سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی مرينز کی تعداد 200، 1000 يا 7000 نہيں بلکہ صرف 20 ہے۔ يہ مفروضہ کہ سفارت خانے کی سيکورٹی پر مامور چند امريکی مرينز جو حکومت پاکستان کے علم اور باقاعدہ اجازت کے ساتھ کام کر رہے ہيں ملک کے ايٹمی اثاثوں پر قبصہ کر سکتے ہیں، کسی بے سروپا کہانی سے زيادہ اہميت نہيں رکھتا۔
يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ رائج عالمی قوانين کے عين مطابق حکومت پاکستان کو اس بات کا پورے اختيار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہائش پذير اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شخص کی نقل وحرکت اور سرگرميوں کے حوالے سے اپنی مرضی کے قواعد وضوابط اور قوانين مرتب کرے۔ اسلام ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والے امريکی مرينز اور ديگر امريکی شہری اس قانون سے مبرا نہيں ہيں۔
جہاں تک پاکستان کے ايٹمی اثاثوں کے حوالے سے شکوک وشبہات، خدشات اور بے بنياد سازشی کہانيوں کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں ميڈيا رپورٹس اور قياس آرائيوں سے ہٹ کر اس ايشو پر صدر اوبامہ کا بيان پيش ہے۔
"مجھے اس بات پر اعتماد ہے کہ حکومت پاکستان نے ايٹمی اثاثوں کی حفاظت کا مکمل انتظام کر رکھا ہے۔ يہ ايٹمی اثاثے پاکستان کی ملکيت ہيں۔"
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov