امریکہ کی ترقی کا راز!

arifkarim

معطل
دنیا کا ہر اک پڑھا لکھا امریکہ کی ترقی کے گن گا رہا ہے۔ اس ترقی کے پیچھے جہاں اسکولز اور یونی ورسٹیز کا ہاتھ ہے، وہیں سی آئی اے اور باقی ’’خفیہ‘‘حکومتی اداروں نے بھی اسکی سلامتی کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے سے گریز نہیں کیا ہے۔
جان پرکنز ایسی ہی ایک اسٹیٹ ایجنسی NSA میں کام کرتارہا ہے، جو غریب ممالک کے وسائل پر قبضہ کی غرض سے ’’معاشی ہٹ مین‘‘ وہاں بھیجتی رہی ہے۔ پرکنز نے ۱۰ سال تک یہ رول ادا کیا اور بعد میں ضمیر کی وجہ سے مجبور ہو کر یہ کام چھوڑ دیا۔ اور آج ۲۰ سال بعد کتب کی اشاعت اور مختلف انٹرویوز کی صورت میں امریکہ کی اس خفیہ تاریخ پر سے پردہ فاش کرنے میں مصروف ہے:
یاد رہے کہ دنیا میں غربت کی اصل وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ وسائل کی غرباء سے ’’پہنچ اور فاصلہ‘‘ ہے! ;)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ آپ نے جس کتاب کا حوالہ ديا ہے وہ امريکہ ميں ہی چھپی ہے اور اس کی تشہير بھی يہاں پر ہوئ ہے۔ کتاب کے مصنف پر اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کی پاداش ميں کوئ پابندياں نہيں لگيں۔ امريکی آئين ميں موجود قوانين اور حقوق اس بات کو يقينی بناتے ہيں کہ کوئ بھی شخص واقعات کے حوالے سے اپنی مخصوص سوچ اور نقطہ نظر کے اظہار ميں مکمل آزاد ہے۔

ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ کسی کتاب يا بيان کی شکل ميں امريکی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں۔

امريکہ کا وہ آئين جو اس بات کو یقينی بناتا ہے کہ ہر شخص اپنے رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے، وہی آئين ہر شخص کو يہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ قانون کی عدالت ميں اپنے الزامات کو ثابت کر کے گناہ کار کو قرار واقعی سزا دلوا سکتے ہيں۔ اس کتاب کے مصنف کے پاس بھی يہ موقع موجود تھا ليکن انھوں نے اپنے الزامات کو قانون کی عدالت ميں ثابت کرنے کے مقابلے ميں کتاب کی اشاعت کو ترجيح دی۔

اپنی کتاب ميں مصنف پرکنز نے يہ دعوی کيا ہے کہ انھيں اين – ايس – اے نے "اکنامک ہٹ مين" کی حيثيت سے منتخب کيا تھا تاکہ وہ دانستہ مختلف ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر انھيں امريکہ کے زير اثر رکھ سکيں۔ يہ ايک من گھڑت کہانی ہے۔ حقائق اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی کرتے ہيں۔ اس کے برعکس امريکہ نے ماضی کی کئ دہائيوں ميں ايسے اقدامات اور منصوبوں کی حوصلہ افزائ کی ہے جن کا واحد مقصد غريب ممالک کے قرضے معاف کرنا تھا۔

http://www.imf.org/external/np/exr/facts/hipc.htm

پرکنز نے يہ دعوی کيا کہ انھوں نے يہ سب کچھ اين – ايس – اے کے ایماء پر کيا تھا۔ ليکن اس الزام کے ضمن ميں انھوں نے کوئ ثبوت فراہم نہيں کيا۔ انھوں نے اپنی کتاب ميں کہيں بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ اين – ايس – اے ميں کسی شخص نے انھيں زبانی يا تحریری طور پر کوئ ہدايات جاری کی تھيں۔

شايد پرکنز اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اين – ايس – اے کوئ معاشی ادارہ نہيں بلکہ کوڈ بنانے اور توڑنے سے متعلق ايک ادارہ ہے۔ اس ادارے کے دو مقاصد ہيں۔

امريکی انفارميشن سسٹمز کو ناقابل تسخير بنانے کے ليے نظام وضح کرنا۔

مخالفين کے سسٹمز اور کوڈز میں کمزورياں تلاش کرنا۔

ان دونوں مقاصد کا دوسرے ممالک کی نجی کمپنیوں ميں معاشی ماہرين کی تعنياتی اور ان ممالک کو قرضوں ميں جکڑنے سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہے۔

پرکنز نے سازشی کہانیوں سے اپنی رغبت کا اظہار جنوری 10 2006 کو واشنگٹن کے ايک بک سٹور پر اپنی کتاب کے حوالے سے ايک نمائش کے دوران بھی کيا۔ ايک موقع پر انھوں نے مبينہ طور پر يہ دعوی بھی کيا کہ امريکی حکومت صدر کينيڈی، سينيٹر رابرٹ کينيڈی، مارٹن لوتھر کنگ جونير، بيٹل گروپ کے جان لينن اور ايسے بے شمار سينيٹرز کی اموات کی ذمہ دار ہے جو جہاز کے مختلف حادثات ميں جاں بحق ہوئے تھے۔

پرکنز نے خود اس بات کا اعتراف کيا ہے کہ ان کی کتاب کی مقبوليت کی وجہ يہ ہے کہ يہ ايک دلچسپ جاسوسی کہانی کی طرز پر لکھی گئ ہے جو تيسری دنيا کے ممالک کو معاشی طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے عام تاثر اور تصورات کو کاميابی سے استعمال کرتی ہے۔ يہ درست ہے کہ پرکنز نے معاشی ترقی اور تيزی سے پروان چڑھتی جديد دنيا کے نتيجے ميں ترقی پذير ممالک پر اس کے اثرات کے حوالے سے کجھ جائز سوالات اپنی کتاب ميں اٹھائے ہيں۔ ليکن ان کا يہ دعوی کہ وہ اين – ايس – اے کے ايما پر ايک "اکنامک ہٹ مين" کا کردار ادا کر رہے تھے، محض تخلياتی ہے۔

پرکنز کے دعوے کے برعکس امريکہ حکومت نے اپنی پاليسی پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبے کئ غريب ممالک کے قرضوں میں کمی کے لیے اقدامات اٹھائے ہيں۔

سال 2004 ميں صدر بش نے کئ غريب ممالک کے سرکاری قرضوں کی منسوخی کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس کے ايک سال کے بعد مئ 2005 ميں گلين ايگلز کانفرنس کے دوران جی – ايٹ ممالک نے 18 غريب ممالک کے قرضے معاف کرنے کے علاوہ نائيجيريا کے 17 بلين ڈالرز کے قرضے معاف کيے جو کہ تاريخ میں معاف کيا جانے والا سب سے بڑا قرضہ ہے۔

ستمبر 2005 ميں يو – ايس ٹريجری ڈيپارٹمنٹ ميں عالمی امور کے انڈر سيکرٹری ٹموتھی ايڈمز نے اس پروگرام کی تفصيلات کچھ يوں بيان کيں

"اس پلان کے نتيجے ميں 18 ايچ – آئ – پی – سی ممالک قرضے کی معافی کے فوری حقدار ہيں۔ ان ممالک ميں بينن، بوليويا، برکينا فاسو، ايتھوپيا، گھانا، گيانا، ہونڈورس، مڈاگاسکر، مالی، موری تانيہ، موضمبيگ، نکراگوا، نايجر، روانڈا، سينی گال، تنزانيہ، يوگنڈا اور زمبيا شامل ہيں۔ ايچ – آئ – پی – سی کے باقی ممالک بھی مخصوص ضابطوں کی تکميل کے بعد اس فہرست ميں شامل ہو جائيں گے۔ ان 18 ممالک کو معاف کيے جانے والے قرضہ 40 بلين ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اس ساری عمل کی تکميل تک يہ عدد 60 بلين ڈالرز سے تجاوز کر جائے گا۔"

پرکنز کی سوچ، نقطہ نظر، تخيلاتی اور طلسمی دنياؤں سے ان کی رغبت کو سمجھنے کے لیے ان کی ديگر تنصيفات پر بھی ايک نظر ڈاليں۔

• Psychonavigation: “first hand accounts of how diverse tribal cultures travel beyond time and space by means of visions and dream wanderings;”

• Shapeshifting: “shamanistic techniques for global and personal transformation;” and

• The World Is As You Dream It: “shamanistic techniques from the Amazon and Andes.”

جہاں تک امريکی حکومت کے ايما پر پرکنز کے منصوبوں کا تعلق ہے تو حقائق ان کی خوابی دنيا سے يکسر مختلف ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ آپ نے جس کتاب کا حوالہ ديا ہے وہ امريکہ ميں ہی چھپی ہے اور اس کی تشہير بھی يہاں پر ہوئ ہے۔ کتاب کے مصنف پر اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کی پاداش ميں کوئ پابندياں نہيں لگيں۔ امريکی آئين ميں موجود قوانين اور حقوق اس بات کو يقينی بناتے ہيں کہ کوئ بھی شخص واقعات کے حوالے سے اپنی مخصوص سوچ اور نقطہ نظر کے اظہار ميں مکمل آزاد ہے۔
جی بالکل۔ مگر ان واقعات کی حقیقت کو ثابت کرنے کیلئے جمہوری رائے کی ضرورت ہے۔ اور لوگ ’’عموماً‘‘ اسی بات پر یقین کرتے ہیں جو جمہوریت یعنی اکثریت کی رائے ہوتی ہے۔ اور چونکہ اکثریت پر کنٹرول مین اسٹریم میڈیا کے ہاتھ میں ہے۔ یوں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا انکا روز کا مشغلہ ہے۔

ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ کسی کتاب يا بيان کی شکل ميں امريکی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں۔
بے شک۔ مگر امریکی صدر اور انکے حامیوں کی طرف سے طالبان اور صدام پر لگائے گئے تمام الزامات بغیر کسی ٹھوس اثبوت کے ’’سچ‘‘ ثابت ہو چکے ہیں۔ یوں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالت کے ہاتھ میں نہیں۔ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔

امريکہ کا وہ آئين جو اس بات کو یقينی بناتا ہے کہ ہر شخص اپنے رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے، وہی آئين ہر شخص کو يہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ قانون کی عدالت ميں اپنے الزامات کو ثابت کر کے گناہ کار کو قرار واقعی سزا دلوا سکتے ہيں۔ اس کتاب کے مصنف کے پاس بھی يہ موقع موجود تھا ليکن انھوں نے اپنے الزامات کو قانون کی عدالت ميں ثابت کرنے کے مقابلے ميں کتاب کی اشاعت کو ترجيح دی۔
جی ہاں۔ اور یہی قانون اس بات کی ضمانت بھی دیتا ہے کہ گواہی دینے والے کو عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔ یا جج و وکیل کو پیسے دیکر اپنا کام نکلوا لیا جائے۔ آپکا کیا خیال ہے کہ وہ اکیلا امریکی بھینسوں کے آگے جا کر بین بجاتا اور اب تک زندہ ہوتا اگر عدالت میں جاتا؟ عافیہ صدیقی اور گوانتانامو قیدیوں کیساتھ جو ’’جرم ثابت ہوئے بغیر‘‘ ہوا ہے۔ اسکو دیکھنے کے بعد آپکا آئین تھوکنے کے قابل بھی نہیں ہے۔

اپنی کتاب ميں مصنف پرکنز نے يہ دعوی کيا ہے کہ انھيں اين – ايس – اے نے "اکنامک ہٹ مين" کی حيثيت سے منتخب کيا تھا تاکہ وہ دانستہ مختلف ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر انھيں امريکہ کے زير اثر رکھ سکيں۔ يہ ايک من گھڑت کہانی ہے۔ حقائق اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی کرتے ہيں۔ اس کے برعکس امريکہ نے ماضی کی کئ دہائيوں ميں ايسے اقدامات اور منصوبوں کی حوصلہ افزائ کی ہے جن کا واحد مقصد غريب ممالک کے قرضے معاف کرنا تھا۔

http://www.imf.org/external/np/exr/facts/hipc.htm
مصنف کی کتاب کا یقین نہیں ہے، جبکہ آئی ایم ایف کی سائٹ کا قرآن جیسا یقین ہے؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
نیز آئی ایم ایف اگر قرضہ معاف کرتا ہے تو اسکے پیچھے لاکھوں معاشی یا سیاسی شرائط کا انبار بھی دیتا ہے۔

پرکنز نے يہ دعوی کيا کہ انھوں نے يہ سب کچھ اين – ايس – اے کے ایماء پر کيا تھا۔ ليکن اس الزام کے ضمن ميں انھوں نے کوئ ثبوت فراہم نہيں کيا۔ انھوں نے اپنی کتاب ميں کہيں بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ اين – ايس – اے ميں کسی شخص نے انھيں زبانی يا تحریری طور پر کوئ ہدايات جاری کی تھيں۔

شايد پرکنز اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اين – ايس – اے کوئ معاشی ادارہ نہيں بلکہ کوڈ بنانے اور توڑنے سے متعلق ايک ادارہ ہے۔ اس ادارے کے دو مقاصد ہيں۔

امريکی انفارميشن سسٹمز کو ناقابل تسخير بنانے کے ليے نظام وضح کرنا۔

مخالفين کے سسٹمز اور کوڈز میں کمزورياں تلاش کرنا۔

ان دونوں مقاصد کا دوسرے ممالک کی نجی کمپنیوں ميں معاشی ماہرين کی تعنياتی اور ان ممالک کو قرضوں ميں جکڑنے سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہے۔
اوہ یعنی یہاں تو رولز کی بات کر دی آپنے۔ یہ ہیں امریکی ڈیپارٹمنٹس کے کردار:
امریکی فوج: مقصد: ملک کے بارڈرز کی حفاظت۔حقیقت: پچھلے ۶۰ سال میں ایک بھی جنگ ملک کے ’’اندر‘‘ یا بارڈرز پر نہیں لڑی۔ سب کی سب ملک سے باہر دوسرے ممالک کو برباد کرتے ہوئے لڑی ہیں۔
سی آئی اے: مقصد: ملک کی حفاظت بذریعہ انٹیلجنس۔ حقیقت: اپنی طاقت کا سارا استعمال غیر ممالک میں حکومتیں الٹنے پلٹنے، منشیات اور اسلحہ کے کاروبار، نیز اور بہت سے بلیک پراجیکٹس میں ملوث ہے۔

پرکنز نے سازشی کہانیوں سے اپنی رغبت کا اظہار جنوری 10 2006 کو واشنگٹن کے ايک بک سٹور پر اپنی کتاب کے حوالے سے ايک نمائش کے دوران بھی کيا۔ ايک موقع پر انھوں نے مبينہ طور پر يہ دعوی بھی کيا کہ امريکی حکومت صدر کينيڈی، سينيٹر رابرٹ کينيڈی، مارٹن لوتھر کنگ جونير، بيٹل گروپ کے جان لينن اور ايسے بے شمار سينيٹرز کی اموات کی ذمہ دار ہے جو جہاز کے مختلف حادثات ميں جاں بحق ہوئے تھے۔

پرکنز نے خود اس بات کا اعتراف کيا ہے کہ ان کی کتاب کی مقبوليت کی وجہ يہ ہے کہ يہ ايک دلچسپ جاسوسی کہانی کی طرز پر لکھی گئ ہے جو تيسری دنيا کے ممالک کو معاشی طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے عام تاثر اور تصورات کو کاميابی سے استعمال کرتی ہے۔ يہ درست ہے کہ پرکنز نے معاشی ترقی اور تيزی سے پروان چڑھتی جديد دنيا کے نتيجے ميں ترقی پذير ممالک پر اس کے اثرات کے حوالے سے کجھ جائز سوالات اپنی کتاب ميں اٹھائے ہيں۔ ليکن ان کا يہ دعوی کہ وہ اين – ايس – اے کے ايما پر ايک "اکنامک ہٹ مين" کا کردار ادا کر رہے تھے، محض تخلياتی ہے۔

پرکنز کے دعوے کے برعکس امريکہ حکومت نے اپنی پاليسی پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبے کئ غريب ممالک کے قرضوں میں کمی کے لیے اقدامات اٹھائے ہيں۔

سال 2004 ميں صدر بش نے کئ غريب ممالک کے سرکاری قرضوں کی منسوخی کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس کے ايک سال کے بعد مئ 2005 ميں گلين ايگلز کانفرنس کے دوران جی – ايٹ ممالک نے 18 غريب ممالک کے قرضے معاف کرنے کے علاوہ نائيجيريا کے 17 بلين ڈالرز کے قرضے معاف کيے جو کہ تاريخ میں معاف کيا جانے والا سب سے بڑا قرضہ ہے۔

ستمبر 2005 ميں يو – ايس ٹريجری ڈيپارٹمنٹ ميں عالمی امور کے انڈر سيکرٹری ٹموتھی ايڈمز نے اس پروگرام کی تفصيلات کچھ يوں بيان کيں

"اس پلان کے نتيجے ميں 18 ايچ – آئ – پی – سی ممالک قرضے کی معافی کے فوری حقدار ہيں۔ ان ممالک ميں بينن، بوليويا، برکينا فاسو، ايتھوپيا، گھانا، گيانا، ہونڈورس، مڈاگاسکر، مالی، موری تانيہ، موضمبيگ، نکراگوا، نايجر، روانڈا، سينی گال، تنزانيہ، يوگنڈا اور زمبيا شامل ہيں۔ ايچ – آئ – پی – سی کے باقی ممالک بھی مخصوص ضابطوں کی تکميل کے بعد اس فہرست ميں شامل ہو جائيں گے۔ ان 18 ممالک کو معاف کيے جانے والے قرضہ 40 بلين ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اس ساری عمل کی تکميل تک يہ عدد 60 بلين ڈالرز سے تجاوز کر جائے گا۔"

پرکنز کی سوچ، نقطہ نظر، تخيلاتی اور طلسمی دنياؤں سے ان کی رغبت کو سمجھنے کے لیے ان کی ديگر تنصيفات پر بھی ايک نظر ڈاليں۔

• Psychonavigation: “first hand accounts of how diverse tribal cultures travel beyond time and space by means of visions and dream wanderings;”

• Shapeshifting: “shamanistic techniques for global and personal transformation;” and

• The World Is As You Dream It: “shamanistic techniques from the Amazon and Andes.”

جہاں تک امريکی حکومت کے ايما پر پرکنز کے منصوبوں کا تعلق ہے تو حقائق ان کی خوابی دنيا سے يکسر مختلف ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
بالکل۔ اور سازشی تھیوری ’’۱۰۰ فیصد‘‘ جھوٹی ہوتی ہے۔ جبکہ حکومتی ’’آفیشل‘‘ جھوٹ ۱۰۰ فیصد سچے ہوتے ہیں۔ جزاک اللہ۔ آپسے بات کرکے بہت خوشی ہوئی۔
عارف کریم، ڈیجیٹل ان ریچ ٹیم، محفل سرچ ڈیپارٹمنٹ۔
 
Top