امریکہ نے پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کی زمہ داری قبول کر لی

US declassified documents disclose US killed Khan through Kabul man in quest for Iran’s oil, Confirmed by Khan’s grandson
Americans murdered the first elected prime minister of Pakistan through the Afghan government, declassified documents of US State Department disclosed.
Like a number of other high-profile killings, the assassination of Liaquat Ali Khan, has also remained a mystery. Conspiracy theories abound, yet are difficult to substantiate.
It was revealed in the documents declassified a few years ago that two people killed the murderer of Liaquat Ali Khan at the spot while crowd also massacred the two persons in order to leave no sign of the conspiracy.
According to the documents, the United States wanted to get contracts of oil resources in Iran. Pakistan and Iran enjoyed cordial ties and Afghanistan used to be an enemy of Pakistan during 1950-51. The neighbouring Afghanistan was the only country that did not accept Pakistan at that time.
The US demanded Pakistan use its influence in Tehran and persuade it to transfer control of its oil fields to the US.
Liaquat Ali Khan declined to accede to the request, saying he would not use his friendship for dishonest purposes and not interfere in personal affairs of Iran.
On which, then US President Harry Truman had threatened to Liaquat Ali Khan. Not only that, Liaquat Ali Khan also demanded that the US vacate air bases in Pakistan, dropping a bombshell on Americans.
Following the development, American started search of murderer for assassinating Khan. They did not find a suitable person in Pakistan and then turned to Afghanistan for this purpose, according to the documents.
Washington contacted the US Embassy in Kabul, offering Zahir Shah to search an assassin for Khan and in return they will ensure Pashtoonistan’s freedom.
Afghan government had found a man, Syed Akbar, to take the job and also made arrangements for him to be killed immediately after, so as to conceal the conspiracy. All three stayed at a local hotel in Rawalpindi one day before the meeting of party in Company Bagh.
Akbar fired at Khan when he started his speech at dais and he fell on the stage, saying “Allah help Pakistan”.
The cartridges recovered from Khan’s body were US made. The type of bullets used to kill the Pakistani prime minister was in use by high-ranking American officers and were not usually available in the market.
Some people claimed that Governor General Ghulam Muhammad was behind Khan’s murder while some blamed Mushtaq Ahmed Gormani. Different committees and commission were constituted but failed to conclude any results.
After a span of over 60 years, the US State Department have disclosed all the secrets and a video of Dr Shabir about disclosures also appeared in which he gave reaction over the declassified documents.
When Online contacted Muazzam Ali Khan, the grandson of Liaquat Ali Khan, he said they are aware about the report and it is true. He also said they also have supporting documents in this regard​
قائد ملت لیاقت علی خان کو امریکا نے قتل کروایا،امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ
اسلام آباد: امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ کی جانے والی دستاویزات کے مطابق قائدملت لیاقت علی خان کو امریکانے افغان حکومت کے ذریعے قتل کروایا،امریکی منصوبے کے تحت افغان حکومت کے تیارکردہ قاتل کو 2 ساتھی ملزمان نے قتل کیااوردونوں معاون قاتل ہجوم نے روند دیے اس طرح قائدملت کاقتل ایک سربستہ رازبن گیا۔
یہ دستاویزات اگرچہ59سال پرانی ہیں مگرپاکستان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ان دستاویزات میں اس جرم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایاگیاہے کہ امریکااس وقت ایران کے تیل کے چشموں پرنظررکھتاتھااوریہ بھی جانتاتھاکہ اس دورمیں ایران اورپاکستان کے تعلقات بہت زبردست ہیں اوران دنوں 1950-51میں افغانستان پاکستان کادشمن شمارہوتاتھا اور افغانستان واحدملک تھاجس نے پاکستان کوتسلیم نہیں کیا تھا۔
اس وقت امریکی صدرنے قائد ملت لیاقت علی خان سے سفارش کی تھی کہ اپنے قریبی دوستوں ایرانیوں سے کہہ کر تیل کے کنوؤں کاٹھیکہ امریکاکودلوا دیں اس پر لیاقت علی خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں ایران سے اپنی دوستی کاناجائز فائدہ نہیں اٹھاناچاہتااورنہ ہی ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کروں گا، اگلے روز امریکی صدرٹرومین کالیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون موصول ہواملیاقت علی خان نے جواب میں کہا کہ میں ناقابل خریدہوں اورنہ کسی کی دھمکی میں آنے والا ہوں ۔
یہ کہہ کر فون بند کر دیااور حکم دیا کہ آئندہ 24گھنٹوں کے اندر پاکستان میں امریکاکے جتنے طیارے کھڑے ہیں وہ پرواز کرجائیں اور اپنے ملک کو واپس چلے جائیں، ادھر واشنگٹن ڈی سی میں اسی لمحے ایک میٹنگ ہوئی اورطے ہوا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہمارے کام کاآدمی نہیں ہے، امریکا نے پاکستان میں ایک کرائے کے قاتل کی تلاش شروع کردی اس زمانے میں اس کاسفارتخانہ کراچی میں تھا جو پاکستان کادارالخلافہ تھا،امریکاکو پورے پاکستان میں کرائے کاایک قاتل نہیں مل سکا پھرواشنگٹن ڈی سی سے کراچی میں امریکی اورکابل کے سفارتخانے کوفون کیاکہ قاتل کوافغانستان میں تلاش کیاجائے۔
امریکا نے شاہ ظاہرشاہ کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم لیاقت علی خان کا قاتل تیار کرلو تو ہم صوبہ پختونستان کوآزاد کرا لیں گے افغان حکومت تیار ہو گئی بلکہ 3آدمی ڈھونڈے، ایک توسیداکبر تھا جسے گولی چلانی تھی،2مزید افراد تھے جنھوں نے اس موقع پر سید اکبرکوقتل کر دیناتھاتاکہ کوئی نشان کوئی گواہ باقی نہ رہے اورقتل کی سازش دب کررہ جائے تو16اکتوبرسے ایک دن پہلے سیداکبراوراس کے وہ ساتھی جنھیں وہ اپنا محافظ سمجھتاتھا،تینوں راولپنڈی آئے۔ایک ہوٹل میں رکے اورقبل از وقت کمپنی باغ میں اگلی صفوں میں بیٹھ گئے،سید اکبرنے دو نالی رائفل چھپارکھی تھی، لیاقت علی خان جلسہ گاہ آئے اور اپنے خاص اندازمیں کھڑے ہو کر کہا برادران ملت توسیداکبر نے اپنے کوٹ سے رائفل نکال کر2فائرکیے جو سیدھے بدقسمتی سے لیاقت علی خان کے سینے پر لگے ،ان کے آخری الفاظ یہ تھے خداپاکستان کی حفاظت کرے۔
ادھر سید اکبر کے جومحافظ بھیجے گئے تھے انھوں نے سید اکبرکوقتل کر دیا اور مشتعل ہجوم نے محافظوں اورسید اکبر کو پیروں تلے ایساروندھا کہ ہمیشہ کے لیے وہ سازش چھپ کررہ گئی،اب ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس نے اس معاملے کوواضح کیاہے۔واضح رہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے آج تک مختلف کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں لیکن 60سال بعد امریکی محکمہ خارجہ نے یہ سارے رازافشاکردیے ۔
نوٹ: انگریزی والا حصہ پاکستان ٹو ڈے۔کام سے ہے۔ اور جو اردو والا حصہ ہے۔ وہ ایکسپریس۔پی کے، سے ہے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
چلیں اگر خبر درست ہے تو یہ مُعمہ تو حل ہوا۔ اَب دیکھتے ہیں فواد صاحب اور امریکہ بہادر کیسے اِس معاملے کا دفاع کرتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

انٹرنيٹ اور دن بدن پھيلتے ہوئے سوشل ميڈيا کے دور ميں جبکہ ناقابل ترديد حقائق تک رسائ اب پہلے کے مقابلے ميں کافی سہل ہو چکی ہے، اس نوعيت کی خبری رپورٹس کی جلی حروف ميں تشہير کی بجائے انھيں فورمز کے طنز ومزاح کے ليے مختص سيکشن ميں جگہ دی جانی چاہيے۔ مگر شايد لچھے دار کہانيوں کی بنياد پر شدت جذبات کا اظہار اور منفی طرزعمل، حقائق کی تحقيق کے بعد دانشمندانہ اظہار رائے کے مقابلے ميں زيادہ آسان ہے۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ جس معلومات کو تروڑ مروڑ کر يہ رپورٹ تيار کی گئ ہے، وہ پيش کردہ غلط تاثر کے برعکس حاليہ دنوں کی نہيں ہے۔ اس پوری خبر کی بنياد جولائ 18 2006 ميں عرب نيوز ويب سائٹ پر شائع ہونے ايک رپورٹ ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں جس سے اس "نئے انکشاف" کی حقيقت سب پر واضح ہو جائے گی۔

http://www.arabnews.com/node/287940


اس کالم ميں يکطرفہ رپورٹنگ اور شہ سرخی کو ايک طرف رکھتے ہوئے صرف يہ ديکھيں کہ جھوٹ کو گھڑنے کے ليے کس سورس کا حوالہ ديا گيا ہے۔

دستاويز کے مطابق، اکتوبر 30 1951 کو نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے ايک ٹيلی گراف ارسال کيا گيا جس ميں يہ تحرير درج تھی

"کيا لياقت علی خان کا قتل ايک گہری امريکی سازش کا نتيجہ تھا؟" نئ دہلی ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے بھيجے گئے ٹيلی گراف ميں اکتوبر 24 1951 کو بھوپال کے ايک مقامی اخبار "نديم" ميں شائع ہونے والے ايک ايسے کالم کے اہم نقاط کا خلاصہ پيش کيا گيا تھا جس ميں لياقت علی خان کی موت کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار ديا گيا تھا۔

ٹيلی گراف ميں لکھے گئے خلاصے ميں صرف وہی نقاط شامل تھے جو روزنامہ "نديم" ميں موجود کالم ميں پہلے سے موجود تھے۔

دنيا بھر ميں سفارت خانوں ميں کام کرنے والے ملازمين کے ليے يہ روز کا معمول ہوتا ہے کہ وہ مقامی ميڈيا اور اخبارات ميں پيش کيے جانے والے خيالات، تجزيوں اور خبروں سے اپنی حکومتوں کو باخبر رکھتے ہيں تا کہ مقامی طور پر مقبول عام نظريات اور عوامی سوچ جو دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت پر اثرانداز ہو سکتی ہے، اس سے مکمل آگہی حاصل کی جا سکے۔ يہ پيغامات جو سفارت خانے کے عملے کی جانب سے اپنی حکومتوں کو بھيجے جاتے ہيں، وہ محض مقامی ميڈيا ميں پنپنے والی سوچ کے آئينہ دار ہوتے ہيں۔ يہ سفارت خانے کے عملے کی ذاتی سوچ نہيں ہوتی بلکہ وہ تو خبروں کی رپورٹنگ کر کے اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہوتے ہيں۔

اگر آپ واقعی امريکی حکومت کے موقف اور اس سوچ کے بارے ميں جان کاری چاہتے ہيں جو سال 1951 ميں وزيراعظم لياقت علی خان کے قتل کے وقت تھی تو اس کے ليے سی آئ اے کی اکتوبر 22 1951 کی يہ دستاويز پيش ہے جو اس وقت تو خفيہ تھی ليکن اب اسے "ڈی کلاسيفائيڈ" کر ديا گيا ہے۔

http://www.foia.cia.gov/sites/default/files/document_conversions/89801/DOC_0000010596.pdf

صفحہ 2 کے آخری پيراگراف ميں واضح طور پر درج ہے

"اينٹيلی جينس کے ڈائريکٹر، يو ايس اے ايف، کے مطابق قاتل کے محرکات اور اس کی وابستگی کے ضمن ميں مکمل معلومات نا ہونے کے سبب اس قتل کے اثرات کا مکمل تجزيہ ممکن نہيں ہے"۔

اس دستاويز کے صفحہ آٹھ کا آخری پيراگراف بھی توجہ طلب ہے جہاں يہ بات واضح کی گئ ہے کہ امريکی حلقوں ميں لياقت علی خان کو ايک ايسے ليڈر کے حوالے سے ديکھا جاتا تھا جو اپنے نظريات کے حوالے سے مغرب کے ليے مثبت سوچ رکھتے تھے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت ايک ايسے ليڈر کے خلاف کوئ بھی قدم اٹھائے گی جو خود ہمارے اپنے اعتراف کے مطابق امريکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کے متمنی تھے؟

چونکہ مختلف فورمز پر تشہير کردہ اس رپورٹ کا لب لباب اور اس کی بنياد خود امريکی حکومت کی ہی ايک دستاويز ہے اور اسی بنياد پر اسے ايک "ناقابل ترديد ثبوت" قرار ديا گيا ہے تو پھر اسی منطق اور پيمانے کے تحت اسی امريکی حکومت اور سی آئ اے کی ہی پيش کردہ دستاويز کو بھی درست تسليم کيا جانا چاہيے جو وزير اعظم لياقت علی خان کے قتل کے حوالے سے ہماری سوچ کو واضح کرتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
اس نوعيت کی خبری رپورٹس کی جلی حروف ميں تشہير کی بجائے انھيں فورمز کے طنز ومزاح کے ليے مختص سيکشن ميں جگہ دی جانی چاہيے۔ مگر شايد لچھے دار کہانيوں کی بنياد پر شدت جذبات کا اظہار اور منفی طرزعمل، حقائق کی تحقيق کے بعد دانشمندانہ اظہار رائے کے مقابلے ميں زيادہ آسان ہے۔
وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان کے پوتے کے حوالے سے بھی کچھ فرما دیں کہ انہیں کون سے زمرے میں رکھا جائے
 

آوازِ دوست

محفلین
قدرت اللہ شہاب " شہاب نامہ" میں مختلف واقعات کے حوالے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی نوزائیدگی کے دنوں سے ہی اپنے وقت کی دو سُپر پاورز امریکہ اور روس کی دلچسپی کا مرکز رہا کہ ہر دو کی خواہش تھی کہ دوسرے فریق کے مقابلے میں پاکستان خود کو اُس سے زیادہ قریب رکھے۔ اسلامک بلاک کی کوششوں میں امریکی دشمنی مول لینے پر ذوالفقار علی بھُٹو کو کھُلی امریکی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اُن کا عدالتی قتل ایک سامنے کی بات ہے۔ ضیا الحق نے افغان ''جہاد" کے حوالے سے امریکی امداد کو مونگ پھلی کا چھلکا قرار دیا اور امریکی پالیسیوں کی مزاحمت کی قیمت ادا کی۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اُس وقت کے لیڈران ہمسایہ ملک انڈیا کے برعکس ملکی مفادات کی غماز خارجہ پالیسی اپنانے کی بجائے امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔ طاقت ور حکومتوں کو دنیا پر اثرانداز ہونے کی خواہش بے چین کیے رکھتی ہے۔ خود ہمارے حکمرانوں (منتخب اور مُسلط) نے افغانستان میں من پسند حکومت قائم کرکے دُنیا فتح کرنے کا آغاز کی تھا جو عدم وسائل کی بناء پر جلد زمین بوس ہو گیا۔ تو جتنی مضبوط حکومت اُتنےہی وسیع پیمانے پر جوڑ توڑ۔ آپ پرزم کی حقیقت سے تو انکار نہیں کریں گے تو ایسے ہی بہت سےجھمیلے ہیں جو کمزور ملکوں کے گلے ڈالے جاتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
ضیا الحق نے افغان ''جہاد" کے حوالے سے امریکی امداد کو مونگ پھلی کا چھلکا قرار دیا اور امریکی پالیسیوں کی مزاحمت کی قیمت ادا کی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو لوگ بغير سوچے سمجھےجرنل ضيا کی موت کے لیے امريکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہيں وہ ايک اہم نقطہ نظرانداز کر ديتے ہيں کہ جس حادثے ميں جرنل ضياالحق جاں بحق ہوئے تھے اس ميں امريکی سفير آرنلڈ رافيل اور امريکی ملٹری ايڈوازری گروپ کے صدر ہربٹ واسم بھی شامل تھے۔ يہ مفروضہ ميں بہت سے اردو فورمز پر پڑھ چکا ہوں کہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ کے ليے جرنل ضيا کی "ضرورت" ختم ہو گی تھی اس ليے انھيں مروا ديا گيا۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ ايک "غير ضروری" اور "استعمال شدہ جرنل" کو راستے سے ہٹانے کے ليے اپنے دو انتہائ اہم افسران کو از خود موت کی گھاٹ اتار دے؟ ايک طرف تو يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ سی – آی – اے اتنا بااختيار ادارہ ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام تبديل کرسکتا ہے پھر جرنل ضيا کو مروانے کے ليے ايسی پرواز کا انتخاب کيوں کيا گيا جس ميں خود امريکہ کے اپنے سينير افسران شامل تھے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

آوازِ دوست

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو لوگ بغير سوچے سمجھےجرنل ضيا کی موت کے لیے امريکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہيں وہ ايک اہم نقطہ نظرانداز کر ديتے ہيں کہ جس حادثے ميں جرنل ضياالحق جاں بحق ہوئے تھے اس ميں امريکی سفير آرنلڈ رافيل اور امريکی ملٹری ايڈوازری گروپ کے صدر ہربٹ واسم بھی شامل تھے۔ يہ مفروضہ ميں بہت سے اردو فورمز پر پڑھ چکا ہوں کہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ کے ليے جرنل ضيا کی "ضرورت" ختم ہو گی تھی اس ليے انھيں مروا ديا گيا۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ ايک "غير ضروری" اور "استعمال شدہ جرنل" کو راستے سے ہٹانے کے ليے اپنے دو انتہائ اہم افسران کو از خود موت کی گھاٹ اتار دے؟ ايک طرف تو يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ سی – آی – اے اتنا بااختيار ادارہ ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام تبديل کرسکتا ہے پھر جرنل ضيا کو مروانے کے ليے ايسی پرواز کا انتخاب کيوں کيا گيا جس ميں خود امريکہ کے اپنے سينير افسران شامل تھے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
آپ کی دلیل میں وزن ہے۔ تاہم کوئی تحقیق کر کے یہ پرکھ سکتا ہے کہ آیا متاثرہ سوگوار امریکی خاندان بھی اِس معاملے میں امریکی حکومت کو بری الذمہ سمجھتے ہیں یا نہیں۔
 

تجمل حسین

محفلین
يہ مفروضہ ميں بہت سے اردو فورمز پر پڑھ چکا ہوں کہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ کے ليے جرنل ضيا کی "ضرورت" ختم ہو گی تھی اس ليے انھيں مروا ديا گيا۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ ايک "غير ضروری" اور "استعمال شدہ جرنل" کو راستے سے ہٹانے کے ليے اپنے دو انتہائ اہم افسران کو از خود موت کی گھاٹ اتار دے؟

بے شک کسی کے لیے یہ واقعی بہت بڑی بات ہوتی ہے کہ کسی ایک بندے کو مروانے کے لیے اپنے دو اہم افراد مروادے۔
لیکن امریکہ کے لیے یہ ایک معمولی بات ہے۔ امریکہ اور اسرائیل وغیرہ مسلمانوں کے کسی ایک اہم، فعال اور ان کے خلاف مزاج فرد کو مروانے اور اپنے اوپر شک کو ختم کرنے کے لیے اپنے دو تو کیا دس افراد بھی مروا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک فرد ان دس افراد سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور ان کے نزدیک یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔ :mrgreen:
بالکل اسی طرح جیسے قیام پاکستان کے وقت ہندو کہتے تھے کہ اگر مسلمان ہمارے سارے لیڈر (گاندھی سمیت) لے لیں اور صرف محمد علی جناح ہمیں دے دیں تو ہم کبھی بھی پاکستان بننے نہیں دیں گے۔
کیونکہ محمد علی جناح ان کے سارے لیڈروں پر بھاری تھے۔الحمدللہ۔ :)
 

باباجی

محفلین
بابے غائب ہی رہتے ہیں بھائی :)
میں محفل پہ اکثر وقت موجود رہتا ہوں
لیکن گفتگو میں حصہ کم ہی لیتا ہوں
 

آوازِ دوست

محفلین
واقعی ہر اہم شخصیت نے کوئی نہ کوئی بابا ضرور انجوائے کیا ہے ایک ہم ہیں کہ صدیوں سے اصلی بابے کی تلاش میں ہیں مگربابے جانے کہاں چلے گئے :)
 

باباجی

محفلین
واقعی ہر اہم شخصیت نے کوئی نہ کوئی بابا ضرور انجوائے کیا ہے ایک ہم ہیں کہ صدیوں سے اصلی بابے کی تلاش میں ہیں مگربابے جانے کہاں چلے گئے :)
جس صدی کا بابا تھا اسی صدی کی اہم شخصیات تھیں
آپ موجودہ دور میں اسی دور کے مطابق زندگی گزارتا کوئی بابا تلاشیئے
 

آوازِ دوست

محفلین
جس صدی کا بابا تھا اسی صدی کی اہم شخصیات تھیں
آپ موجودہ دور میں اسی دور کے مطابق زندگی گزارتا کوئی بابا تلاشیئے
شکریہ جناب ورنہ سیدھا مطلب تو اِس بات کا یہ بھی ہے کہ ہم کوئی اہم شخصیت بننے کی فُرصت سے محروم رہے ہیں۔ کوئی ٹوینٹی فرسٹ سینچری بابا ہو آپ کی نظر میں تو بتائیے ہم تو اوپن کرائٹیریا رکھ کر بھی خالی ہاتھ ہیں ابھی تک۔
 

باباجی

محفلین
کرائیٹیریا اوپن رکھا ہوا ہے تو آپ بھی بابا ہوگئے جناب ۔۔۔۔ ورنہ تو لوگ مرضی کا بابا ڈھونڈ لیتے ہیں یا بنا لیتے ہیں :)
 

Fawad -

محفلین
بے شک کسی کے لیے یہ واقعی بہت بڑی بات ہوتی ہے کہ کسی ایک بندے کو مروانے کے لیے اپنے دو اہم افراد مروادے۔
لیکن امریکہ کے لیے یہ ایک معمولی بات ہے۔ امریکہ اور اسرائیل وغیرہ مسلمانوں کے کسی ایک اہم، فعال اور ان کے خلاف مزاج فرد کو مروانے اور اپنے اوپر شک کو ختم کرنے کے لیے اپنے دو تو کیا دس افراد بھی مروا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک فرد ان دس افراد سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور ان کے نزدیک یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔ :mrgreen:

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کچھ رائے دہندگان کے ليے امريکہ ايک ايسا "ورسٹائل ولن" ہے جو ہر کہانی، ہر بحث اور ہر دليل ميں بالکل فٹ بيٹھتا ہے۔ کبھی کبھار تو اس ولن کو بحث سے متعلقہ متضاد رائے زنی ميں دونوں طرف کے دلائل ميں استعمال کيا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر امريکہ ايک ايسا ولن ہے جس کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ

"امريکی حکومت کے نزديک صرف اپنے شہريوں کی حفاظت اور آئينی حقوق کا تحفظ مقدم ہے"۔

مگر جب 11 ستمبر 2001 کے حادثے يا سابق صدر جرنل ضياالحق کے حوالے سے سازش کے ضمن ميں دليل کی ضرورت پڑے تو پھر يہ کہا جاتا ہے کہ

"امريکی حکومت فائدے کے ليے اپنے ہی ہزاروں شہريوں يا اعلی عہدوں پر فائز سفارتی اہلکاروں کو ہلاک کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتی"۔

کبھی يہ ولن ايک ايسے عيار منصوبہ ساز کے طور پر پيش کيا جاتا ہے جس کے بارے ميں دعوی کيا جاتا ہے کہ

"امريکی تھنک ٹينک اور فيصلہ ساز ادارے دنيا کے کسی خطے ميں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے ليے بڑی طويل منصوبہ بندی کرتے ہيں"۔ اس ضمن ميں سازشی نقشوں کو دليل کے طور پر پيش کيا جاتا ہے۔

کبھی يہ چالاک ولن ايک ايسے غير ذمہ دار اور "بدمست ہاتھی" کے طور پر استعمال کيا جاتا ہے جس کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ

"امريکہ زمينی حقائق کا تدارک کيے بغير گولی پہلے چلاتا ہے اور نشانہ بعد ميں ليتا ہے۔"

موقع کی مناسبت سے يہی ولن ايک اناڑی بزدل بن جاتا ہے جس کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ

"چاکليٹ کھانے اور کوک پينے والے امريکی فوجی پہاڑی علاقوں کی مشکلات کا سامنا نہيں کر سکتے اور ان کے مقابلے ميں مقامی لوگ ان علاقوں ميں لڑائ کے ليے زيادہ بہتر، منظم اور مضبوط ہيں"۔

مگر پھر يہی کمزور ولن ايک ايسا طاقتور "عفريت" بن جاتا ہے جس کے بارے ميں دليل دی جاتی ہے کہ

"ہمارے پاس امريکی حملوں کو روکنے کے ليے وسائل نہيں ہيں"۔

90 کی دہائ ميں دليل يہ تھی کہ امريکہ ايک ظالم حکمران کے تسلط کا شکارعراق کے مظلوم لوگوں کی داد رسی کے ليے کوئ کردار ادا نہيں کر رہا کيونکہ وہ مسلمان ہيں۔ اب دليل يہ ہے کہ امريکہ کو صدام حکومت کے خاتمے کا کوئ حق نہيں تھا اس بات سے قطع نظر کہ اس کے دور حکومت ميں کتنے مظالم ڈھائے گئے۔

اگر امريکہ پاکستان کو امداد ديتا ہے تو اسے پاکستان کے حکومتی اداروں پر امريکی اثرورسوخ بڑھانے کی سازش قرار ديا جاتا ہے۔ اگر امريکہ امداد نہ دے تو دليل يہ بن جاتی ہے کہ امريکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔

کبھی امريکہ ايک ايسا ولن ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور کبھی ايک ايسا دشمن جسے مقامی حالات کا صحيح تدارک نہيں ہے۔ بعض اوقات يہ دونوں متضاد دلائل ايک ہی موضوع پر جاری بحث ميں استعمال کيے جاتے ہيں۔ کبھی امريکہ ايک ايسی سلطنت ہے جو تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور کبھی اتنی مضبوط کہ دنيا کے کسے بھی دوردراز ملک کی حکومت تبديل کرنے کی صلاحيت رکھتی ہے۔

ليکن ان دلائل کا حتمی نتيجہ صرف يہی نکلتا ہے کہ بحث کوئ بھی ہو، ذمہ داری کا بوجھ بہرحال امريکہ پر ڈالنا جائز ہے۔ ملک کے اندر کسی تبديلی، بہتر قيادت کے ليے شعور اجاگر کرنے اور عوام کے معيار زندگی کو بہتر بنانے کے کسی منصوبے کی کوئ ضرورت نہيں ہے کيونکہ تمام تر مسائل کی وجہ اور انکا حل ايک "بيرونی ہاتھ" کے پاس ہے۔

کوئ بھی باشعور شخص يہ بات جانتا ہے امريکہ سے متعلق دلائل غير مستقل اور اور منطقی اعتبار سے متضاد ہوتے ہيں جو موضوع کی مناسبت سے اپنی نوعيت تبديل کرتے رہتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

x boy

محفلین
امریکہ کیونکر قتل کروائے گا جبکہ جناب لیاقت علی خان صاحب امریکہ کے فیور میں تھے
اور امریکہ کے دورے پر جب وہ تھے تو امریکی وزرات کو دعوت دی تھی اور 16ہزار ڈالر
اس زمانے میں خرچہ کیا تھا جو اس زمانے کے حساب سے آپ سوچ بھی نہیں سکتے کتنے ہونگے
اس پر علماء کرام نے بہت کچھ کہا تھا اوریہ پیسے الکحل میں خرچہ ہواتھا۔
 
Top