نگار ف
محفلین
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے اس بیان سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ شام میں نہتے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال سفاک ترین حرکت ہے اور دنیا کو شتر مرغ بننے کے بجائے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔
اگر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا تب بھی امریکہ اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر صف آرا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کان ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد ہمارے دل میں امریکہ کے خلاف جو تھوڑی بہت کدورت تھی وہ بھی صاف ہوگئی۔
وہ دن اور تھے جب ہیروشیما ناگاساکی کو صدر ہیری ٹرومین نےجوہری عبرت کا نشان بنا دیا تھا اور سوا لاکھ جاپانیوں کے سائے تک جل گئے تھے۔
وہ زمانہ اور تھا جب امریکہ نے ویتنام کے تیرہ فیصد جنگلات اور زرعی زمین کو بی باون طیاروں سے ایجنٹ اورنج چھڑک کر زہریلا کر ڈالا تھا ۔
وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔
اپنی کم بختی کو خود دعوت دی
دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔
وہ واشنگٹن اور تھا جس کے بذریعہ اقوامِ متحدہ عراق کی دس برس کی مکمل اقتصادی ناکہ بندی کے سبب پانچ لاکھ سے زائد بچے مرگئے یا اپاہج ہوگئے۔وہ بش سینیئر کوئی اور تھا جس کے دستوں نے جنوبی عراق میں یورینیم سے آلودہ آرٹلری شیل استعمال کیے ۔یوں علاقے میں طرح طرح کے سرطانوں کی ایک طویل فصل لہلا اٹھی۔
وہ طیارے کسی اور امریکہ کے تھے جنہوں نے قندھار کی وادیِ ارغنداب کے گاؤں طارق کلاچی پر دو برس پہلے پچیس ٹن بارود کچھ یوں برسایا کہ اب وہ افغانستان کے نقشے میں ہی نہیں۔البتہ متاثرہ خاندانوں کو دس دس ہزار ڈالر بھی ملے۔
ایک زمانہ تھا کہ بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد شرفا میں شمار ہوتے تھے۔تبھی تو شام انیس سو نوے کی جنگِ خلیج میں عراق مخالف امریکی اتحاد کا حصہ تھا۔تبھی تو سی آئی اے مشتبہ القاعدہ قیدی راز اگلوانے کے لیے ابھی کچھ عرصے پہلے تک بشار الاسد حکومت کے حوالے کیا کرتی تھی۔لیکن اب نہ وہ شریف شام رہا اور نہ ہی وہ سفاک امریکہ۔
دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔
حال ہی میں مصر میں ایک ہزار سے زائد افراد بھی انہی ہتھیاروں سے قتل ہوئے۔کسی نے کوئی اعتراض کیا؟ لیکن کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے چودہ سو انتیس معصوم شہریوں کی ہلاکت تو کوئی سفاک سے سفاک انسان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔چے جائکہ مہذب دنیا؟ چے جائکہ امریکہ اور فرانس وغیرہ ؟
وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔
حالانکہ امریکہ سمیت دنیا کے ایک سو اٹھاسی ممالک نے کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری، زخیرے اور استعمال پر پابندی کے عالمی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔لیکن شام، اسرائیل اور مصر ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس کنونشن کو تسلیم نہیں کرتے۔(مصر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے یمن میں سن ساٹھ کی دہائی میں باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے۔تہتر کی جنگ کے دوران شام کو احتیاطاً کیمیاوی ہتھیاروں کے سمپل بھی بھجوائے اور صدام حسین کو اس شعبے میں مہارت دلانے کے لیے مغربی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ فعال کردار ادا کیا۔مگر اسرائیل اور مصر کی بات کچھ اور ہے۔شام سے بھلا ان کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے)۔
امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔ شام کے بعد وہ اسرائیل اور مصر کو کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط پر مجبور کرے گی۔ایران کے بعد سعودی اور اماراتی جوہری پروگرام پر بھی پابندیاں لگوائے گی۔اور کیمیاوی ہتھیاروں کے دستخطی کے طور پر امریکہ کو انتیس اپریل دو ہزار بارہ تک اپنی قاتل گیسوں سے جو سو فیصد چھٹکارا پانا تھا۔وہ اپنی کوتاہی پر عالمی برداری سے معافی بھی مانگے گا اور شام پر حملے سے پہلے پہلے اپنے بقیہ پانچ ہزار ٹن کیمیاوی ہتھیاروں کے زخیرے کو بھی چوک میں رکھ کے آگ لگائے گا۔۔۔
مجھے قطعاً تعجب نا ہوگا کہ اگلے ہفتے سے ڈالر پر جارج واشنگٹن کے بجائے گوتم بدھ کی تصویر چھپنے لگے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2013/09/130901_baat_se_baat_zz.shtml
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے اس بیان سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ شام میں نہتے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال سفاک ترین حرکت ہے اور دنیا کو شتر مرغ بننے کے بجائے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔
اگر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا تب بھی امریکہ اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر صف آرا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کان ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد ہمارے دل میں امریکہ کے خلاف جو تھوڑی بہت کدورت تھی وہ بھی صاف ہوگئی۔
وہ دن اور تھے جب ہیروشیما ناگاساکی کو صدر ہیری ٹرومین نےجوہری عبرت کا نشان بنا دیا تھا اور سوا لاکھ جاپانیوں کے سائے تک جل گئے تھے۔
وہ زمانہ اور تھا جب امریکہ نے ویتنام کے تیرہ فیصد جنگلات اور زرعی زمین کو بی باون طیاروں سے ایجنٹ اورنج چھڑک کر زہریلا کر ڈالا تھا ۔
وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔
اپنی کم بختی کو خود دعوت دی
دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔
وہ واشنگٹن اور تھا جس کے بذریعہ اقوامِ متحدہ عراق کی دس برس کی مکمل اقتصادی ناکہ بندی کے سبب پانچ لاکھ سے زائد بچے مرگئے یا اپاہج ہوگئے۔وہ بش سینیئر کوئی اور تھا جس کے دستوں نے جنوبی عراق میں یورینیم سے آلودہ آرٹلری شیل استعمال کیے ۔یوں علاقے میں طرح طرح کے سرطانوں کی ایک طویل فصل لہلا اٹھی۔
وہ طیارے کسی اور امریکہ کے تھے جنہوں نے قندھار کی وادیِ ارغنداب کے گاؤں طارق کلاچی پر دو برس پہلے پچیس ٹن بارود کچھ یوں برسایا کہ اب وہ افغانستان کے نقشے میں ہی نہیں۔البتہ متاثرہ خاندانوں کو دس دس ہزار ڈالر بھی ملے۔
ایک زمانہ تھا کہ بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد شرفا میں شمار ہوتے تھے۔تبھی تو شام انیس سو نوے کی جنگِ خلیج میں عراق مخالف امریکی اتحاد کا حصہ تھا۔تبھی تو سی آئی اے مشتبہ القاعدہ قیدی راز اگلوانے کے لیے ابھی کچھ عرصے پہلے تک بشار الاسد حکومت کے حوالے کیا کرتی تھی۔لیکن اب نہ وہ شریف شام رہا اور نہ ہی وہ سفاک امریکہ۔
دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔
حال ہی میں مصر میں ایک ہزار سے زائد افراد بھی انہی ہتھیاروں سے قتل ہوئے۔کسی نے کوئی اعتراض کیا؟ لیکن کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے چودہ سو انتیس معصوم شہریوں کی ہلاکت تو کوئی سفاک سے سفاک انسان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔چے جائکہ مہذب دنیا؟ چے جائکہ امریکہ اور فرانس وغیرہ ؟
وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔
حالانکہ امریکہ سمیت دنیا کے ایک سو اٹھاسی ممالک نے کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری، زخیرے اور استعمال پر پابندی کے عالمی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔لیکن شام، اسرائیل اور مصر ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس کنونشن کو تسلیم نہیں کرتے۔(مصر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے یمن میں سن ساٹھ کی دہائی میں باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے۔تہتر کی جنگ کے دوران شام کو احتیاطاً کیمیاوی ہتھیاروں کے سمپل بھی بھجوائے اور صدام حسین کو اس شعبے میں مہارت دلانے کے لیے مغربی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ فعال کردار ادا کیا۔مگر اسرائیل اور مصر کی بات کچھ اور ہے۔شام سے بھلا ان کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے)۔
امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔ شام کے بعد وہ اسرائیل اور مصر کو کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط پر مجبور کرے گی۔ایران کے بعد سعودی اور اماراتی جوہری پروگرام پر بھی پابندیاں لگوائے گی۔اور کیمیاوی ہتھیاروں کے دستخطی کے طور پر امریکہ کو انتیس اپریل دو ہزار بارہ تک اپنی قاتل گیسوں سے جو سو فیصد چھٹکارا پانا تھا۔وہ اپنی کوتاہی پر عالمی برداری سے معافی بھی مانگے گا اور شام پر حملے سے پہلے پہلے اپنے بقیہ پانچ ہزار ٹن کیمیاوی ہتھیاروں کے زخیرے کو بھی چوک میں رکھ کے آگ لگائے گا۔۔۔
مجھے قطعاً تعجب نا ہوگا کہ اگلے ہفتے سے ڈالر پر جارج واشنگٹن کے بجائے گوتم بدھ کی تصویر چھپنے لگے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2013/09/130901_baat_se_baat_zz.shtml