اس کیوں کا جواب کئی صدیوں سے نہیں مل سکا ، جب ہندوستان متحد تھا تب بھی نہیں ۔ شاید جس دن ہم دوسروں کی وفاداری میں اپنے ہی ملک اور قوم کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور پر کھلواڑ کرنا چھوڑ دیں گے تب حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
بالکل متفق۔۔۔ اگر گھر والے خود نہ بتا دیں تو باہر والوں کو گھر کے راستوں اور خفیہ باتوں کا عام طور پر علم نہیں ہوتا۔
ہمیشہ جب تک کوئی میر جعفر یا صادق ساتھ نہ دیں کوئی بیرونی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی!!
پاکستان ميں کسی بھی نئے سياسی عمل يا اہم پيش رفت کے بعد سازشی کہانی نويسوں کی جانب سے اپنے مخصوص نظريات کی تشہير کے ليے جو يکا يک پينترے بدلے جاتے ہيں، وہ يقينی طور پر حيران کن ہے۔ صرف چند دن پہلے تک يہ کہا جا رہا تھا کہ ايران گيس پائپ لائن منصوبے اور چين کے ساتھ گوادر پورٹ کے منصوبے کے معاملے ميں حکومت پاکستان امريکہ کی جانب سے شديد ترين مخالفت اور تنقيد کو خاطر ميں نہيں لا رہی ہے۔ بعض سياسی پنڈت يہ دعوے کر رہے تھے کہ امريکہ، حکومت پاکستان کو قائل کرنے ميں ناکامی کے بعد مبينہ طور پر شيعہ سنی فسادات کروا کر اپنی بے بسی اور غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ اب صرف ايک ہفتے کے بعد جب پاکستان ميں نگران وزير اعظم کی تعنياتی کا معاملہ آيا ہے تو اب ہميں اس انداز ميں پيش کيا جار ہا ہے کہ جيسے ملک کی تمام تر سياسی قوتيں بشمول بيوروکريسی اور عسکری قيادت مل کر بھی ہماری مرضی کے خلاف ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے ليے اپنا ليڈر تک منتخب نہيں کر سکتی ہيں۔
اسی طرح جب حکومت پاکستان نے ملک ميں نيٹو کے ليے متعين راستوں سے کنٹينرز کی آمد ورفت پر پابندی عائد کی تو ہميں شکست وريخت کا شکار ايک ايسی بکھرتی ہوئ قوت سے تعبير کيا گيا جو مبينہ طور پر افغانستان ميں اپنی شکست کے بعد خطے ميں اپنا اثرورسوخ کھو چکی ہے۔ مگر جب کئ ماہ کی سفارتی کوششوں کے بعد دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک ڈائيلاگ کے عمل کا آغاز ہوا تو ہميں ايک ايسی بااثر عالمی قوت سے تعبير کيا گيا جو اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذريعے پاکستان ميں ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کروا سکتی ہے۔
کيا ان متضاد دليلوں ميں کوئ بھی قابل فہم پہلو ہے؟
ميں نے پہلے بھی فورمز پر يہ سوال اٹھايا ہے کہ اگر امريکی حکومت اتنی بااختيار اور بااثر ہے کہ ايک دور دراز ملک کے مقامی اور قومی سطح کے اليکشنز کو اپنی مرضی سے تبديل کر سکتی ہے تو پھر يہ کيسے ممکن ہے کہ امريکی صدر خود اپنے اليکشنز اور اپنی پاليسيوں کی منظوری کے ليے اپنے ملک ميں باقاعدہ مہم چلا کر اپنے نقطہ نظر کی منظوری کے ليے جدوجہد کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ منطق کے اعتبار سے تو طاقت اور اثر ورسوخ کا آغاز اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ ماضی قريب ميں دو امريکی صدور اپنے دور اقتدار ميں دوسری مرتيہ اليکشن ميں ناکام ہو گئے تھے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ايسی درجنوں مثاليں موجود ہيں جب امريکی صدر کے بہت سے فيصلوں اور پاليسيوں کو امريکی کانگريس يا امريکی سپريم کورٹ نے مسترد کر ديا تھا۔
کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار اس کے عوام ہوتے ہيں جو خود اپنے قائدين کا انتخاب کرتے ہيں اور پھر يہی قائدين ملک کی داخلہ اور خارجہ پاليسياں مرتب کرتے ہيں۔ کوئ بھی "بيرونی ہاتھ" يا حکومت عوام کے اس اختيار پر اثرانداز نہيں ہو سکتی۔
فواد صاحب اول تو امریکہ کی تاریخ آپ کے بیان کے برعکس گواہی دیتی ہے۔ دوم یہ کہ اگر پاکستانی اپنی مرضی سے انتخاب کے اہل ہوتے تو معین قریشی اور شوکت عزیز پاکستان کے وزیر اعظم کبھی نہ بنتے
کچھ رائے دہندگان کا يہ وطيرہ بن چکا ہے کہ پاکستان ميں ہر سياسی منظر نامے ميں مبينہ امريکی دخل اندازی کو اجاگر کرتے رہتے ہيں۔ حالانکہ حقيقت يہ ہے کہ پاکستان ميں غير ملکی مداخلت کے حوالے سے جو تاثر پھيلايا جاتا ہے اس کا اگر باريک بينی سے تجزيہ کيا جائے تو يہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی سياست ميں کبھی بھی کسی ايک قوت نے ايسی يکطرفہ برتری حاصل نہيں کی ہے جسے کسی مبينہ خفيہ بيرونی ہاتھ کی جانب سے کنٹرول کيا جا سکے۔ بلکہ حاليہ صوبائ اور وفاقی حکومتی خدوخال ميں يہ انوکھی صورت حال سامنے آئ کہ قريب تمام ہی اہم سياسی جماعتيں رياست کے امور چلانے کے ليے اقتدار ميں شريک رہی ہيں۔
بہت زيادہ تخلياتی سوچ رکھنا والا سازش پسند ذہن بھی يہ دعوی نہيں کر سکتا کوئ ايسی قوت اچانک ہی سياسی افق پر نمودار ہو کر اس طرح اقتدار کے ايوانوں تک رسائ حاصل کرنے ميں کامياب ہو گئ جس کی عوام ميں کوئ پہچان، مقبوليت يا جڑيں ہی موجود نہيں تھيں۔ بلکہ پاکستانی سياست ميں کبھی بھی کوئ ايسی بظاہر گمنام اور انجان سياسی جماعت اپنی جگہ نہيں بنا سکی جس کے وجود کی توجيہہ پيش کرنے کے ليے رائے دہندگان کی جانب سے سازشی کہانيوں کا سہارا ليا جائے۔
دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی پاليسياں بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں انھی پاليسيوں کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی معمول اور تسلسل کا حصہ ہے۔ درجنوں ممالک کے سفارت کار اور سينير اہلکار پاکستانی افسران سے مسلسل رابطے ميں رہتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس ضمن ميں کيے جانے والے فيصلے بہرحال پاکستان کے حکمران سياست دانوں کی ذمہ داری ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ کی اس خطے ميں پاکستان سميت کئ ممالک ميں دلچسپی ہے اور يقينی ہے۔ اس حقيقت سے کسی کو انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا محور پاکستان کے سرحدی علاقوں اور سرحد پار افغانستان ميں منظم وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو امريکہ سميت عالمی برداری کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر چکی ہيں اور ان کے وبال سے پاکستان کے شہری علاقے بھی محفوظ نہيں۔ اس مشترکہ دشمن کے خاتمے کے ليے حکومت پاکستان کے توسط سے ايک مضبوط محاذ کا قيام امريکہ کی اولين ترجيح ہے۔ ايسا صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب ايک مضبوط اور مستحکم جمہوری پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کو فروغ ديا جا سکے۔