زیک
مسافر
جنگ کے کالمنگار نیر زیدی کا امریکی صدارتی انتخابات پر مضمون میں کبھی نہ پڑھتا اگر بدتمیز نہ کہتا۔ اب پڑھ لیا ہے تو میرا غصہ آپ کو بھی سننا پڑے گا۔ نیر زیدی لکھتے ہیں:
219 برس کہ امریکہ کا پہلا صدر 1789 میں منتخب ہوا۔
شکاگو میں بے ایمانی ضرور ہوئ تھی مگر یہ کچھ بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔
ہر چیز کے پیچھے یہودی؟؟؟ تعصب کی انتہاء ہے یہ! اور کوئ اعتراف شاید اس لئے نہیں کرے گا کہ اس میں کوئ حقیقت ہی نہیں۔ کینیڈی کے قتل کے بارے میں پڑھیں۔
Barack
ڈیموکریٹک پارٹی
McCain
Romney
Huckabee۔ لگتا ہے کہ نیر نے یہ فلم نہیں دیکھی۔
Evangelical
یہ تعریف کچھ صحیح نہیں۔ بہتر مواد وکیپیڈیا پر۔ کچھ مزید تفصیل
1967 میں کہ الیکشن 1968 میں ہونا تھا۔
اس اخبار کا یہ نام اور یہ مالکان مئ 1967 سے ہیں۔
Nevada
غلط۔ ریپبلکن پارٹی کے کاکس میں حصہ لینے والوں میں سے 25 فیصد مورمن تھے۔
جان ایڈورڈز ساوتھ کیرولینا میں پیدا ہوا مگر سینیٹر وہ نارتھ کیرولینا سے تھا اور آجکل نہیں ہے۔
معلوم نہیں اردودان Al Gore کو جوڑ کر الگور کیوں لکھتے ہیں؟ اسے ال گور کیوں نہیں لکھتے؟ دوسرے گور کے شامل ہونے کا کوئ چانس نہیں ہے۔
سب سے مضاحقہ خیز بات تو میں بھول ہی گیا: نیر زیدی یہ کالم واشنگٹن سے لکھتے ہیں۔ اگر مریدکے سے لکھتے ہوتے تو شاید ماننے والی بات ہوتی۔
ایسا لگتا ہے کہ اس سال امریکہ کی انتخابی مہم ایک اہم موڑ پر ہے اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا سراب ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے قومی کنونشن کو اپنا امیدوار منتخب کرنے میں اور پھر نومبر میں امریکی ووٹر ان امیدواروں میں سے صدر کیسے منتخب کرتے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوگی پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ منتخب صدر اپنی پہلی مدت کے چار برسوں میں ”تبدیلی“ کا وعدہ پورا کرتا ہے یا نہیں۔ متحدہ امریکہ کے آئین کی تشکیل کے بعد سے 225 برس میں
219 برس کہ امریکہ کا پہلا صدر 1789 میں منتخب ہوا۔
امریکی ووٹروں نے ہمیشہ جن لوگوں کو صدر منتخب کیا انہیں WHITE ANGLO SAXON PROTESTANT یعنی WASP کہا جاسکتا ہے اور وہ تمام مرد تھے۔ اس سیاسی PROFILE میں رنگ، نسل اور مذہب کے تین عناصر ضروری تھے ورنہ صدر منتخب ہونا نا ممکن تھا صرف جان ایف کینیڈی رومن کیتھولک عیسائی تھے۔ اب یہ حقیقت ہے کہ ان کا انتخاب بھی شکاگو میں بیلٹ باکسوں کے توڑے جانے کا مرہون منت تھا۔
شکاگو میں بے ایمانی ضرور ہوئ تھی مگر یہ کچھ بات کا بتنگڑ بنایا جا رہا ہے۔
یہ کام شکاگو کے لارڈ میئر DALY نے کیا تھا۔ رچرڈ نکسن اس الیکشن میں ہار گئے تھے۔ انہوں نے بعد میں لکھا کہ انہوں نے شکاگو کے واقعے کو چیلنج اس لئے نہیں کیا کیونکہ اس سے امریکی انتخابی عمل کا اعتبار ختم ہوجاتا۔اس رومن کیتھولک اور نسل کے اعتبار سے IRISH سفید فام کو بالآخر قتل کردیا گیا۔ کیا یہ اس لئے تھا کہ اس کی PROFILE WHITE IRISH ROMAN CATHOLIC یعنی WIRC تھی؟ کوئی اس کا اعتراف نہیں کرے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدر کینیڈی کو قتل کرنے والے اور پھر اس قتل کی پردہ پوشی کرنے والے تمام WASP تھے اور ان کے پیچھے یہودی تھے جن کا اصل رومن کیتھولک چرچ سے ہے۔
ہر چیز کے پیچھے یہودی؟؟؟ تعصب کی انتہاء ہے یہ! اور کوئ اعتراف شاید اس لئے نہیں کرے گا کہ اس میں کوئ حقیقت ہی نہیں۔ کینیڈی کے قتل کے بارے میں پڑھیں۔
موجودہ صدارتی الیکشن میں متعدد ممتاز امیدوار ہیں جو صدارتی امیدواروں کی تاریخی پروفائل سے قطعاً مختلف ہیں۔ مثلاً ریاست نیویارک سے سینیٹر اور سابق خاتون اول ہلیری کلنٹن سفید فام ہیں۔ ریاست ILLINOIS کے سینیٹر BARAK OBAMA سیاہ فام ہیں۔
Barack
ان کے والد افریقہ سے تھے اور ان کی والدہ سفید فام تھیں۔ یہ دونوں ڈیموکریٹ پارٹی
ڈیموکریٹک پارٹی
کی صدارتی نامزدگی کے ممتاز امیدواروں میں ہیں۔ ری پبلکن پارٹی میں سینیٹر MC CAIN
McCain
تاریخی رنگ، نسل اور مذہب کی پروفائل کے مطابق یعنی WASP ہیں تادم تحریر وہ دوسرے تمام ری پبلکن امیدواروں پر سبقت رکھتے ہیں لیکن ری پبلکن پارٹی میں بھی دو امیدوار ہیں جن کا چند برس پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ MITT ROMANE
Romney
ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر ہیں اور وہ MORMON مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ بھی عیسائی ہیں لیکن عیسائی نہیں مانتے۔ دوسرے امیدوار MICHAEL HUCABY
Huckabee۔ لگتا ہے کہ نیر نے یہ فلم نہیں دیکھی۔
ہیں۔ وہ عیسائیوں کی تبلیغی جماعت ہے جسے EVANGILIST
Evangelical
کہا جاتا ہے۔ یہ بذات خود کوئی فرقہ نہیں کوئی بھی عیسائی تبلیغی بن سکتا ہے۔ یہ کٹر بنیاد پرست اور قدامت ہیں۔
یہ تعریف کچھ صحیح نہیں۔ بہتر مواد وکیپیڈیا پر۔ کچھ مزید تفصیل
رومنی صاحب کے والد GEORGE ROMANEY نے 1965ء میں ری پبلکن صدارتی امیدوار نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی
1967 میں کہ الیکشن 1968 میں ہونا تھا۔
میں کراچی میں تھا اور باقاعدگی سے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون پڑھتا تھا جو نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ مل کر نکالتے ہیں
اس اخبار کا یہ نام اور یہ مالکان مئ 1967 سے ہیں۔
لیکن میں نے یہ ایشو کہیں نہیں دیکھا کہ وہ مورمن ہیں ان کو ہارنا ہی تھا اور وہ ہارگئے۔ اس دفعہ الیکشن میں کھل کر یہ بات اچھالی گئی کہ وہ مورمن ہیں اور مورمن ہیسائی ہیں یا نہیں۔اب قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ مورمن کیا ہیں انیسویں صدی میں ایک صاحب JOSEPH SMITH نے دعویٰ نبوت کیا۔ انہوں نے اور ان کے بعض ساتھیوں نے خواب میں دیکھا کہ فلاں جگہ جاکر کھودو تمہیں ہدایت ملے گی چنانچہ سب گئے زمین کھودی اور وہاں سے سونے کی تختیاں ملیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انجیل آسمانی کتاب ہے لیکن اس کے بعد ان کو بھی کتاب آئی جس کا نام ہے BOOK OF MORMON۔ریاست IOWA میں ROMANEY تمام امیدواروں سے آگے ہے وہاں کے ( ) سے تین ماہ پہلے اچانک رومنی صاحب مقابلے میں آگئے۔ اب بنیاد پرست عیسائی اور مورمن کے درمیان مقابلہ ہوا ہے جسے عیسائیوں کی اکثریت عیسائی نہیں مانتی اور مقابلے کا پانسہ پلٹ گیا۔ مسٹر ہاکابی جیت گئے لیکن مسٹر رومنی دوسرے نمبر پر آئے۔ وہ پھر ریاست NAVADA
Nevada
میں جیتے وہاں مورمن آبادی 25 فیصد ہے۔
غلط۔ ریپبلکن پارٹی کے کاکس میں حصہ لینے والوں میں سے 25 فیصد مورمن تھے۔
میں نے ان دو امیدواروں کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کی ہیں کیونکہ دونوں نسبتاً غیر معروف تھے۔ ہلیری کلنٹن تو 1992ء سے سیاسی افق پر ہیں اور پاکستان کے تمام افراد بھی ان سے تھوڑا بہت واقف ہوں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی میں ان دونوں کا براہ راست مقابلہ ہے۔ سینیٹر JOHN EDWARDS بھی مقابلے میں ہیں۔ وہ ریاست ساؤتھ کیرولینا سے سینیٹر ہیں
جان ایڈورڈز ساوتھ کیرولینا میں پیدا ہوا مگر سینیٹر وہ نارتھ کیرولینا سے تھا اور آجکل نہیں ہے۔
وہاں پرائمری اسی ہفتے ہے اگر وہ ہار گئے تو شاید وہ دوڑ سے نکل جائیں کیونکہ اپنی ہی ریاست میں ہارنا ان کی امیدواری پر ضرب کاری ہوگا۔ چندے ملنا بند ہوجائیں گے۔ 5 فروری کو 22 ریاستوں میں پرائمری مقابلے ہیں۔ ان میں نیویارک اور کیلیفورنیا جیسی بڑی ریاستیں ہیں جہاں مورمن اور بنیاد پرست عیسائی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ چنانچہ ری پبلکن پارٹی میں امید ہے کہ شاید JOHN MC CAIN سامنے آئیں۔ وہ اس وقت بھی سب سے آگے ہیں۔ جان ایڈورڈ بھی شاید اس وقت تک یا پھر 5 فروری کے بعد دوڑ سے باہر ہوں کیونکہ ہلیری کلنٹن اور اوبامہ کا کانٹے کا مقابلہ ہے اس میں تیسری پوزیشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے ان کا مقابلہ شاید 5 فرومی کو بھی نہ طے ہو اور یہ مقابلہ آخر وقت تک جاری رہ سکتا ہے اور ممکن ہے کہ دونوں کے کنونشن ووٹ برابر ہوں یا 19 اور 20 کا فرق ہو۔ اس صورت میں کنونشن میں شطرنج ہوسکتی ہے اور نائب صدر الگور میدان میں آسکتے ہیں۔ ان کی سیاسی پروفائل 225 برس کی تاریخ کے مطابق WASP اور مرد۔ لیکن وہ اپنے نوبل انعام کی امیدواری کی وجہ سے سیاست کا نام بھی نہیں لے سکتے تھے۔ اگر نوبل کمیٹی کو شک ہوجاتا کہ ان کے سیاسی عزائم ہیں تو ان کو نوبل انعام نہ ملتا۔ چنانچہ وہ برابر انکار کرتے رہے۔ لیکن مئی 2007ء میں ان کے 2008ء کے چندہ جمع کرنے والوں نے ملاقات کی تھی۔ پتہ نہیں ان کا اندازہ کیا تھا ایک DRAFT GORE کمیٹی بن گئی۔ پس پردہ وہ کیا کررہی ہے لیکن اگر ڈیموکریٹ کمیٹی میں کسی کے پاس اکثریت نہ ہوئی تو مسز کلنٹن اور مسٹر اوبامہ دونوں طرف کے WASP مرد حضرات مسٹر گور کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ وہ آزمائے ہوئے امیدوار ہیں۔
معلوم نہیں اردودان Al Gore کو جوڑ کر الگور کیوں لکھتے ہیں؟ اسے ال گور کیوں نہیں لکھتے؟ دوسرے گور کے شامل ہونے کا کوئ چانس نہیں ہے۔
سب سے مضاحقہ خیز بات تو میں بھول ہی گیا: نیر زیدی یہ کالم واشنگٹن سے لکھتے ہیں۔ اگر مریدکے سے لکھتے ہوتے تو شاید ماننے والی بات ہوتی۔