تمھی تو ہو رحمتِ دو عالم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
ہیں تم پہ سو جان سے فدا ہم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
خدا کی رحمت کا ابر برسا ، سکوں دلِ مضطرب کو آیا
درود تم پر پڑھا ہے جس دم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
چراغ توحید کا جلایا ہے تم نے ایسا کہ تا قیامت
نہ روشنی جس کی ہوگی مدھم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
ہے دل میں ماں باپ کی بھی الفت ، ہے دل میں اولاد کی بھی الفت
تمھاری الفت سے پر ہے کم کم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
مزہ حقیقت میں زندگی سے وہ آدمی ہی اٹھا رہا ہے
کہ جس کے دل میں تمھارا ہے غم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
سبق پڑھایا ہے یہ تمھی نے کہ رب سے مانگو ڈرو اسی سے
اسی کے آگے ہی سر کرو خم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
نہ اس نے پایا زماں تمھارا ، نہ اس نے دیکھا تمھارا روضہ
ہے آنکھ امجد کی اس لیے نم ، درود تم پر ، سلام تم پر!
شاعر: امجد اکبر