باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے ۔۔۔
لیکن اس کی حالت یہ ہے
[arabic]يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً[/arabic]
(وہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا اللہ سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے [بھی] بڑھ کر)
اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ
[arabic]كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ[/arabic]
(یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دئے گئے ہوں)
حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتے ہیں اُن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ
[arabic]إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لاَّ يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوب
مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز[/arabic]
(جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ کمزور۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت و عزت والا تو اللہ ہی ہے۔)
امتِ مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقامِ عظمت اور منصبِ امامت اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ توحید پر دل و جان سے ڈٹ جائے اور اُن کی زندگیوں میں توحید کے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں۔ صرف زبانی کلامی دعوؤں سے مسلمانوں کی موجودہ پستی کا علاج ممکن نہیں :
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں ۔۔۔
مصالحت ، تذبذب ، اور شک و شبہ نہ ہو بلکہ
[arabic]أَصْحَابُ الأُخْدُود
أَصْحَابَ الْكَهْفِ[/arabic]
اور
[arabic]أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإِيمَانَ[/arabic]
(صحابہ کرام [رضی اللہ عنہم] جیسا ایمان ہو)
ساری محبت و اطاعت اللہ ہی کے لیے ہو
بلکہ اس ساری گفتگو کو ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ
ساری امت مسلمہ اللہ ہی کی ہو کر رہے !!
[arabic]إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلاَئِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُون[/arabic]
(لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو ، نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔)
اللہ ہی سے تعلق مضبوط کیا جائے ، اُسی سے محبت کی جائے ، اُسی سے ہر حال میں رجوع کیا جائے ، اسی کی اطاعت و بندگی کی جائے تو سارے دلدر دور ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔
[arabic]أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ[/arabic]
(کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟)
[arabic]نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيد[/arabic]
(وہ ذات شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے)
[arabic]َإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ[/arabic]
(پکار سنتا ہے اور قبول کرتا ہے)
۔۔۔۔
تو پھر اصل سہارے کو چھوڑ کر نقلی سہارے تلاش کرنا یقیناً عقل کا فتور نہیں تو اور کیا ہے ؟
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
***
اقتباس بشکریہ : توحید اور اس کے عملی تقاضے / فاروق حمید