فلسطين کے معاملے ميں امريکہ براہراست فريق نہيں ہے۔ اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعہ کئ دہائيوں پر محيط ہے۔ اس مسلئے کے حل کے ليے عالمی برادری کی جانب سے ايک اجتماعی کوشش کی جا رہی ہے اور امريکہ اس عالمی کوشش کا حصہ ہے۔ ليکن اس مسلئے کے فيصلہ کن اور حتمی تصفيے کا اختيار امريکی حکومت کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔
ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ امريکہ وہ واحد ملک نہيں ہے جس نے اسرائيل کے وجود کو تسليم کيا ہے۔ اقوام متحدہ ميں اسرائيل ايک تسليم شدہ ملک کی حيثيت سے شامل ہے۔
سال 2002 ميں بيروت کے مقام پر عرب ليگ کے اجلاس ميں تمام ممبر ممالک کی جانب سے ايک امن معاہدہ پيش کيا گيا تھا جس ميں 20 عرب ممالک نے اسرائيل کے وجود کو تسليم کرتے ہوئے اس بات کی اہمیت پر زور ديا تھا کہ امن کے تناظر ميں اسرائيل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
عرب ليگ ميں شامل ممالک کی لسٹ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔
http://img40.imageshack.us/img40/7209/clipimage0021.jpg
اسرائيل اور فلسطين کے مسلئے کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور نقطہ نظر کو نہ صرف عالمی برادری ميں حمايت حاصل ہے بلکہ عرب ليگ کی جانب سے کی جانے والی امن کی کوششيں بھی اسی سمت ميں ہيں جس کے مطابق اس مسلئے کا حل دو الگ رياستوں کا قيام ہے جہاں فلسطينی اور اسرائيلی امن اور سکون کے ساتھ رہ سکيں۔
صدر اوبامہ نے قاہرہ ميں تقرير کے دوران اسی نقطہ نظر کا اعادہ کيا تھا۔
" عرب امن کوششوں پر مزيد کام کرتے ہوئے عرب رياستوں پر لازم ہے کہ وہ فلسطينی رياست کی بقا کے لیے اداروں کی تشکيل ميں فلسطينی عوام کی مدد کريں اور اسرائيلی کی قانونی حيثيت تسليم کريں۔ اس کے علاوہ ماضی ميں جھانکنے کی ناکام روش کے مقابلے ميں ترقی پر فوکس کرنا ہوگا۔ "
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall