۔ ایک قول کے مطابق طوس کے قصبہ طاہران میں ہوئی۔
آپ کے والد محمد بن محمد رحمتہ اللہ کا انتقال 465 میں اس وقت ہوئی جب آپ کی عمر پندرہ برس تھی آپ کے چھوٹے بھائی حضرت شیخ احمد غزالی کی عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ والد محترم درویش صفت انسان تھے اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں گزارتے تھے علم دوست انسان تھے اس لئے اپنے انتقال سے قبل اپنے ایک دوست عالم دین شیخ احمد بن محمد زازکانی کے سپرد اپنے دونوں بیٹوں کو کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ جو بھی معمولی اثاثہ میرے پاس ہے میرے بیٹوں کی تعلیم اور پرورش پر خرچ کریں۔
اپنے دوست کی اس وصیت کا شیخ احمد بن محمد زازکانی نے حق ادا کر دیا۔اور علم فقہ کی ابتدائی کتب اپنےزیرسایہ پڑھائیں۔ امام صاحب نے جب ابتدائی تعلیم حاصل کر لی تو حضرت احمد بن محمد زازکانی نے ان کو طوس کے مدرسہ میں داخل کرا دیا مقصد یہ تھا کہ اس مدرسہ میں داخل ہو کر اعلی تعلیم حاصل کریں مگر امام غزالی طوس کے مدرسہ میں داخل ہونے کی بجائے جرجان تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے وقت کے مشہور امام ابو نصر اسماعیلی کی خدمت میں رہ کر علم کا حصول کیا۔ آپ نے تھوڑی ہی مدت میں علوم متداولہ کی تکمیل و تحصیل کر لی اللہ رب العزت نے آپ پر اپنا خصوصی فضل و کرم نازل فرمایااور آپ پر علوم کے خزانے کھول دیئے۔ علوم کے ان تمام خزانوں کو آپ نے اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کردیا۔ کچھ مدت جرجان میں رہنے کے بعد امام غزالی واپس طوس تشریف لے آئے مگر علم کی تشنگی ابھی باقی تھی مزید علم حاصل کرنے کی تڑپ اور لگن دل میں موجزن تھی چنانچہ اپنے مقصد کی تکمیل کی غرض سے نیشاپور چلے گئے۔ نیشاپور ان دنوں علم و فن کا عظیم مرکز تھا۔ بڑے بڑے جید اور قابل ترین اساتذہ کرام نیشاپور میں موجود تھے اور نیشاپور میں مدرسہ نظامیہ میں اپنے وقت کے مشہور عالم دین علامہ ابوالمعالی جوینی کے زیرسایہ داخلہ لے لیا۔ علامہ جوینی کو امام الحرمین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ان جیسابلند پایا اور عظیم المرتبت عالم ان دنوں نیشاپور میں اور کوئی نہ تھا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہ کر امام غزالی نے دیگر علوم کے علاوہ علم مناظرہ, علم الکلام اور علم فلسفہ کی تکمیل کی اور
ان علوم میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ علامہ جوینی کے تین سو شاگردوں میں سبقت لے گئےاور تھوڑی سی مدت میں فارغ التحصیل ہوکر سند حاصل کر لی۔
اس وقت امام کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی کہ آپ نے تمام علوم اسلامیہ یعنی فقہ و حدیث, تفسیر, علم مناظرہ, علم کلام, ادبیات, فارسی و عربی, ولائیت اور علم فلسفہ میں درجہ کمال حاصل کر لیا۔ 478ء میں علامہ جوینی کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی علم شناسی علم دوستی , قابلیت و اہلیت کو دیکھتے ہوئےآپ کو اپنے استاد محترم کی زندگی میں ہی مدرسہ نظامیہ میں نائب مدرس مقرر کر دیا گیا تھا پھر کچھ عرصے کے بعد آپ مدرسہ کے مدرس اعلی کے عہدہ پر فائز ہو گئے۔ امام کی علمی قابلیت کا اعتراف آپ کے استاد محترم امام جوینی بھی کیا کرتے تھے اور آپ کی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے۔ امام غزالی نے اپنی کتاب "منحول" تصنیف فرمائی تو اسے اپنے استاد محترم علامہ جوینی کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ استاد محترم نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا, غزالی تم نے مجھے زندہ درگور کر دیا ہے۔ یعنی یہ کتاب میری تمام شہرت پر حاوی ہو گئی اور میری شہرت دب کر رہ جائے گی۔ استاد محترم کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ امام غزالی آسمان علم و ہدایت کا ایک روشن ستارہ ہیں جس کی روشنی سے تا قیامت انسانیت مستفید ہوتی رہے گی۔
آپ کے والد محمد بن محمد رحمتہ اللہ کا انتقال 465 میں اس وقت ہوئی جب آپ کی عمر پندرہ برس تھی آپ کے چھوٹے بھائی حضرت شیخ احمد غزالی کی عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ والد محترم درویش صفت انسان تھے اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں گزارتے تھے علم دوست انسان تھے اس لئے اپنے انتقال سے قبل اپنے ایک دوست عالم دین شیخ احمد بن محمد زازکانی کے سپرد اپنے دونوں بیٹوں کو کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ جو بھی معمولی اثاثہ میرے پاس ہے میرے بیٹوں کی تعلیم اور پرورش پر خرچ کریں۔
اپنے دوست کی اس وصیت کا شیخ احمد بن محمد زازکانی نے حق ادا کر دیا۔اور علم فقہ کی ابتدائی کتب اپنےزیرسایہ پڑھائیں۔ امام صاحب نے جب ابتدائی تعلیم حاصل کر لی تو حضرت احمد بن محمد زازکانی نے ان کو طوس کے مدرسہ میں داخل کرا دیا مقصد یہ تھا کہ اس مدرسہ میں داخل ہو کر اعلی تعلیم حاصل کریں مگر امام غزالی طوس کے مدرسہ میں داخل ہونے کی بجائے جرجان تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے وقت کے مشہور امام ابو نصر اسماعیلی کی خدمت میں رہ کر علم کا حصول کیا۔ آپ نے تھوڑی ہی مدت میں علوم متداولہ کی تکمیل و تحصیل کر لی اللہ رب العزت نے آپ پر اپنا خصوصی فضل و کرم نازل فرمایااور آپ پر علوم کے خزانے کھول دیئے۔ علوم کے ان تمام خزانوں کو آپ نے اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کردیا۔ کچھ مدت جرجان میں رہنے کے بعد امام غزالی واپس طوس تشریف لے آئے مگر علم کی تشنگی ابھی باقی تھی مزید علم حاصل کرنے کی تڑپ اور لگن دل میں موجزن تھی چنانچہ اپنے مقصد کی تکمیل کی غرض سے نیشاپور چلے گئے۔ نیشاپور ان دنوں علم و فن کا عظیم مرکز تھا۔ بڑے بڑے جید اور قابل ترین اساتذہ کرام نیشاپور میں موجود تھے اور نیشاپور میں مدرسہ نظامیہ میں اپنے وقت کے مشہور عالم دین علامہ ابوالمعالی جوینی کے زیرسایہ داخلہ لے لیا۔ علامہ جوینی کو امام الحرمین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ان جیسابلند پایا اور عظیم المرتبت عالم ان دنوں نیشاپور میں اور کوئی نہ تھا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہ کر امام غزالی نے دیگر علوم کے علاوہ علم مناظرہ, علم الکلام اور علم فلسفہ کی تکمیل کی اور
ان علوم میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ علامہ جوینی کے تین سو شاگردوں میں سبقت لے گئےاور تھوڑی سی مدت میں فارغ التحصیل ہوکر سند حاصل کر لی۔
اس وقت امام کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی کہ آپ نے تمام علوم اسلامیہ یعنی فقہ و حدیث, تفسیر, علم مناظرہ, علم کلام, ادبیات, فارسی و عربی, ولائیت اور علم فلسفہ میں درجہ کمال حاصل کر لیا۔ 478ء میں علامہ جوینی کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی علم شناسی علم دوستی , قابلیت و اہلیت کو دیکھتے ہوئےآپ کو اپنے استاد محترم کی زندگی میں ہی مدرسہ نظامیہ میں نائب مدرس مقرر کر دیا گیا تھا پھر کچھ عرصے کے بعد آپ مدرسہ کے مدرس اعلی کے عہدہ پر فائز ہو گئے۔ امام کی علمی قابلیت کا اعتراف آپ کے استاد محترم امام جوینی بھی کیا کرتے تھے اور آپ کی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے۔ امام غزالی نے اپنی کتاب "منحول" تصنیف فرمائی تو اسے اپنے استاد محترم علامہ جوینی کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ استاد محترم نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا, غزالی تم نے مجھے زندہ درگور کر دیا ہے۔ یعنی یہ کتاب میری تمام شہرت پر حاوی ہو گئی اور میری شہرت دب کر رہ جائے گی۔ استاد محترم کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ امام غزالی آسمان علم و ہدایت کا ایک روشن ستارہ ہیں جس کی روشنی سے تا قیامت انسانیت مستفید ہوتی رہے گی۔