امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر ترجمہ اردو

قیس

محفلین
السلام علیکم
میں تمام دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر کوئی محترم اس کتاب کے بارہ میں جانتے ہوں کہ کہاں سے طبع شدہ حاصل کی جاسکتی ہے تو براہ کرم مطلع فرماویں۔ شکریہ
 

dehelvi

محفلین
میری معلومات کے مطابق تفسیر کبیر کا اردو ترجمہ اب تک ہوا ہی نہیں، طبع شدہ ہونا تو دور کی بات ہے۔
 

ابو ثمامہ

محفلین
قیس صاحب، جتنے بھی دوست احباب سے تفسیر کبیر کے ترجمہ کی بابت دریافت کیا سب نے نفی میں جواب دیا۔
 
میرے خیال میں میں نے پہلے پارے کا کہیں دیکھا ہے مکمل نہیں لیکن اس وقت یاد نہیں آرہا کہ مترجم کون تھا اور اس نے ترجمہ مکمل کیا یا نہیں کیونکہ وہ ترجمہ مجھے پسند نہیں آیا تھا اس لیے خریدا بھی نہیں ۔

آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے البتہ اتنا یادہے کہ پبلشر لاہور کا تھا۔
 

awais sohrawardi

محفلین
تفسیر کبیر کا پہلا اردو ترجمہ سفر صغیر کے نام سے مولوی محمد اسحاق صاحب نے کیا تھا جو اب بایاب ہے
نیا اردو ترجمہ مفتی محمد خان قادری صاحب نے کیا ہے جس کی چار پانچ جلدیں چھپ گئی ہیں اور یہ شادمان مسجد رحمانیہ سے مل جاتا ہے
 

awais sohrawardi

محفلین
یاد آیا میرے پاس پھلے اردو ترجمے کی پہلی جلد موجود ہے، جسے کے مترجم مولانا محمد اسحاق صاحب تھے
 
ترجمہ تفسیر کبیر

امام فخرالدین رازیؒ (ولادت ۵۴۴ھ وفات ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کی اہمیت سے اہلِ علم واقف ہیں، موصوف چھٹی صدی ہجری کے عالم ہیں، ان پر معقولات کا غلبہ تھا، تفسیر میں بھی وہی رنگ ہے، ان کی کنیت ابوعبداللہ اور نام محمد ہے، ان کے والد مرحوم ضیاء الدین عمر خطیب سے معروف تھے، وہ بھی بہت بڑے عالم اور صاحبِ تصنیف تھے، تفسیر کبیر میں مسائل کو دلائل کے ساتھ لکھا گیا ہے، آیت پر ہونے والے امکانی سوال قائم کرکے جواب تحریر کیاگیاہے، زبان بھی کافی عمدہ ہے، آٹھ نو سوسال کے بعد بھی مقبولیت میں ایک حرف کی کمی نہیں آئی اور نہ اس کے مماثل کوئی دوسری تفسیر تصنیف کی جاسکی ہے، فقہی مسائل میں شافعی مسلک کی ترجمانی ہوتی ہے۔

راقم الحروف کو اس کے دو نامکمل ترجمے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں نظر آئے:

الف) ایک ترجمہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب، اسرائیلیؒ کا ہے، اس کا نام ’’سراجِ منیر‘‘ ہے۔
ب) دوسراترجمہ مولانا مرزا حیرت کی سرپرستی میں شائع ہوا ہے، مترجم کا علم نہ ہوسکا۔

سراجِ منیر ترجمہ اردو تفسیر کبیر

جناب مولانا خلیل احمد صاحب اسرائیلی ابن جناب سراج احمد صاحبؒ کا یہ ترجمہ اپنے وقت کا فصیح ترجمہ ہے، یہ بات اور ہے کہ ایک صدی کا عرصہ گذرجانے کی وجہ سے اس میں قدامت آگئی ہے، زبان میں فارسیت کا غلبہ ہے، آیات کے ترجمے ہر سطر کے نیچے دیے گئے ہیں، ’’سوال وجواب‘‘ کو جلی خط میں اور قوسین کے درمیان لکھا گیا ہے، نیز ہر مسئلہ میں بحث کی تعداد کی ترقیم بھی کی گئی ہے، صرف پہلی جلد کے دو نسخے نظر نواز ہوسکے، جو ’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خلت لہا مَا کَسَبَتْ الخ‘‘ تک کی تفسیر کو شامل ہیں۔

یہ ترجمہ امرت سر پنجاب کے ’’مطبع شمس الاسلام‘‘ سے شائع ہوا ہے، صفحات کی تعداد پانچ سو بتیس (۵۳۲) ہے، اس ترجمہ کی طباعت اشاعت کے جملہ اخراجات دوشخصوں نے برداشت کیے ہیں، یہ دونوں پنجاب کے کتب خانہ اسلامیہ کے مالک ہیں، ان کے اسمائے گرامی شیخ عبدالرحمن اور ماسٹر جھنڈے خان ہیں، تاریخ طباعت ذی الحجہ ۱۳۱۷ھ مطابق ۱۹۰۰ء درج ہے، ہر صفحہ کا حاشیہ ’’الم‘‘ کے خوب صورت طُغرے سے آراستہ ہے۔

تفسیرکبیر کا ایک اور ترجمہ

مولانا مرزا حیرت رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی وسرپرستی میں ایک ترجمہ شائع ہوا تھا، وہ بھی دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں ہے؛ مگر مکمل نہیں ہے،اس کی صرف ایک جلد نظرنواز ہوئی، صفحات کی تعداد تین سو اٹھائیس (۳۲۸) ہے، ’’مطبع کرزن پریس دہلی‘‘ کے ذریعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا تھا، غالباً یہ سب سے قدیم ترجمہ ہے، اس پر ایک صدی سے زائد عرصہ گزرچکا ہے، کاغذ بوسیدہ، کِرم خوردہ ہے، یہ نسخہ ناقابلِ استفادہ ہے؛ ہاں! اگر جدید ٹکنالوجی سے اس کے سارے صفحات الگ الگ کیے جائیں اور پھر اس کی فوٹوکاپی کرائی جائے، تو دوسروں کے لیے استفادہ ممکن ہوسکے گا۔ یہ درمیانی تقطیع پر مطبوع ہے، کتب خانہ دارالعلوم دیوبند میں ’’ترتیبِ کتب اردو تفاسیر‘‘ میں اس کا نمبر ۱۷۹ ہے۔

ماخذ: عربیتفسیروں کے اردو ترجمے ۔۔۔۔۔۔۔ تعارف و تجزیہ
 

رضا حسن

محفلین
اس تفسیر کا ترجمہ سائم چشتی نے کیا ہے اور چشتی پریس فیصل آباد نے پرنٹ کیا ہے

جزاک اللہ خیرا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کوئی رابطہ وغیرہ مل جائے تو مہربانی۔
اور کیا یہ ترجمہ مکمل ہے؟
 

Islamic Student

محفلین
امام فخرالدین رازی فضل وکمال کے اس مقام پر پہنچے کہ ان کے معاصرین میں کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ امام فخرالدین رازی فقہ ،علوم لغت ،منطق اور مذاہب کلامیہ کے جاننے میں اپنی زمانے کے افضل ترین علماء میں سے تھے۔ امام فخرالدین رازی کے علم وفضل کا شہرہ دور دراز تک پہنچا ان کا چرچا سن کر ہر شہر اور ملک کے طلباء ان کے پاس حاضر ہو کر علمی فیض حاصل کرتے اور ان کے علوم ومعارف سے استفادہ کرنے لگے امام فخرالدین رازی کی ان کتب کو عظیم عزت و شہرت عطا کی گئی کیونکہ لوگوں نے متقدمین کی کتابوں کو چھوڑ دیا اور ان کی کتابوں میں جو نظم ہے وہ ان کا ہی شروع کیا ہوا ہے اس سے پہلے کہیں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی ساری زندگی درس وتدریس میں گزار دی اور مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب امام صاحب سواری پر سوار ہوتے تو ان کے ساتھ تین سو طلباء پیادہ پا علم حاصل کرنے کے لیے چلتے تھے کوئی تفسیراور فقہ پڑھنے کے لیے کو ئی کلام اور طب کے لیے اورکوئی اصول اور حکمت وغیرہ کے لیے گویا کہ امام فخرالدین رازی نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین محمدیؐ کے لیے وقف کر رکھا تھا اللہ تعالیٰ کی دی ہو ئی زندگی کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہو ئے احکام کے مطابق گزارنے کے بعدیکم شوال (بروز عید الفطر ) بروز پیر ٦٠٦؁ھ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔

صدیوں سے چھپے ہوئے امام فخرالدین رازی کےذخائر کو روئے زمین پر رہنے والے افراد کے لیے کار آمد بنانے کے لیے سب سے پہلا قدم محقق العصر مفتی محمد خان قادری نے اُٹھایا ان ذخائر میں سے بہت ہی عمدہ نفع بخش اور عظیم نظم و ترتیب کی حامل کتاب'' مفاتیح الغیب ''جوکہ ''تفسیر کبیر ''کے نام سے مشہور ہے ۔
واپس اوپر
 
Top