ترجمہ تفسیر کبیر
امام فخرالدین رازیؒ (ولادت ۵۴۴ھ وفات ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کی اہمیت سے اہلِ علم واقف ہیں، موصوف چھٹی صدی ہجری کے عالم ہیں، ان پر معقولات کا غلبہ تھا، تفسیر میں بھی وہی رنگ ہے، ان کی کنیت ابوعبداللہ اور نام محمد ہے، ان کے والد مرحوم ضیاء الدین عمر خطیب سے معروف تھے، وہ بھی بہت بڑے عالم اور صاحبِ تصنیف تھے، تفسیر کبیر میں مسائل کو دلائل کے ساتھ لکھا گیا ہے، آیت پر ہونے والے امکانی سوال قائم کرکے جواب تحریر کیاگیاہے، زبان بھی کافی عمدہ ہے، آٹھ نو سوسال کے بعد بھی مقبولیت میں ایک حرف کی کمی نہیں آئی اور نہ اس کے مماثل کوئی دوسری تفسیر تصنیف کی جاسکی ہے، فقہی مسائل میں شافعی مسلک کی ترجمانی ہوتی ہے۔
راقم الحروف کو اس کے دو نامکمل ترجمے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں نظر آئے:
الف) ایک ترجمہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب، اسرائیلیؒ کا ہے، اس کا نام ’’سراجِ منیر‘‘ ہے۔
ب) دوسراترجمہ مولانا مرزا حیرت کی سرپرستی میں شائع ہوا ہے، مترجم کا علم نہ ہوسکا۔
سراجِ منیر ترجمہ اردو تفسیر کبیر
جناب مولانا خلیل احمد صاحب اسرائیلی ابن جناب سراج احمد صاحبؒ کا یہ ترجمہ اپنے وقت کا فصیح ترجمہ ہے، یہ بات اور ہے کہ ایک صدی کا عرصہ گذرجانے کی وجہ سے اس میں قدامت آگئی ہے، زبان میں فارسیت کا غلبہ ہے، آیات کے ترجمے ہر سطر کے نیچے دیے گئے ہیں، ’’سوال وجواب‘‘ کو جلی خط میں اور قوسین کے درمیان لکھا گیا ہے، نیز ہر مسئلہ میں بحث کی تعداد کی ترقیم بھی کی گئی ہے، صرف پہلی جلد کے دو نسخے نظر نواز ہوسکے، جو ’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خلت لہا مَا کَسَبَتْ الخ‘‘ تک کی تفسیر کو شامل ہیں۔
یہ ترجمہ امرت سر پنجاب کے ’’مطبع شمس الاسلام‘‘ سے شائع ہوا ہے، صفحات کی تعداد پانچ سو بتیس (۵۳۲) ہے، اس ترجمہ کی طباعت اشاعت کے جملہ اخراجات دوشخصوں نے برداشت کیے ہیں، یہ دونوں پنجاب کے کتب خانہ اسلامیہ کے مالک ہیں، ان کے اسمائے گرامی شیخ عبدالرحمن اور ماسٹر جھنڈے خان ہیں، تاریخ طباعت ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ مطابق ۱۹۰۰ء درج ہے، ہر صفحہ کا حاشیہ ’’الم‘‘ کے خوب صورت طُغرے سے آراستہ ہے۔
تفسیرکبیر کا ایک اور ترجمہ
مولانا مرزا حیرت رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی وسرپرستی میں ایک ترجمہ شائع ہوا تھا، وہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں ہے؛ مگر مکمل نہیں ہے،اس کی صرف ایک جلد نظرنواز ہوئی، صفحات کی تعداد تین سو اٹھائیس (۳۲۸) ہے، ’’مطبع کرزن پریس دہلی‘‘ کے ذریعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا تھا، غالباً یہ سب سے قدیم ترجمہ ہے، اس پر ایک صدی سے زائد عرصہ گزرچکا ہے، کاغذ بوسیدہ، کِرم خوردہ ہے، یہ نسخہ ناقابلِ استفادہ ہے؛ ہاں! اگر جدید ٹکنالوجی سے اس کے سارے صفحات الگ الگ کیے جائیں اور پھر اس کی فوٹوکاپی کرائی جائے، تو دوسروں کے لیے استفادہ ممکن ہوسکے گا۔ یہ درمیانی تقطیع پر مطبوع ہے، کتب خانہ دارالعلوم دیوبند میں ’’ترتیبِ کتب اردو تفاسیر‘‘ میں اس کا نمبر ۱۷۹ ہے۔
ماخذ: عربیتفسیروں کے اردو ترجمے ۔۔۔۔۔۔۔ تعارف و تجزیہ