منشی صاحب: ہاں جناب آغا صاحب! اب آپ کچھ عنایت فرمائیے۔
آغا صاحب: بہت خوب! مطلع اول ملا خطہ ہو۔
کہیں سامان ایسے ہوں تو کچھ دل کو مرے کَل ہو
مٹَر اُبلے ہوئے ہوں اور اک ٹھرّے کی بوتل ہو
احباب: آغا صاحب، کیا مقطع فرمایا ہے!
آغا صاحب: اے صفت! ابھی آپ نے سنا ہی کیا ہے، دوسرا مطلع سنیے:
وہ مضموں ڈھونڈ کر باندھوں کہ جو اَشکل سے اَشکل ہو
کہوں وہ مطلعِ ثانی کہ جو اوّل سے اوّل ہو
احباب: بے شک، اوّل سے اوّل ہے۔
آغا صاحب: لیں اب شعر ملاخطہ ہوں: (اس شعر کا رخ نواب صاحب کی طرف تھا، جو جالی کا کرتا، ہلکا بادامی رنگا اور باریک ململ کا انگر کھا پہنے، بند کھولے ہوئے بیٹھے تھے اور ایک نہایت نفیس پنکھیا ہاتھ میں تھی، اسے جھلتے جاتے تھے)۔
اگر جاڑے میں تُو مل جائے تو کیا غم ہے جاڑے کا
تری زلفیں ہوں شانے پر، دو شالہ ہو نہ کمبل ہو
احباب: تعریف
آغا صاحب:
کہو بے چارگی میں بھی طبیعت خوش رکھے مجنوں
کہ چَر لے ناقۂ لیلیٰ ہری جب دل کی کونپل ہو
پنڈت جی: سبحان اللہ! اور تو اور یہ بے چارگی سے کیا چارہ نکلا ہے۔
احباب: واللہ سمجھے بھی خوب! سمجھ ہو تو ایسی ہو، نہیں تو نہ ہو۔
آغا صاحب: نہ ہو! اچھا اب یہ شعر سنیے:
کہو عشّاق سے اپنے کہ ضبطِ گریہ فرمائیں
رُکے گا راستہ گھر کا، اگر کوچے میں دلدل ہو
شیخ صاحب: اچھی کہی!
رسوا: (خان صاحب سے) آپ کیوں سکوت میں، کوئی اعتراض نکالیے؟
آغا صاحب: ہاں جناب! سکوت قدر شناس ٹھیک نہیں ہے
خان صاحب: آپ میری تعریف کو تحسینِ نا شناس نہ سمجھیے؟ اس لیے چپ ہوں۔
آغا صاحب: نہیں حضرت، میری ایسی الٹی سمجھ نہیں ہے۔ احباب اس فقرے پر لوٹ گئے۔
آغا صاحب: ملا خطہ ہو
ہمیں رشک آئے اپنے سے، ہمیں سے غیر پیدا ہو
ہم ایسے دو نظر آئیں اگر معشوق احوَل ہو
احباب: آغا صاحب! سبحان اللہ! کیا نازک خیالی ہے۔
آغا صاحب:
ابھی کم سن ہیں، ان کو شوق ہے لنگڑ لڑانے کا
تکلّا ڈور کا ہو اک نہ کنکیا ہو نہ تکّل ہو
اس شعر کا رخ بھی نواب صاحب کی جانب تھا، اس لیے کہ آپ ہی کی سرکار عالی جاہ سے کنکوے کی برات بڑی دھوم سے نکلی تھی۔
آغا صاحب:
کوئی ان سے کہے جو شعر معنی بند کہتے ہیں
کھلے کیا رازِ سر بستہ جو دروازہ مقفَّل ہو
رسوا: آغا صاحب! کیا کہنا! امراؤ جان! ذرا سننا، کیا شعر کہا ہے
امراؤ جان : سبحان اللہ! میں پہلے ہی سمجھ گئی۔ جو چاہیں کہیں، مالک ہیں۔
آغا صاحب: تو صاحب کیوں نہیں کہتیں کہ دوزخ کا دربان ہوں اچھا سنیے:
کسی صورت سے بہلائیں گے اُس معشوقِ کم سن کو
دبل پیسہ نہ ہو، ریوڑی نہ ہو تو گول گپّل ہو
احباب: کیا کہنا!
آغا صاحب:
کبھی گالی سنا بیٹھے، کبھی جوتے لگا بیٹھے
حکومت کا مزا آئے اگر معشوق ازدل ہو
خان صاحب: درت، مگر آپ کی شرافت سے بعید ہے۔
آغا صاحب: جناب شریف کون ہے اس زمانے میں۔
خدا کے فضل سے اترا تھا کیا ہی عرش سے جوڑا
نہ مجھ سا کوئی گرگا ہو نہ تم سی کوئی شفتل ہو
نواب صاحب: خوب! مگر روئے سخن کس کی طرف ہے؟
آغا صاحب: یہ تو آپ ہی خوب سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ آپ محرم ِ راز ہیں۔ السوء عند کرام الناس مکتوم۔
خان صاحب: آپ جواب دیجیے۔
آغا صاحب: آپ کیا جواب دیں گے۔ یہ شعر سنیے:
ہم اُس نازک ادا کی شوخیوں پر جان دیتے ہیں
شتر کے جس میں غمزے ہوں، فرس کی جس میں چھلبل ہو
احباب: واہ ری ہمت!
آغا صاحب: اچھا نہ سہی، یہ سنیے :
میں دل کو چیر ڈالوں گا جو تم پہلو سے اُٹھ جاؤ
میں آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا جو تم آنکھوں سے اوجھل ہو
احباب: خوب!
آغا صاحب:
تمہاری سادگی میں کچھ عجب عالم نکلتا ہے
نہ چوٹی ہو، نہ کنگھی ہو، نہ مسّی ہو، نہ کاجل ہو
امراؤ جان: اوئی! تو کیا دن رات سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھا رہے؟
آغا صاحب: سادگی کا یہی مزا ہے، اور دوسرے خرچ کی بھی کفایت ہے۔ (اس مذاق میں لطف یہ ہے کہ امراؤ جان کس قدر حسین مشہور تھیں)
ٹکا ہم سے وہ جب مانگیں، انہیں چپکے سے ہم دے دیں
نہ بک بک ہو، نہ جھک جھک ہو، نہ کچ کچ ہو، نہ کل کل ہو
احباب: کیا مصروع کہا ہے!
خان صاحب: اوپر کا مصرع بھی خوب لگایا۔ وہی ازدل کی رعایت چلی جاتی ہے۔ (امراؤ جان ہنستے ہنستے لوٹی جاتی تھیں)
آغا صاحب: اچھا تو اب ایسے شعر نہ پڑھیں گے۔ ہمارا معشوق ذلیل ہوا جاتا ہے۔ نازک خیالی سنیے۔
تری نازک کمر کے باب میں پہلک بنا دیں گے
وہ کیا سمجھے یہ باریکی طبیعت جس کی گٹھّل ہو
خان صاحب: میں تسلیم کیے لیتا ہوں۔ میری طبیعت ایسی ہی ہے جیسا آپ ارشاد فرماتے ہیں، مگر برائے خدا اس پہلک کے معنی سمجھا دیجیے۔
آغا صاحب: خیر خاطر ہے، سن لیجیے۔ محاسب لوگ خانہ پری کے لیے بجائے ندارد (×) نشان بنا دیا کرتے ہیں، اس لیے اس سے یہ مطلب نکلا کہ کمر معدوم ہے۔ دوسرے ایک خط نے بیچوں بیچ سے دوسرے کو کاٹ دیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ معشوق کی کمر گئی ہوتی اور پھر جڑی ہوئی بھی ہے۔
خان صاحب: یہ کیوں کر؟
آغا صاحب: اب اس باریکی کو نہ پوچھیے۔ خیر حضرات واضح ہو کہ پہلک علم ریاضی میں علامت جمع کی ہے۔ لطف یہ ہے کہ علامت کی کوئی مقدار نہیں ہوتی۔ مطلب یہ نکلا کہ کمر باوجود معدوم ہونے کے جسم کے دونوں حصوں کو جوڑے ہوئے ہے۔
احباب: حضرت! بس نازک خیالی کی حد ہوگئی! جو کوئی اتنا علم جانتا ہو وہ آپ کے شعر سمجھے۔
آغا صاحب: اسی سے تو میں ایسے ویسوں کے سامنے پڑھتا نہیں ہوں۔
افسوس! اُستاد مرحوم زندہ نہ ہوئے، نہیں تو ان شعروں کی کچھ داد ملتی۔ اب سمجھنے والوں میں کون رہ گیا ہے۔ خیر آپ یہ مقطع سن لیجیے۔ طبیعت کو کوفت ہو گئی، کوئی قدر دان نہیں ہے۔
بس اے قزّاق بس! طبعِ قیامت خیز کو روکو
غضب ہوجائے گا فوجِ مضامیں میں جو ہلچل ہو
احباب : مقطع پھر عنایت ہو۔ (آغا صاحب نے دوبارہ پڑھا)
نواب صاحب: کیا زبر دست تخلص رکھا ہے۔ قزّاقؔ
آغا صاحب: معاف فرمائیے گا، ہے تو کچھ ایسا ہی‘ مگر کچھ ایسا نازیبا نہیں ہے۔ ایک تو خاندانی اعتبار سے، اس فدوی کے آباؤ اجداد دشتِ قیچاق میں لوٹ مار کیا کرتے تھے۔ دوسرے اس سبب سے کہ اُستاد مرحوم سارقؔ تخلص فرماتے تھے، اور یہ کچھ ایسا نامناسب بھی نہ تھا، اس لیے کہ (ان کی روح نہ شرمندہ ہو) عمر بھر اگلے شاعروں کے مضمون چرا چرا کر شعر موزوں فرمایا کیے۔ سارا دیوان ملا خطہ کر لیجیے، شاید ہی کوئی شعر نیا ہو۔ جب اشب ِ خامہ کی لگام میرے دستِ اقتدار میں آئی تو میں نے سرقے کو اپنی شان کے منافی سمجھ کر قزّاقؔ تخلص رکھ لیا۔ کچھ نہ سہی اس میں ایک طرح کا بانکپن تو ہے۔ بندے کا یہ دستور رہا ہے اور رہے گا کہ شعرائے ماضی و حال و استقبال کے مضامین زبردستی چھین کر اپنے قبضۂ تصرف میں کروں گا۔
نواب صاحب: بہت مبارک!
مشاعرہ ختم ہونے کے بعد فالسے کی برف جمائی گئی، اس کی دو دو قلفیاں احباب نے نوش کیں۔ سب اپنے اپنے مکان تشریف لے گئے۔ اس کے بعد دستر خوان بچھا۔ منشی صاحب نے اور میں نے اور امراؤ جان نے کھانا کھایا۔