منقب سید
محفلین
سڑکوں پر اترنے والے لوگوں میں ایرک گارنر کے اہل خانہ کے علاوہ مائیکل براؤن کے رشتہ دار بھی شامل ہیں
امریکہ میں پولیس کے تشدد سے نہتے سیاہ فام افراد کی ہلاکتوں کے حالیہ واقعات کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن کے علاوہ نیویارک اور بوسٹن میں نکالی جانے والی بڑی احتجاجی ریلیوں میں شدید سردی کے باوجود ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے جن میں سفید اور سیاہ فام دونوں شامل تھے۔
انہ مظاہرین نے بینر اور بڑے بڑے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’سیاہ فام لوگوں کی زندگی پر بھی فرق پڑتا ہے۔‘، ’نسل پرست پولیس کو روکو‘ اور ’میں سانس نہیں لے سکتا‘ جیسے نعرے درج تھے۔
امریکہ میں حالیہ دنوں میں نہتے سیاہ فام لوگوں پر پولیس کی کارروائی اور اس میں سیاہ فام لوگوں کے مارے جانے کے معاملے سامنے آئے ہیں۔
’میں سانس نہیں لے سکتا‘ جیسے نعرے کا براہ راست تعلق ایرک گارنر سے ہے جو نیویارک میں اپنی گرفتاری کے وقت گڑگڑا رہے تھے کہ میں سانس نہیں لے سکتا ہوں اور اسی دوران گارنر کی موت ہوگئی تھی۔
مظاہروں میں شریک لوگ ہر نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں
واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے میں ایرک گارنر کے اہل خانہ کے علاوہ مائیکل براؤن نامی سیاہ فام شہری کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔
18 سالہ مائیکل براؤن کو ریاست میزوری کے علاقے فرگوسن میں کچھ عرصہ قبل ایک سفید فام پولیس افسر نےگولی مار دی تھی۔
دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرے کے دوران گارنر کی والدہ گوین کار نے اس مارچ کو ’تاریخ ساز لمحہ‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا ’ان تمام لوگوں کو جو ہمارا ساتھ دینے کے لیے نکلے دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ اس ہجوم کو دیکھیے، سیاہ فام، سفید فام تمام نسلوں اور مذاہب کے لوگ ہیں۔ ہمیں ہر موقعے پر اسی طرح ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔‘
بی بی سی کی نامہ نگار سے بات کرنے والے زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ گارنر کی موت انھیں یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔
مائیکل براؤن کے معاملے میں پولیس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے فیصلے سے نہ صرف فرگوسن میں بلکہ دور دراز آک لینڈ اور کیلیفورنیا میں بھی پر تشدد مظاہرے بھڑک اٹھے تھے تاہم گارنر کی موت پر ہونے والے مظاہرے پر امن رہے تھے۔
زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ گارنر کی موت انھیں یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔
مظاہرین قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں
لنک