محب علوی
مدیر
امراؤ جان ادا (مرزا رسوا ہادی)
امراؤ جان ادا گفتگو دھاگہ
ریختہ صفحہ 16
ایک دن حسب معمول احباب کا جلسہ تھا، کوئی غزل پڑھ رہا تھا۔ احباب داد دے رہے تھے۔ اتنے میں میں نے ایک شعر پڑھا، اُس کھڑکی کی طرف سے واہ کی آواز آئی میں چپ ہو گیا اور احباب بھی اُسی طرف متوجہ ہو گئے۔ منشی احمد حسین نے پکار کے کہا: "غائبانہ تعریف ٹھیک نہیں، اگر شوقِ شعر و سخن ہے تو جلسہ میں تشریف لائیے۔" اس کا کوئی جواب نہ ملا۔ میں پھر غزل پڑھنے لگا۔ بات رفت گزشت ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک مَہری آئی۔ اس نے سب کو سلام کیا پھر یہ کہا، "مرزا رسواؔ کون صاحب ہیں۔" احباب نے مجھے بتا دیا۔
مَہری نے کہا۔ بیوی نے ذرا آپ کو بلایا ہے۔
میں نے کہا، کون بیوی؟
مَہری نے کہا، بیوی نے کہہ دیا ہے، نام نہ بتانا، آگے آپ کا جو حکم ہو۔
مجھے مہری کے ساتھ جانے میں تامل ہوا۔ احباب مجھ سے مذاق کرنے لگے۔
ہاں صاحب کیوں نہیں، کبھی کی صاحب سلامت ہے جب تو اس طرح بلا بھیجا۔
میں دل میں غور کر رہا تھا کہ کون صاحب ایسے بے تکلف ہیں، اتنے میں اُدھر مہری نے کہا کہ حضور بیوی آپ کو اچھی طرح جانتی ہیں جب تو بلا بھیجا ہے۔ آخر جانا ہی پڑا۔ جا کے جو دیکھا معلوم کوا۔ آہ ہا! امراو جان صاحب تشریف رکھتی ہیں۔
امراؤ جان:- (دیکھتے ہی) اللّٰہ مرزا صاحب آپ تو ہمیں بھول ہی گئے۔
میں:- یہ معلوم کسے تھا کہ آپ کس کوہِ قاف میں تشریف رکھتی ہیں۔
امراو جان:- یوں تو میں اکثر آپ کی آواز سنا کرتی تھی مگر کبھی بلانے کی جرأت نہ ہوئی۔ مگر آج آپ کی غزل نے بے چین کر دیا۔ بے ساختہ منہ سے واہ نکل گیا، اُدھر کسی صاحب نے کہا یہاں آئیے۔ میں اپنی جگہ پر آپ ہی شرمندہ ہوئی۔ جی میں آیا چپ ہو رہوں مگر دل نہ
صفحہ 17
مانا۔ آخر اگلی خصوصیتوں کے لحاظ سے آپ کو تکلیف دی۔ معاف کیجیے گا۔ ہاں وہ شعر ذرا پھر پڑھ دیجیے۔
میں:- معاف تو کچھ بھی نہ ہوگا اور نہ میں شعر سناؤں گا۔ اگر آپ کو شوق ہے تو وہیں تشریف لے چلیے۔
امراوجان:- مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں مگر خیال ہے کہ صاحبِ خانہ یا اور کسی صاحب کو میرا جانا ناگوار نہ ہو۔
میں:- آپ کے حواس درست ہیں؟ بھلا ایسی جگہ میں آپ کو چلنے کے لیے کیوں کہتا۔ بے تکلف صحبت ہے، آپ کے جانے سے اور لطف ہوگا۔
امراوجان:- یہ تو سچ ہے مگر کہیں زیادہ بے تکلفی نہ ہو۔
میں:- جی نہیں، وہاں میرے سوا کوئی آپ سے بے تکلف نہیں ہوسکتا۔
امراوجان:- اچھا تو کل آؤں گی۔
میں:- ابھی کیوں نہیں چلتیں؟
امراؤ: اے ہے! دیکھیے تو کِس حیثیت سے بیٹھی ہوں۔
میں:- وہاں کوئی مجرا تو نہیں ہے، بے تکلف صحبت ہے، چلی چلیے۔
امراؤ:- اوئی مرزا! آپ کی تو باتیں لاجواب ہوتی ہیں، اچھا چلیے میں آتی ہوں۔
میں اُٹھ کے چلا آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد امراوجان صاحبہ ذرا کنگھی چوٹی کرکے کپڑے بدل کے آئیں۔
میں نے احباب سے چند الفاظ میں ان کے مذاقِ شعر وسخن اور کمالِ موسیقی وغیرہ کی تعریف کردی تھی۔ لوگ مشتاق ہوگئے تھے۔ جب وہ تشریف لائیں تو یہ ٹھہری کہ سب صاحب اپنا اپنا کلام پڑھیں اور وہ بھی پڑھیں۔ خلاصہ یہ کہ بڑے لطف کا جلسہ ہوا۔ اُس دن سے امراوجان اکثر شام کو چلی آتی تھیں۔ گھنٹہ دو گھنٹہ نشست رہتی تھی
صفحہ 18
کبھی شعر شاعری کا جلسہ ہوا، کبھی انھوں نے کچھ گایا۔ احباب محظوظ ہوئے، ایسے ہہ جلسے کی کیفیت ہم یہاں لکھے دیتے ہیں۔ ان مشاعروں میں نہ کوئی طرح مقرر کی جاتی تھی اور نہ بہت سے لوگوں سے وعدے لیے جاتے تھے صرف بے تکلف احباب جمع ہوجاتے تھے اور اپنی اپنی تازہ تصنیف غزلیں پڑھتے تھے۔
مشاعرہ
کِس کو سنائیں حالِ دلِ زار اے اداؔ
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
مرزا رسوا:- کیا کہنا بی امراوجان صاحبہ۔ یہ مقطع تو آپ نے حسب حال کہا ہے اور شعر کیوں نہ ہوں۔
امراؤ جان:- تسلیم مرزا صاحب! آپ کے سر کی قسم بس وہ مطلع تھا اور یہ مطلع خدا جانے کس زمانے کی غزل کا ہے، زبانی کہاں تک یاد رہے بیاض نگوڑی گم ہو گئی۔
منشی صاحب:- اور وہ مطلع کیا تھا، ہم نے نہیں سنا۔
رسوا :- آپ تو اہتمام میں مصروف ہیں سنے کون؟
اس میں شک نہیں کہ منشی صاحب نے آج کے جلسے کے لیے بڑے سلیقے سے انتظام کیا تھا، گرمیوں کے دن تھے، مہتابی پر دو گھڑی دن رہے چھڑکاو ہوا تھا تاکہ شام تک زمین سرد رہے، اسی پر دری بچھا کے اجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا تھا۔ کوری کوری صراحیاں پانی بھر کے کیوڑا ڈال کے منڈیر پر چنوا دی گئی تھیں۔ ان پر بالو کے آبخورے ڈھکے ہوئے تھے۔ برف کا انتظام علیٰحدہ کیا گیا تھا۔ کاغذی ہنڈیوں میں سفید پانوں کی سات سات گلوریاں سرخ صافی میں لپیٹ کر کیوڑے میں بسا کر رکھ دی گئی تھیں۔ ڈھکنیوں پر
صفحہ 19
تھوڑا تھوڑا کھانے کا خوشبو دار تمباکو رکھ دیاتھا، ڈیڑھ خمے حقّوں کے نیچوں میں پانی چھڑک چھڑک کر ہار لپیٹ دیے تھے، چاندنی رات تھی اس سے روشنی کا انتظام زیادہ نہیں کرنا پڑا صرف ایک سفید کنوں دورے کے لیے روشن کر دیا گیا تھا۔ آٹھ بجتے بجتے سب احباب ہیرصاحب، آغا صاحب، خاں صاحب، شیخ صاحب، پنڈت صاحب وغیره
وغیرہ تشریف لائے۔ پہلے شیر فالودہ کے ایک ایک پیالے کا دور چلا پھر شعر و سخن کا چرچا ہونے لگا۔
منشی صاحب:- تو پھر اہتمام آپ کیجیے بندہ شعر سنے گا۔
رسوا:- معاف فرمائیے، یہ درد سر مجھ سے نہ ہو گا۔
منشی صاحب:- اچھا وہ مطلع کیا تھا؟
امراؤ:- میں عرض کیے دیتی ہوں۔
کعبے میں جا کے بھول گیا راہ دیر کی
ایمان بچ گیا مرے مولا نے خیر کی
منشی صاحب:- خوب کہا۔
خاں صاحب:- اچھا مطلع کہا ہے مگر یہ "بھول گیا" کیوں؟
امراو جان:- تو کیا خاں صاحب میں ریختی کہتی ہوں؟
خاں صاحب:- مزا تو ریختی کا ہے "مرے مولا نے خیر کی" آپ ہی کی زبان سے اچھا معلوم ہوتا ہے۔
رسوا:- بس آپ کے حملے شروع ہوگئے ۔ لے شعر سننے دیجئے۔ خاں صاحب اگر سب آپ ہی کے سے محقق ہوجائے تو شعر گوئی کا مزا تشریف لے جائے۔
ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است
خاں صاحب:- ( کسی قدر برے تیوروں سے ) درست۔
رسوا:- امراؤ جان! اچھا تو کوئی اور غزل پڑھو۔
صفحہ 20
امراؤ :- دیکھیے کچھ یاد آئے تو عرض کروں( تھوڑی دیر کے بعد)
شبِ فرقت بسر نہیں ہوتی
حضار جلسہ:- واہ واہ سبحان اللہ کیا کہنا۔
امراوجان:- (تسلیمیں کرکے)یہ شعر ملاحظہ ہو
شورِفریاد فلک پہونچا
مگراس کی خبرنہیں ہوتی
رسوا:- یہ کیا شعر کہا ہے۔(حضارنےبھی تعریف کی)
امراؤ:- آپ کی عنایت۔تسلیم تسلیم۔
تیرے کوچے کے بے نواؤں کو
ہوسِ مال و زر نہیں ہوتی
حباب:- تعریف۔
امراو:- تسلیم۔
جان دینا کسی پہ لازم تھا
زندگی یوں بشر نہیں ہوتی
رسوا:- واہ! خان صاحب یہ شعر ملاحظہ ہو
خان صاحب:- واہ سبحان اللہ! حقیقت میں کیا شعر ہے۔
امراو:- تسلیم!آپ سب صاحب قدر افزائی فرماتے ہیں۔ ورنہ میں میری حقیقت کیا ۔
ہے یقین وہ نہ آئیں گےپھر بھی
کب نگہ سوےڈر نہیں ہوتی
خان صاحب:- یہ بھی خوب کہا۔
پنڈت صاحب:- کیا طرز کلام ہے۔
امراؤ جان ادا گفتگو دھاگہ
ریختہ صفحہ 16
ایک دن حسب معمول احباب کا جلسہ تھا، کوئی غزل پڑھ رہا تھا۔ احباب داد دے رہے تھے۔ اتنے میں میں نے ایک شعر پڑھا، اُس کھڑکی کی طرف سے واہ کی آواز آئی میں چپ ہو گیا اور احباب بھی اُسی طرف متوجہ ہو گئے۔ منشی احمد حسین نے پکار کے کہا: "غائبانہ تعریف ٹھیک نہیں، اگر شوقِ شعر و سخن ہے تو جلسہ میں تشریف لائیے۔" اس کا کوئی جواب نہ ملا۔ میں پھر غزل پڑھنے لگا۔ بات رفت گزشت ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک مَہری آئی۔ اس نے سب کو سلام کیا پھر یہ کہا، "مرزا رسواؔ کون صاحب ہیں۔" احباب نے مجھے بتا دیا۔
مَہری نے کہا۔ بیوی نے ذرا آپ کو بلایا ہے۔
میں نے کہا، کون بیوی؟
مَہری نے کہا، بیوی نے کہہ دیا ہے، نام نہ بتانا، آگے آپ کا جو حکم ہو۔
مجھے مہری کے ساتھ جانے میں تامل ہوا۔ احباب مجھ سے مذاق کرنے لگے۔
ہاں صاحب کیوں نہیں، کبھی کی صاحب سلامت ہے جب تو اس طرح بلا بھیجا۔
میں دل میں غور کر رہا تھا کہ کون صاحب ایسے بے تکلف ہیں، اتنے میں اُدھر مہری نے کہا کہ حضور بیوی آپ کو اچھی طرح جانتی ہیں جب تو بلا بھیجا ہے۔ آخر جانا ہی پڑا۔ جا کے جو دیکھا معلوم کوا۔ آہ ہا! امراو جان صاحب تشریف رکھتی ہیں۔
امراؤ جان:- (دیکھتے ہی) اللّٰہ مرزا صاحب آپ تو ہمیں بھول ہی گئے۔
میں:- یہ معلوم کسے تھا کہ آپ کس کوہِ قاف میں تشریف رکھتی ہیں۔
امراو جان:- یوں تو میں اکثر آپ کی آواز سنا کرتی تھی مگر کبھی بلانے کی جرأت نہ ہوئی۔ مگر آج آپ کی غزل نے بے چین کر دیا۔ بے ساختہ منہ سے واہ نکل گیا، اُدھر کسی صاحب نے کہا یہاں آئیے۔ میں اپنی جگہ پر آپ ہی شرمندہ ہوئی۔ جی میں آیا چپ ہو رہوں مگر دل نہ
صفحہ 17
مانا۔ آخر اگلی خصوصیتوں کے لحاظ سے آپ کو تکلیف دی۔ معاف کیجیے گا۔ ہاں وہ شعر ذرا پھر پڑھ دیجیے۔
میں:- معاف تو کچھ بھی نہ ہوگا اور نہ میں شعر سناؤں گا۔ اگر آپ کو شوق ہے تو وہیں تشریف لے چلیے۔
امراوجان:- مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں مگر خیال ہے کہ صاحبِ خانہ یا اور کسی صاحب کو میرا جانا ناگوار نہ ہو۔
میں:- آپ کے حواس درست ہیں؟ بھلا ایسی جگہ میں آپ کو چلنے کے لیے کیوں کہتا۔ بے تکلف صحبت ہے، آپ کے جانے سے اور لطف ہوگا۔
امراوجان:- یہ تو سچ ہے مگر کہیں زیادہ بے تکلفی نہ ہو۔
میں:- جی نہیں، وہاں میرے سوا کوئی آپ سے بے تکلف نہیں ہوسکتا۔
امراوجان:- اچھا تو کل آؤں گی۔
میں:- ابھی کیوں نہیں چلتیں؟
امراؤ: اے ہے! دیکھیے تو کِس حیثیت سے بیٹھی ہوں۔
میں:- وہاں کوئی مجرا تو نہیں ہے، بے تکلف صحبت ہے، چلی چلیے۔
امراؤ:- اوئی مرزا! آپ کی تو باتیں لاجواب ہوتی ہیں، اچھا چلیے میں آتی ہوں۔
میں اُٹھ کے چلا آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد امراوجان صاحبہ ذرا کنگھی چوٹی کرکے کپڑے بدل کے آئیں۔
میں نے احباب سے چند الفاظ میں ان کے مذاقِ شعر وسخن اور کمالِ موسیقی وغیرہ کی تعریف کردی تھی۔ لوگ مشتاق ہوگئے تھے۔ جب وہ تشریف لائیں تو یہ ٹھہری کہ سب صاحب اپنا اپنا کلام پڑھیں اور وہ بھی پڑھیں۔ خلاصہ یہ کہ بڑے لطف کا جلسہ ہوا۔ اُس دن سے امراوجان اکثر شام کو چلی آتی تھیں۔ گھنٹہ دو گھنٹہ نشست رہتی تھی
صفحہ 18
کبھی شعر شاعری کا جلسہ ہوا، کبھی انھوں نے کچھ گایا۔ احباب محظوظ ہوئے، ایسے ہہ جلسے کی کیفیت ہم یہاں لکھے دیتے ہیں۔ ان مشاعروں میں نہ کوئی طرح مقرر کی جاتی تھی اور نہ بہت سے لوگوں سے وعدے لیے جاتے تھے صرف بے تکلف احباب جمع ہوجاتے تھے اور اپنی اپنی تازہ تصنیف غزلیں پڑھتے تھے۔
مشاعرہ
کِس کو سنائیں حالِ دلِ زار اے اداؔ
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
مرزا رسوا:- کیا کہنا بی امراوجان صاحبہ۔ یہ مقطع تو آپ نے حسب حال کہا ہے اور شعر کیوں نہ ہوں۔
امراؤ جان:- تسلیم مرزا صاحب! آپ کے سر کی قسم بس وہ مطلع تھا اور یہ مطلع خدا جانے کس زمانے کی غزل کا ہے، زبانی کہاں تک یاد رہے بیاض نگوڑی گم ہو گئی۔
منشی صاحب:- اور وہ مطلع کیا تھا، ہم نے نہیں سنا۔
رسوا :- آپ تو اہتمام میں مصروف ہیں سنے کون؟
اس میں شک نہیں کہ منشی صاحب نے آج کے جلسے کے لیے بڑے سلیقے سے انتظام کیا تھا، گرمیوں کے دن تھے، مہتابی پر دو گھڑی دن رہے چھڑکاو ہوا تھا تاکہ شام تک زمین سرد رہے، اسی پر دری بچھا کے اجلی چاندنی کا فرش کر دیا گیا تھا۔ کوری کوری صراحیاں پانی بھر کے کیوڑا ڈال کے منڈیر پر چنوا دی گئی تھیں۔ ان پر بالو کے آبخورے ڈھکے ہوئے تھے۔ برف کا انتظام علیٰحدہ کیا گیا تھا۔ کاغذی ہنڈیوں میں سفید پانوں کی سات سات گلوریاں سرخ صافی میں لپیٹ کر کیوڑے میں بسا کر رکھ دی گئی تھیں۔ ڈھکنیوں پر
صفحہ 19
تھوڑا تھوڑا کھانے کا خوشبو دار تمباکو رکھ دیاتھا، ڈیڑھ خمے حقّوں کے نیچوں میں پانی چھڑک چھڑک کر ہار لپیٹ دیے تھے، چاندنی رات تھی اس سے روشنی کا انتظام زیادہ نہیں کرنا پڑا صرف ایک سفید کنوں دورے کے لیے روشن کر دیا گیا تھا۔ آٹھ بجتے بجتے سب احباب ہیرصاحب، آغا صاحب، خاں صاحب، شیخ صاحب، پنڈت صاحب وغیره
وغیرہ تشریف لائے۔ پہلے شیر فالودہ کے ایک ایک پیالے کا دور چلا پھر شعر و سخن کا چرچا ہونے لگا۔
منشی صاحب:- تو پھر اہتمام آپ کیجیے بندہ شعر سنے گا۔
رسوا:- معاف فرمائیے، یہ درد سر مجھ سے نہ ہو گا۔
منشی صاحب:- اچھا وہ مطلع کیا تھا؟
امراؤ:- میں عرض کیے دیتی ہوں۔
کعبے میں جا کے بھول گیا راہ دیر کی
ایمان بچ گیا مرے مولا نے خیر کی
منشی صاحب:- خوب کہا۔
خاں صاحب:- اچھا مطلع کہا ہے مگر یہ "بھول گیا" کیوں؟
امراو جان:- تو کیا خاں صاحب میں ریختی کہتی ہوں؟
خاں صاحب:- مزا تو ریختی کا ہے "مرے مولا نے خیر کی" آپ ہی کی زبان سے اچھا معلوم ہوتا ہے۔
رسوا:- بس آپ کے حملے شروع ہوگئے ۔ لے شعر سننے دیجئے۔ خاں صاحب اگر سب آپ ہی کے سے محقق ہوجائے تو شعر گوئی کا مزا تشریف لے جائے۔
ہر گلے را رنگ و بوے دیگر است
خاں صاحب:- ( کسی قدر برے تیوروں سے ) درست۔
رسوا:- امراؤ جان! اچھا تو کوئی اور غزل پڑھو۔
صفحہ 20
امراؤ :- دیکھیے کچھ یاد آئے تو عرض کروں( تھوڑی دیر کے بعد)
شبِ فرقت بسر نہیں ہوتی
حضار جلسہ:- واہ واہ سبحان اللہ کیا کہنا۔
امراوجان:- (تسلیمیں کرکے)یہ شعر ملاحظہ ہو
شورِفریاد فلک پہونچا
مگراس کی خبرنہیں ہوتی
رسوا:- یہ کیا شعر کہا ہے۔(حضارنےبھی تعریف کی)
امراؤ:- آپ کی عنایت۔تسلیم تسلیم۔
تیرے کوچے کے بے نواؤں کو
ہوسِ مال و زر نہیں ہوتی
حباب:- تعریف۔
امراو:- تسلیم۔
جان دینا کسی پہ لازم تھا
زندگی یوں بشر نہیں ہوتی
رسوا:- واہ! خان صاحب یہ شعر ملاحظہ ہو
خان صاحب:- واہ سبحان اللہ! حقیقت میں کیا شعر ہے۔
امراو:- تسلیم!آپ سب صاحب قدر افزائی فرماتے ہیں۔ ورنہ میں میری حقیقت کیا ۔
ہے یقین وہ نہ آئیں گےپھر بھی
کب نگہ سوےڈر نہیں ہوتی
خان صاحب:- یہ بھی خوب کہا۔
پنڈت صاحب:- کیا طرز کلام ہے۔
آخری تدوین: