عبدالصمدچیمہ
لائبریرین
صفحہ ریختہ 179
اس زمانے میں ریل تو تھی ہی نہیں اور نہ لکھنئو سے کوئی باہر جاتا تھا بلکہ ہر شہر کے کاملین تلاش معیشیت یہیں آتے تھے۔ اپنے کمال کی حسبِ حیثیت داد پاتے تھے۔ دہلی اجڑ کے لکھنئو آباد ہوا تھا۔
رسوا:- فی زمانہ یہی حال دکن کا ہے، لکھنئو اجڑ کے دکن آباد ہوا۔ میں تو گیا نہیں مگر سنا ہے کہ محلے کے محلے لکھنئو والوں سے آباد ہیں۔
امراؤ:- جو صاحب لکھنوی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان سے کہیے پہلے اپنی زبان کی پوچ نکالیں۔
رسوا:- کیا خوب بات کہی ہے واقعی روزمرہ تو کسی قدر آ بھی آجاتا ہے مگر لہجہ نہیں آتا۔
اتفاقاتِ زمانہ سے یہ کچھ دور نہیں
یوں بھی ہوتا ہے کہ بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں
بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں اور پھر کب کے بچھڑے ہوئے وہ جن کے ملنے کا سا گمان بھی نہ ہو۔ ایک دن کا واقعہ کا واقعہ سنیے۔ کانپور میں رہتے ہوئے کوئی چھ مہینے گزر گھٹے ہیں۔ اب شہرت کی یہ حد پہنچی ہے کہ بازاروں اور گلیوں میں مری گائی ہوئی غزلیں لوگ گاتے پھرتے ہیں۔ شام کو میرے کمرے میں بہت اچھا مجمع رہتا ہے۔
گرمیوں کا دن ہے۔ کوئی دو بجے کا وقت ہوگا۔ میں اپنے پلنگ پر اکیلی لیٹی ہوں۔ ماما باورچی خانے میں خراٹے لے رہی ہے۔ ایک خدمت گار کمرے کے باہر بیٹھا پنکھے کی ڈوری کھینچ رہا ہے۔ خس کی ٹٹیاں خشک ہوگئی ہیں۔ میں آدمی کو آواز دیا ہی چاہتی تھی
اس زمانے میں ریل تو تھی ہی نہیں اور نہ لکھنئو سے کوئی باہر جاتا تھا بلکہ ہر شہر کے کاملین تلاش معیشیت یہیں آتے تھے۔ اپنے کمال کی حسبِ حیثیت داد پاتے تھے۔ دہلی اجڑ کے لکھنئو آباد ہوا تھا۔
رسوا:- فی زمانہ یہی حال دکن کا ہے، لکھنئو اجڑ کے دکن آباد ہوا۔ میں تو گیا نہیں مگر سنا ہے کہ محلے کے محلے لکھنئو والوں سے آباد ہیں۔
امراؤ:- جو صاحب لکھنوی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان سے کہیے پہلے اپنی زبان کی پوچ نکالیں۔
رسوا:- کیا خوب بات کہی ہے واقعی روزمرہ تو کسی قدر آ بھی آجاتا ہے مگر لہجہ نہیں آتا۔
اتفاقاتِ زمانہ سے یہ کچھ دور نہیں
یوں بھی ہوتا ہے کہ بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں
بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں اور پھر کب کے بچھڑے ہوئے وہ جن کے ملنے کا سا گمان بھی نہ ہو۔ ایک دن کا واقعہ کا واقعہ سنیے۔ کانپور میں رہتے ہوئے کوئی چھ مہینے گزر گھٹے ہیں۔ اب شہرت کی یہ حد پہنچی ہے کہ بازاروں اور گلیوں میں مری گائی ہوئی غزلیں لوگ گاتے پھرتے ہیں۔ شام کو میرے کمرے میں بہت اچھا مجمع رہتا ہے۔
گرمیوں کا دن ہے۔ کوئی دو بجے کا وقت ہوگا۔ میں اپنے پلنگ پر اکیلی لیٹی ہوں۔ ماما باورچی خانے میں خراٹے لے رہی ہے۔ ایک خدمت گار کمرے کے باہر بیٹھا پنکھے کی ڈوری کھینچ رہا ہے۔ خس کی ٹٹیاں خشک ہوگئی ہیں۔ میں آدمی کو آواز دیا ہی چاہتی تھی