غالب نے سچ کہا ہے کہ انسان بلاشبہ پیالہ و ساغر، نہیں ہوتا۔ دکھ پہنچے تو اس کی آ نکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ ظلم اسے مشتعل کرتا اور غصہ دلاتاہے۔ مصائب میں وہ مضطرب ہوتا ہے اور جبر حد سے بڑھ جائے تو اس کے لیے نا قابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ ہم مسلمان بھی آدم کی اولاد ہیں۔ آنسو، اضطراب اور غصہ ہماری سرشت میں بھی شامل ہیں۔ مصیبت اور غم میں ، ہم سے وہی توقع ہونی چاہیے جوآدم و حوا کی باقی اولاد سے کی جاتی ہے ۔ تاہم مسلمان ہونے کے ،ناتے لازم ہے کہ دکھ اور تکلیف کے ہر لمحے میں ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کریں ۔ اس رجوع کاایک پہلو مابعد الطبیعیاتی ہے۔ دعا و استغفاراور رکوع و سجود اس کے وہ مظاہر ہیں جن سے ہم اﷲ کی رحمت اور نصرت کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا پہلو مادی اور طبیعیاتی ہے۔ اﷲ نے یہ دنیا جن اصولوں پر قائم کی ہے۔ انھيں وہ اپنی سنت کہتا ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ غم و غصے کے عالم میں کسی ردِ عمل کا اظہار کرتے وقت اﷲ کی اس سنت کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ یہ مسلم اور غیر مسلم، مرد اور عورت، اﷲ کو ماننے والے اور اس کا انکار کرنے والے، سب کے لیے ایک ہی ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر بطور خاص لازم ہے کہ وہ ایسی کیفیت میں اﷲ کی سنت کو سمجھیں اور اس کی روشنی میں کسی ردِعمل کا اظہار کریں۔
امریکا اس وقت دنیا کی واحد عالمی قوت ہے۔ اس بات کا اعتراف بزدلی ہے نہ مرعوبیت ۔ دنیا میں آج تک کوئی فاتح قوم ایسی نہیں گذری جس نے معرکہ آرائی سے پہلے مدِ مقابل کی قوت کا صحیح اندازہ نہ کیا ہو۔ واحد عالمی قوت ہونے کا ایک مفہوم ہے۔ امریکا کو یہ حیثیت اس وقت حاصل ہوئی ، جب اس نے عسکری ،سیاسی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے دنیا پر اپنی برتری ثابت کر دی۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے بے شمار شواہد تاریخ کی کتابوں اور دنیا کے نقشے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے اس نے ایک سے زائد مرتبہ ساری دنیاکو امریکی جھنڈے تلے متحد کیا۔ تہذیبی حوالے سے امریکا اس وقت مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے لیے معروف ہے۔ اس کی عسکری قوت کا یہ عالم ہے کہ چین کا دفاعی بجٹ پینٹاگان کے بجٹ کے مساوی ہے۔٢٠٠٩ میں دیے جا نے والے تیرہ نوبل انعامات میں سے نو امریکا کو ملے۔ایجادات میں وہ سر ِ فہرست ہے۔ اسی طرح بحرانوں کے باوجود آج بھی امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم اسے اب بھی دنیا کی سب سے بڑی مسابقتی معیشت (The mostcompetitive economy) قرار دیتا ہے۔
اس کا یہ مفہوم کسی طرح نہیں ہے کہ اس میں مادی اعتبار سے کمزوریاں نہیں ہیں ۔تا ہم ایسی کوئی ناکامی اس کی عالمی حیثیت کو متاثر نہیں کر سکی۔ اس کا سبب کیا ہے؟
ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ تمام میدانوں میں اس نے اپنی برتری قائم رکھی۔ قوت کی یہ نفسیات ہے کہ وہ نہ صرف خود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اس میں اضافے کی بھی متمنی رہتی ہے۔ اس خواہش سے توسیع پسندی اور غلبے کا رحجان پیدا ہوتا ہے۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ اس خطرے کابھی سدِ باب کرتی ہے جومحض امکانی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے ان وسائل پر بھی قابض ہونا چاہتی ہے جو کسی بھی لمحے اس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ انسان کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عالمی قوت یہی کرتی رہی ہے اور آج امریکا بھی کسی طرح پہلی عالمی قوتوں سے مختلف نہیں۔ کل وہ سوویت یونین کو خطرہ سمجھتا تھا ۔چنانچہ ہم ديکھتے ہيں کہ وہ عالمی قوت دنیا کے نقشے سے محو کر دی گئی۔ آج ايک طرف مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر اس کی نظر ہے اور دوسری طرف وہ اس عسکریت پسندی سے خطرہ محسوس کرتا ہے جو القاعدہ وغیرہ کے زیرِ عنوان متحرک ہے۔ امریکا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام بطورِ مذہب اس کا ہدف نہیں ہے۔ تا ہم اس کی کوئی تعبیر اگرایسی ہے جو امریکا کے لیے چیلنج بن سکتی ہے توپھر وہ اشتراکیت کی طرح اس کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔
دنیا کی ساری قوتیں چاروناچاراسی سنتِ الٰہی کا اتباع کر رہی ہیں جو ما دی دنیا میں جاری ہے ، البتہ و ہ اسے قانون ِفطرت (Law of Nature) کہتے ہیں۔ اگر ہم دنيا ميں عزت سے جينا چاہتے ہيں توہمارے پاس بھی اس راستے کو اپنا نے کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ساری قوت مادی تعمیر پر صرف کرڈالیں۔آج چین،جاپان اور جر منی سمیت بے شمارممالک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ اگر چہ امریکا کی خواہش کے بر عکس ہے لیکن قانون ِ فطرت کے عين مطابق ہے۔ یہ قانون بتاتاہے کہ اس دنیا میں کو ئی قوت قادر ِ مطلق نہیں اور جو مثبت طرزِ عمل اختیا ر کر تا ہے وہ لازماًآگے بڑھتا ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپان کو جس ذلت کا سامنا کر نا پڑا ، ماضی قریب میں اس کی کو ئی مثال موجود نہیں لیکن آج دنیا کے معاشی فیصلے جا پان کی مر ضی کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ہما رے لیے بھی یہی راستہ ہے۔ہم اگر اس پر چل نکلیں تو امریکا سمیت کو ئی بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔اس کے لیے چند کام نا گز یر ہیں۔
١۔ ماؤ نے چینی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ہمیں بھی یہی کر نا ہے۔ہم اپنا غصہ توا نا ئی میں تبدیل کر ڈالیں جو ہماری تعمیر کا باعث بن جا ئے۔یہ سفر علم سے شروع ہو گااور اس کا ظہور معیشت ، معاشرت اور سیاست سمیت ہر شعبہء زندگی میں ہو گا۔
٢۔ہم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر قیمت پر امن خریدنا ہے۔یہ امن بعض اوقات کمزور کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ بنیا دوں پر ملتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیا ر ہو جا نا چاہیے۔لوگ عزت،حمیت جیسے الفاظ سے ہمیں اشتعال دلائیں گے لیکن ہمیں اپنی سماعتوں کو ان آوازوں سے دور رکھنا ہے۔دیوارسے سر پھوڑنے کو دنیا کی کسی لغت اور تا ریخ میں غیرت یا حمیت نہیں کہا گیا۔
٣۔ کو ئی ہمیں تصادم میں الجھا نا چا ہے تو چین کی طرح ہمیں اس سے گریز کر تے ہو ئے ساری توا نا ئی اپنی تعمیر پر لگا نا ہو گی۔
٤۔ جو قوم داخلی سطح پر اخلاقی پستی میں مبتلا ہووہ کسی بڑے خارجی چیلنج کا مقا بلہ نہیں کر سکتی- سماجی اخلاقیات کے باب میں ہمیں اپنی تعمیر پر خصوصی تو جہ دینی ہے ۔ناپ تول میں ، صحت معاملات میں ، اجلا پن ،حفظ ِمراتب ، رواداری ، برداشت ، ان سب اقدار کے حوالے سے ہمیں خود کو مثالی سطح پر لے جانا ہو گا۔
یہ اہداف کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں ،سماجی انقلاب سے حاصل ہوں گے۔اس کے لیے کسی فرد ِ واحد کا انتظار یا کسی سیاسی را ہنما سے تو قعات باندھنا عبث ہے۔آج ضرورت ہے کہ ہما ری اجتماعی بصیرت کام آئے۔لوگ اپنی صلاحیت اور افتا دِ طبع کے ساتھ مختلف میدا نوں میں سرگرم ِ عمل ہوں۔ ان کی مشترکہ کو ششوں سے انشا اللہ وہ تبدیلی آئے گی جس کے بعد کو ئی ہم پر ظلم نہیں کر سکے گااور ہم اپنے وقار کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔یہ سچ ہے کہ انسان پیا لہ و ساغرنہیں ہو تالیکن حکمت اسی کی گم شدہ میراث ہے۔آج ہمیں وہ حکمت چاہیے جو امریکا کے خلاف ہماری نفرت کو ایک تعمیری قوت میں بدل ڈالے۔ تبدیلی کا واحد راستہ تعمیر ہے۔ہمیں اپنے غصے کو تھا منا ہے ۔ہمیں اپنے غم کو اپنی طاقت بنانا ہے۔ قانون ِ فطرت کے مطابق ، پھر ہمارا راستہ کو ئی نہیں روک سکتا -
خورشید ندیم احمد
امریکا اس وقت دنیا کی واحد عالمی قوت ہے۔ اس بات کا اعتراف بزدلی ہے نہ مرعوبیت ۔ دنیا میں آج تک کوئی فاتح قوم ایسی نہیں گذری جس نے معرکہ آرائی سے پہلے مدِ مقابل کی قوت کا صحیح اندازہ نہ کیا ہو۔ واحد عالمی قوت ہونے کا ایک مفہوم ہے۔ امریکا کو یہ حیثیت اس وقت حاصل ہوئی ، جب اس نے عسکری ،سیاسی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے دنیا پر اپنی برتری ثابت کر دی۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے بے شمار شواہد تاریخ کی کتابوں اور دنیا کے نقشے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے اس نے ایک سے زائد مرتبہ ساری دنیاکو امریکی جھنڈے تلے متحد کیا۔ تہذیبی حوالے سے امریکا اس وقت مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے لیے معروف ہے۔ اس کی عسکری قوت کا یہ عالم ہے کہ چین کا دفاعی بجٹ پینٹاگان کے بجٹ کے مساوی ہے۔٢٠٠٩ میں دیے جا نے والے تیرہ نوبل انعامات میں سے نو امریکا کو ملے۔ایجادات میں وہ سر ِ فہرست ہے۔ اسی طرح بحرانوں کے باوجود آج بھی امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم اسے اب بھی دنیا کی سب سے بڑی مسابقتی معیشت (The mostcompetitive economy) قرار دیتا ہے۔
اس کا یہ مفہوم کسی طرح نہیں ہے کہ اس میں مادی اعتبار سے کمزوریاں نہیں ہیں ۔تا ہم ایسی کوئی ناکامی اس کی عالمی حیثیت کو متاثر نہیں کر سکی۔ اس کا سبب کیا ہے؟
ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ تمام میدانوں میں اس نے اپنی برتری قائم رکھی۔ قوت کی یہ نفسیات ہے کہ وہ نہ صرف خود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اس میں اضافے کی بھی متمنی رہتی ہے۔ اس خواہش سے توسیع پسندی اور غلبے کا رحجان پیدا ہوتا ہے۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ اس خطرے کابھی سدِ باب کرتی ہے جومحض امکانی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے ان وسائل پر بھی قابض ہونا چاہتی ہے جو کسی بھی لمحے اس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ انسان کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عالمی قوت یہی کرتی رہی ہے اور آج امریکا بھی کسی طرح پہلی عالمی قوتوں سے مختلف نہیں۔ کل وہ سوویت یونین کو خطرہ سمجھتا تھا ۔چنانچہ ہم ديکھتے ہيں کہ وہ عالمی قوت دنیا کے نقشے سے محو کر دی گئی۔ آج ايک طرف مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر اس کی نظر ہے اور دوسری طرف وہ اس عسکریت پسندی سے خطرہ محسوس کرتا ہے جو القاعدہ وغیرہ کے زیرِ عنوان متحرک ہے۔ امریکا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام بطورِ مذہب اس کا ہدف نہیں ہے۔ تا ہم اس کی کوئی تعبیر اگرایسی ہے جو امریکا کے لیے چیلنج بن سکتی ہے توپھر وہ اشتراکیت کی طرح اس کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔
دنیا کی ساری قوتیں چاروناچاراسی سنتِ الٰہی کا اتباع کر رہی ہیں جو ما دی دنیا میں جاری ہے ، البتہ و ہ اسے قانون ِفطرت (Law of Nature) کہتے ہیں۔ اگر ہم دنيا ميں عزت سے جينا چاہتے ہيں توہمارے پاس بھی اس راستے کو اپنا نے کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ساری قوت مادی تعمیر پر صرف کرڈالیں۔آج چین،جاپان اور جر منی سمیت بے شمارممالک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ اگر چہ امریکا کی خواہش کے بر عکس ہے لیکن قانون ِ فطرت کے عين مطابق ہے۔ یہ قانون بتاتاہے کہ اس دنیا میں کو ئی قوت قادر ِ مطلق نہیں اور جو مثبت طرزِ عمل اختیا ر کر تا ہے وہ لازماًآگے بڑھتا ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپان کو جس ذلت کا سامنا کر نا پڑا ، ماضی قریب میں اس کی کو ئی مثال موجود نہیں لیکن آج دنیا کے معاشی فیصلے جا پان کی مر ضی کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ہما رے لیے بھی یہی راستہ ہے۔ہم اگر اس پر چل نکلیں تو امریکا سمیت کو ئی بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔اس کے لیے چند کام نا گز یر ہیں۔
١۔ ماؤ نے چینی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ہمیں بھی یہی کر نا ہے۔ہم اپنا غصہ توا نا ئی میں تبدیل کر ڈالیں جو ہماری تعمیر کا باعث بن جا ئے۔یہ سفر علم سے شروع ہو گااور اس کا ظہور معیشت ، معاشرت اور سیاست سمیت ہر شعبہء زندگی میں ہو گا۔
٢۔ہم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر قیمت پر امن خریدنا ہے۔یہ امن بعض اوقات کمزور کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ بنیا دوں پر ملتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیا ر ہو جا نا چاہیے۔لوگ عزت،حمیت جیسے الفاظ سے ہمیں اشتعال دلائیں گے لیکن ہمیں اپنی سماعتوں کو ان آوازوں سے دور رکھنا ہے۔دیوارسے سر پھوڑنے کو دنیا کی کسی لغت اور تا ریخ میں غیرت یا حمیت نہیں کہا گیا۔
٣۔ کو ئی ہمیں تصادم میں الجھا نا چا ہے تو چین کی طرح ہمیں اس سے گریز کر تے ہو ئے ساری توا نا ئی اپنی تعمیر پر لگا نا ہو گی۔
٤۔ جو قوم داخلی سطح پر اخلاقی پستی میں مبتلا ہووہ کسی بڑے خارجی چیلنج کا مقا بلہ نہیں کر سکتی- سماجی اخلاقیات کے باب میں ہمیں اپنی تعمیر پر خصوصی تو جہ دینی ہے ۔ناپ تول میں ، صحت معاملات میں ، اجلا پن ،حفظ ِمراتب ، رواداری ، برداشت ، ان سب اقدار کے حوالے سے ہمیں خود کو مثالی سطح پر لے جانا ہو گا۔
یہ اہداف کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں ،سماجی انقلاب سے حاصل ہوں گے۔اس کے لیے کسی فرد ِ واحد کا انتظار یا کسی سیاسی را ہنما سے تو قعات باندھنا عبث ہے۔آج ضرورت ہے کہ ہما ری اجتماعی بصیرت کام آئے۔لوگ اپنی صلاحیت اور افتا دِ طبع کے ساتھ مختلف میدا نوں میں سرگرم ِ عمل ہوں۔ ان کی مشترکہ کو ششوں سے انشا اللہ وہ تبدیلی آئے گی جس کے بعد کو ئی ہم پر ظلم نہیں کر سکے گااور ہم اپنے وقار کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔یہ سچ ہے کہ انسان پیا لہ و ساغرنہیں ہو تالیکن حکمت اسی کی گم شدہ میراث ہے۔آج ہمیں وہ حکمت چاہیے جو امریکا کے خلاف ہماری نفرت کو ایک تعمیری قوت میں بدل ڈالے۔ تبدیلی کا واحد راستہ تعمیر ہے۔ہمیں اپنے غصے کو تھا منا ہے ۔ہمیں اپنے غم کو اپنی طاقت بنانا ہے۔ قانون ِ فطرت کے مطابق ، پھر ہمارا راستہ کو ئی نہیں روک سکتا -
خورشید ندیم احمد