محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
پنجابی زبان کی پہلی شاعرہ ، ناول نگار اور کہانی نویس امریتا پریتم کی 100ویں سالگرہ پر گوگل نے اپنا ڈوڈل پیش کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
امرتا پریتم کی آخری کتاب’ میں تمہیں پھر ملوں گی‘نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تخلیقات پر 9 سے زائد فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔
ان کی تصانیف میں اج آکھاں وارث شاہ نوں، پنجر، ڈاکٹر دیو، ساگر اور سیپیاں، رنگ کا پتہ، دلی کی گلیاں، تیرہواں سورج، کہانیاں جو کہانیاں نہیں، کہانیوں کے آنگن میں اور ان کی خود نوشت رسیدی ٹکٹ کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
ان کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش، مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں کیا گیا۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں، شاعروں سے بھی امرتا پریتم کی گہری دوستی تھی۔
امرتا بھارتی ایوانِ بالا کی رکن بھی رہیں اور انہیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہوا اس کے علاوہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور دیگر اعزازات بھی حاصل ہو ئے جن میں پنجابی ادب کے لیے گیان پیتھ ایوارڈ بھی شامل ہے ۔
امرتا پریتم کی سب سے شہرہ آفاق نظم ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ ہے،جس میں انہوں نے تقسیم ہند کے دوران ہوئے مظالم کا مرثیہ پڑھا ہے۔
پنجاب کی تقسیم دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس کے باعث پنجاب دھرتی کے چپے چپے پر انسانی خون بہا ۔ دس لاکھ سے زائد لوگ قتل ، ایک کروڑ سے زیادہ بے گھر 70ہزا ر عورتین اغوا ہوئیں جن میں سے 50ہزار کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔
انسانی تاریخ کے اس سب سے بڑے ظلم پر امریتا پریتم نے پنجابی کے مشہور صوفی شاعر وارث شاہ کو مخاطب کر کے اپنی یہ نظم لکھی۔