عبدالقیوم چوہدری
محفلین
ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھو رہی ہوتیں-
لکس ، کیپری کس نے دیکھے تھے..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- سو آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرح چبھتا...اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں...اور بپھری ہوئے شیرنی کی طرع حملہ آور ہوتیں...لیکن مارا کبھی نہیں....عین وقت پر دادی جان جولیس سیزر بن کر بیچ میں آجاتیں...پھر دونوں کے بیچ گھمسان کی جنگ لگتی اور ہم نجانے کیوں منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے رہتے -
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا -ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹور ہوتا...اور اس ٹور سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی .....
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں....ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے...ان کا دوپٹا کھینچتے.....پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ روتے-
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے.....شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں...." جب تو بڑا ہوگا...نوکری کرے گا...بہت سے پیسے آئیں گے...تیری شادی ہوگی...وغیرہ وغیرہ...یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے...
ایک بار جب ماں کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور میں خاموشی سے دوبارہ گاؤں پلٹ گیا.....
شام کا وقت تھا....ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں دیتی پھری - اور جاھلری کے اندھے کنویں میں بھی لالٹین لے کر جھانکا.....
رات گئے جب ہم ایک شادی والے گھر سے بازیاب ہوئے تو وہ شیرنی کی طرع ہم پر حملہ آور ہوئیں....اس بار گاؤں کی عورتوں نے جولیس سیزر کا کردار ادا کیا-
جب مجھے پہلا عشق ہوا تو ماں نے میری صورت دیکھتے ہی دکھ کا سارا فسانہ پڑھ لیا- مجھے گلے سے لگا کر بس اتنا کہا " کردوں گی تیری شادی....تھوڑا بڑا ہو جا"
اس دن میں منہ پھاڑ کر تو نہیں رویا...بس آنسوؤں کی جھڑی گالوں پر بہہ نکلی...جسے ماں نے دوپٹے سے صاف کر کے لڑکی کا نام پتا پوچھ لیا-
ماں آخری سانسوں تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہی..
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب چھٹی آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ہنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے بوڑھی ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا...اور ماں نے حسب وعدہ زمانے بھر سے ٹکر لیکر مجھے میرے عشق سے بیاہ دیا....
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں....میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائی...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
ماں بیمار ہوئی تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئی دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے...جلد افاقہ ہو جائے گا....پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئی تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا....ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں نے مقدور بھر ماں کی خدمت کی اور بستر مرگ پر بار بار اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کرتا رہا....
ماں نے میرے سامنے دم توڑا....لیکن میں رویا نہیں...دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا...تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئی...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
آج بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے زائرین کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں.......اس بار منہ پھاڑ کر نہیں....دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ.....اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!!!
رب الرحم ھما کما ربیانی صغیرا
۔۔۔
از ظفر اعوان
لکس ، کیپری کس نے دیکھے تھے..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- سو آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرح چبھتا...اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں...اور بپھری ہوئے شیرنی کی طرع حملہ آور ہوتیں...لیکن مارا کبھی نہیں....عین وقت پر دادی جان جولیس سیزر بن کر بیچ میں آجاتیں...پھر دونوں کے بیچ گھمسان کی جنگ لگتی اور ہم نجانے کیوں منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے رہتے -
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا -ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹور ہوتا...اور اس ٹور سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی .....
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں....ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے...ان کا دوپٹا کھینچتے.....پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ روتے-
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے.....شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں...." جب تو بڑا ہوگا...نوکری کرے گا...بہت سے پیسے آئیں گے...تیری شادی ہوگی...وغیرہ وغیرہ...یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے...
ایک بار جب ماں کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور میں خاموشی سے دوبارہ گاؤں پلٹ گیا.....
شام کا وقت تھا....ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں دیتی پھری - اور جاھلری کے اندھے کنویں میں بھی لالٹین لے کر جھانکا.....
رات گئے جب ہم ایک شادی والے گھر سے بازیاب ہوئے تو وہ شیرنی کی طرع ہم پر حملہ آور ہوئیں....اس بار گاؤں کی عورتوں نے جولیس سیزر کا کردار ادا کیا-
جب مجھے پہلا عشق ہوا تو ماں نے میری صورت دیکھتے ہی دکھ کا سارا فسانہ پڑھ لیا- مجھے گلے سے لگا کر بس اتنا کہا " کردوں گی تیری شادی....تھوڑا بڑا ہو جا"
اس دن میں منہ پھاڑ کر تو نہیں رویا...بس آنسوؤں کی جھڑی گالوں پر بہہ نکلی...جسے ماں نے دوپٹے سے صاف کر کے لڑکی کا نام پتا پوچھ لیا-
ماں آخری سانسوں تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہی..
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب چھٹی آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ہنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے بوڑھی ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا...اور ماں نے حسب وعدہ زمانے بھر سے ٹکر لیکر مجھے میرے عشق سے بیاہ دیا....
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں....میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائی...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
ماں بیمار ہوئی تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئی دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے...جلد افاقہ ہو جائے گا....پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئی تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا....ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں نے مقدور بھر ماں کی خدمت کی اور بستر مرگ پر بار بار اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کرتا رہا....
ماں نے میرے سامنے دم توڑا....لیکن میں رویا نہیں...دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا...تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئی...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
آج بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے زائرین کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں.......اس بار منہ پھاڑ کر نہیں....دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ.....اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!!!
رب الرحم ھما کما ربیانی صغیرا
۔۔۔
از ظفر اعوان
آخری تدوین: