ملک ارسلان
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سچی بات یہ ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکہ کا حواری بن کر ہم اپنے لیے مشکلات اور مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر لیا ہے آج ہم ایسی خطرناک بندگلی میں پہنچ چکے ہیں،جہاں سے نجات کا دور دور تک کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔یہ دراصل سزا ہے عقیدہ الولاء و البراء سے انحراف کی۔11 ستمبر کے بعد اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے کفار کو پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی رابطوں کو استعمال کرنے کی اجازت دینا پاکستان کے بحری اور ہوائی اڈوں اور سرحدات کو استعمال کرنے کی اجازت دینا،امرکہ کو انٹیلی جنس اور نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا،افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا،جنگ کے بعد مجاہدین کو گفرتار کر کے امریکہ کے حوالت کرنا،پاکستان کے اندر ایف بی آئی کو گھروں میں چھاپے مارنے کی اجازت دینا،مساجد اور مدارس میں داخل ہونے کی اجازت دینا،امریکہ کو پاکستان کے اندر تفتیشی مراکز قائم کرنے کی اجازت دینا،کشمیری مجاہدین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا،ان کے کیمپ ار دفاتر بند کر دینا،ان سے مالی تعاون کرنے والوں پر پابندیاں لگانا ،قبائلی علاقوں مین برسوں سے رہائش پزیر مجاہدین کے گھروں پر بمباری کرنا،انہیں پناہ دینے والے محب وطن قبائلیوں کے ساتھ ملک دشمنوں جیسا سلوک کرنا،یہ ساری باتیں عقیدہ الولاء والبراء کے خلاف ہیں۔ہمیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے مسلمانوں کی مدد و حمایت کرنے اور کفار ے قطع تعلق اور دشمنی کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ہم نے اس کے بالکل برعکس طرز عمل اختیار کیا۔کفار کی نصرت اور حمایت کی،مسلمانوں سے قطع تعلق اور دشمنی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے مین آج ہم دن بدن نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ مشکلات اور مصائب کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔اس انتہائی مایوس کن صورت حال سے نجات کا راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم عقیدہ الولاء و البراء کی طرف پلٹ آئیں۔مسلمانوں کی نصرت اور حمایت کا راستہ اختیار کریں،کفار سے نفرت،بیزاری،قطع تعلق اور دشمنی کا واضح اور دوٹوک اعلان کریں۔
کتاب "دوستی اور دشمنی کتاب و سنت کی روشنی میں" از محمد اقبال کیلانی سے اقتباس