arifkarim
معطل
امریکی شہر جہاں پانچ بار اذان گونجتی ہے
برجیش اُپادھیائے بی بی سی اردو ڈاٹ کام، مشی گن
امریکہ میں ایک طرف جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان دنوں کچھ لوگ زہر اگل رہے ہیں وہیں دوسری طرف ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں مقامی انتخابات کے بعد سٹی کونسل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی ہے۔
یہ ریاست مشی گن کا شہر ہیمٹریمک ہے جہاں کبھی بیشتر آبادی پولش كیتھولكس کی ہوا کرتی تھی لیکن گذشتہ دو عشروں میں ان کی آبادی سمٹ کر اب مشکل سے 10 دس فیصد رہ گئی ہے۔
اس شہر کے ہر گلی محلے میں اب اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
برقع پوش اور حجاب میں لپٹی خواتين، سکول کے بعد مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے بچّے، شہر کی مساجد سے لاؤڈ سپیکرز پر دی جانے والی پانچ وقت کی اذان، عربی اور بنگلہ زبان میں تحریر دکانوں کے سائن بورڈز اور حلال کھانا کھلانے والے ریستوراں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی شہر میں پولش تہذیب و ثقافت کی چھاپ بھی صاف نظر آتی ہے۔ شہر کے مرکز میں پوپ کا مجسمہ ہے، گرجا گھر ہیں، دیواروں پر پولینڈ کی روایتی تصاویر ہیں، شراب خانے ہیں، سال میں ایک بار نكلنےوالی رنگ برنگی پولش پریڈ بھی ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کو اب یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ اسلام اس شہر کے پولش ورثے کو ختم کر دے گا اور مقامی انتخابات میں مسلمانوں کی فتح کے بعد اس تشویش میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اب شہر کی سڑکوں کے نام اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے نام پر رکھے جاسکتے ہیں اور دیگر اسلامی طور طریقے شہر پر تھوپے جا سکتے ہیں۔
میں نے ان علاقوں میں گرجا گھروں کو بھی جگہ نہیں دی تھی۔ لیکن اب جیسے جیسے یہاں مذہبی اداروں کی تعداد بڑھے گی، شہر کی مشکلوں میں اضافہ ہوگا۔ میں شہر کی معاشي ترقی کے لیے یہاں اور زیادہ ریستوراں اور تفریحی مراکز کھولنا چاہتی ہوں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔
کیرن مایوسکی، میئر
جس امیدوار کی جیت سے کونسل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوئی ہے ان کا نام سعد المعسمری ہے۔ وہ یمن سے چند برس پہلے امریکہ آ کر بسے تھے۔
ان کا کہنا ہے لوگوں کا ڈر بے وجہ ہے۔ المعسمری کا کہنا ہے کہ ان کے زیادہ تر ووٹرز مسلمان ضرور تھے لیکن وہ پورے شہر کے نمائندے کی طرح کام کریں گے۔
وہ کہتے ہیں ’اگر کوئی میرے پاس مدد مانگنے آتا ہے تو میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ اس کا مذہب کیا ہے ... میں تو صرف یہ پوچھوں گا کہ کیا آپ اس شہر کے رہائشی ہیں؟ اس کے بعد میں ان کے مسائل کے بارے میں بات چیت شروع کر دوں گا۔‘
شہر میں سب سے بڑے جھگڑے کی جڑ بنی ہوئی ہے یہاں کی مساجد سے دن میں پانچ بار گونجنے والی اذان۔
سماجی كاركون سوزین ڈن اس شہر میں برسوں سے رہائش پذیر ہیں اور لاؤڈ سپيكر کے ذریعے دی جانے والی اذان کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں اذان کی آواز کافی بلند ہے۔ ’میں اپنے گھر کے اندر ہوتی ہوں، کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، ٹی وی چل رہا ہوتا ہے تب بھی اچانک اذان کی آواز گھر کے اندر تک پہنچنے لگتی ہے۔ یہ مجھے پسند نہیں ہے۔‘
عربی اور بنگلہ زبان میں تحریر دکانوں کے سائن بورڈز اور حلال کھانا کھلانے والے ریستوراں ہر جگہ نظر آتے ہیں
اس شہر میں 2004 میں کافی بحث و مباحثے کے بعد ایک مسجد کو لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی قانونی منظوری ملی تھی۔ اس کے بعد سے شہر میں کئی مسجدیں ہوگئیں اور سب کو اذان دینے کی آزادی ہے۔
الاصلاح اسلامک سینٹر، جسے سب سے پہلے اذان کی یہ منظوری ملی تھی، اب پاس کی زمین خرید کر وہاں ایک مینار بھی بنا رہا ہے جہاں سے اذان دی جائے گی۔
مسجد کے سیکریٹری مسعود خان کہتے ہیں کہ پانچوں اذانوں کا مجموعی طور پر وقت دیکھا جائے تو مشکل سے دن کے پندرہ منٹ بنتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’وہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ان کے سکون میں ہم خلل ڈالتے ہیں۔ چرچ کی گھنٹیاں بھی تو خوب شور کرتی ہیں؟ ہم تو کبھی شکایت نہیں کرتے۔‘
اس شہر کے زیادہ تر مسلمان یمن، بنگلہ دیش اور بوسنیا سے ہیں اور ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ پانے کی وجہ سے ان کا آپس میں ملنا جلنا بہت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب نے اپنی الگ الگ مسجدیں بنا رکھی ہیں۔
شہر میں مکانوں کی قیمتیں کافی کم ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ باہر سے آ کر لوگوں کے یہاں بسنے کی یہی بڑی وجہ رہی ہے۔
1950 کے عشرے میں کاروں کی پنپتی صنعت کی وجہ سے پھلنے پھولنے والا یہ علاقہ آج کل معاشي طور پر بہت کمزور ہوگیا ہے۔ یہاں تعمیر کی گئیں تمام بڑی فیكٹريا ں بند پڑی ہوئی ہیں۔ لوگ کام کرنے یا تو شہر سے باہر جاتے ہیں یا پھر دکانیں اور ریستوراں چلاتے ہیں۔
پانچوں اذانوں کا مجموعی طور پر وقت دیکھا جائے تو مشکل سے دن کے پندرہ منٹ بنتے ہیں۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ان کے سکون میں ہم خلل ڈالتے ہیں۔ چرچ کی گھنٹیاں بھی تو خوب شور کرتی ہیں؟ ہم تو کبھی شکایت نہیں کرتے۔
مسعود خان
کچھ اسلامی اداروں نے شہر کے مرکز میں بند پڑی بڑی بڑی دکانوں کی اراضی خرید لی ہے۔
شہر کی میئر کیرن مايوسكي کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ شہر کی آبادی میں اس طرح کا اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولش لوگوں سے پہلے یہاں جرمنی سے آنے والے لوگوں کی اکثریت تھی، اب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے لیکن ان کی تشویش تجارتی علاقوں میں مساجد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ضرور ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں نے ان علاقوں میں گرجا گھروں کو بھی جگہ نہیں دی تھی۔ لیکن اب جیسے جیسے یہاں مذہبی اداروں کی تعداد بڑھے گی، شہر کی مشکلوں میں اضافہ ہوگا۔ میں شہر کی معاشي ترقی کے لیے یہاں اور زیادہ ریستوراں اور تفریحی مراکز کھولنا چاہتی ہوں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘
ریاستی قانون کے مطابق مذہبی مقامات کے نصف کلومیٹر کے دائرے تک شراب خانے کھولنے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور مايوسكي کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں ریستوران چل نہیں سکتے۔
دیکھا جائے تو اس شہر میں مسلم اور غیر مسلم برسوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، کئی دفعہ بے دلی سے ہی سہی لیکن ایک ہی ہوا میں سانس لیتے رہے ہیں۔
میں اپنے گھر کے اندر ہوتی ہوں، کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، ٹی وی چل رہا ہوتا ہے تب بھی اچانک اذان کی آواز گھر کے اندر تک پہنچنے لگتی ہے۔ یہ مجھے پسند نہیں ہے۔
سوزین ڈن
بنگلہ دیش سے برسوں پہلے یہاں آنے والے منظور احمد کہتے ہیں کہ وہ نیویارک چھوڑ کر یہاں آ گئے کیونکہ یہاں مسلمان بن کر رہنا آسان ہے۔ یہاں وہ ایک مقامی مسجد میں موذن ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میری اہلیہ اور بچے اسلامی لباس میں رہتے ہیں اور یہاں کوئی سوال نہیں کرتا۔ سکولوں میں بھی حلال کھانا دیا جاتا ہے۔‘
امریکہ میں ان دنوں اسلام سرخیوں میں ہے اور کسی بھی شدت پسندانہ حملے کے بعد اس پر بحث اور تیز ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں اور خاص کر انتخابی سال میں اس شہر کی ہوا کیا رخ اختیار کرے گی اسے بہت لوگ غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔
ماخذ
زیک ظفری فاروق سرور خان عثمان
برجیش اُپادھیائے بی بی سی اردو ڈاٹ کام، مشی گن
امریکہ میں ایک طرف جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان دنوں کچھ لوگ زہر اگل رہے ہیں وہیں دوسری طرف ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں مقامی انتخابات کے بعد سٹی کونسل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی ہے۔
یہ ریاست مشی گن کا شہر ہیمٹریمک ہے جہاں کبھی بیشتر آبادی پولش كیتھولكس کی ہوا کرتی تھی لیکن گذشتہ دو عشروں میں ان کی آبادی سمٹ کر اب مشکل سے 10 دس فیصد رہ گئی ہے۔
اس شہر کے ہر گلی محلے میں اب اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
برقع پوش اور حجاب میں لپٹی خواتين، سکول کے بعد مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے بچّے، شہر کی مساجد سے لاؤڈ سپیکرز پر دی جانے والی پانچ وقت کی اذان، عربی اور بنگلہ زبان میں تحریر دکانوں کے سائن بورڈز اور حلال کھانا کھلانے والے ریستوراں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی شہر میں پولش تہذیب و ثقافت کی چھاپ بھی صاف نظر آتی ہے۔ شہر کے مرکز میں پوپ کا مجسمہ ہے، گرجا گھر ہیں، دیواروں پر پولینڈ کی روایتی تصاویر ہیں، شراب خانے ہیں، سال میں ایک بار نكلنےوالی رنگ برنگی پولش پریڈ بھی ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کو اب یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ اسلام اس شہر کے پولش ورثے کو ختم کر دے گا اور مقامی انتخابات میں مسلمانوں کی فتح کے بعد اس تشویش میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اب شہر کی سڑکوں کے نام اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے نام پر رکھے جاسکتے ہیں اور دیگر اسلامی طور طریقے شہر پر تھوپے جا سکتے ہیں۔
میں نے ان علاقوں میں گرجا گھروں کو بھی جگہ نہیں دی تھی۔ لیکن اب جیسے جیسے یہاں مذہبی اداروں کی تعداد بڑھے گی، شہر کی مشکلوں میں اضافہ ہوگا۔ میں شہر کی معاشي ترقی کے لیے یہاں اور زیادہ ریستوراں اور تفریحی مراکز کھولنا چاہتی ہوں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔
کیرن مایوسکی، میئر
جس امیدوار کی جیت سے کونسل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوئی ہے ان کا نام سعد المعسمری ہے۔ وہ یمن سے چند برس پہلے امریکہ آ کر بسے تھے۔
ان کا کہنا ہے لوگوں کا ڈر بے وجہ ہے۔ المعسمری کا کہنا ہے کہ ان کے زیادہ تر ووٹرز مسلمان ضرور تھے لیکن وہ پورے شہر کے نمائندے کی طرح کام کریں گے۔
وہ کہتے ہیں ’اگر کوئی میرے پاس مدد مانگنے آتا ہے تو میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ اس کا مذہب کیا ہے ... میں تو صرف یہ پوچھوں گا کہ کیا آپ اس شہر کے رہائشی ہیں؟ اس کے بعد میں ان کے مسائل کے بارے میں بات چیت شروع کر دوں گا۔‘
شہر میں سب سے بڑے جھگڑے کی جڑ بنی ہوئی ہے یہاں کی مساجد سے دن میں پانچ بار گونجنے والی اذان۔
سماجی كاركون سوزین ڈن اس شہر میں برسوں سے رہائش پذیر ہیں اور لاؤڈ سپيكر کے ذریعے دی جانے والی اذان کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں اذان کی آواز کافی بلند ہے۔ ’میں اپنے گھر کے اندر ہوتی ہوں، کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، ٹی وی چل رہا ہوتا ہے تب بھی اچانک اذان کی آواز گھر کے اندر تک پہنچنے لگتی ہے۔ یہ مجھے پسند نہیں ہے۔‘
عربی اور بنگلہ زبان میں تحریر دکانوں کے سائن بورڈز اور حلال کھانا کھلانے والے ریستوراں ہر جگہ نظر آتے ہیں
اس شہر میں 2004 میں کافی بحث و مباحثے کے بعد ایک مسجد کو لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی قانونی منظوری ملی تھی۔ اس کے بعد سے شہر میں کئی مسجدیں ہوگئیں اور سب کو اذان دینے کی آزادی ہے۔
الاصلاح اسلامک سینٹر، جسے سب سے پہلے اذان کی یہ منظوری ملی تھی، اب پاس کی زمین خرید کر وہاں ایک مینار بھی بنا رہا ہے جہاں سے اذان دی جائے گی۔
مسجد کے سیکریٹری مسعود خان کہتے ہیں کہ پانچوں اذانوں کا مجموعی طور پر وقت دیکھا جائے تو مشکل سے دن کے پندرہ منٹ بنتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’وہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ان کے سکون میں ہم خلل ڈالتے ہیں۔ چرچ کی گھنٹیاں بھی تو خوب شور کرتی ہیں؟ ہم تو کبھی شکایت نہیں کرتے۔‘
اس شہر کے زیادہ تر مسلمان یمن، بنگلہ دیش اور بوسنیا سے ہیں اور ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھ پانے کی وجہ سے ان کا آپس میں ملنا جلنا بہت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب نے اپنی الگ الگ مسجدیں بنا رکھی ہیں۔
شہر میں مکانوں کی قیمتیں کافی کم ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ باہر سے آ کر لوگوں کے یہاں بسنے کی یہی بڑی وجہ رہی ہے۔
1950 کے عشرے میں کاروں کی پنپتی صنعت کی وجہ سے پھلنے پھولنے والا یہ علاقہ آج کل معاشي طور پر بہت کمزور ہوگیا ہے۔ یہاں تعمیر کی گئیں تمام بڑی فیكٹريا ں بند پڑی ہوئی ہیں۔ لوگ کام کرنے یا تو شہر سے باہر جاتے ہیں یا پھر دکانیں اور ریستوراں چلاتے ہیں۔
پانچوں اذانوں کا مجموعی طور پر وقت دیکھا جائے تو مشکل سے دن کے پندرہ منٹ بنتے ہیں۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ان کے سکون میں ہم خلل ڈالتے ہیں۔ چرچ کی گھنٹیاں بھی تو خوب شور کرتی ہیں؟ ہم تو کبھی شکایت نہیں کرتے۔
مسعود خان
کچھ اسلامی اداروں نے شہر کے مرکز میں بند پڑی بڑی بڑی دکانوں کی اراضی خرید لی ہے۔
شہر کی میئر کیرن مايوسكي کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ شہر کی آبادی میں اس طرح کا اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولش لوگوں سے پہلے یہاں جرمنی سے آنے والے لوگوں کی اکثریت تھی، اب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے لیکن ان کی تشویش تجارتی علاقوں میں مساجد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ضرور ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں نے ان علاقوں میں گرجا گھروں کو بھی جگہ نہیں دی تھی۔ لیکن اب جیسے جیسے یہاں مذہبی اداروں کی تعداد بڑھے گی، شہر کی مشکلوں میں اضافہ ہوگا۔ میں شہر کی معاشي ترقی کے لیے یہاں اور زیادہ ریستوراں اور تفریحی مراکز کھولنا چاہتی ہوں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘
ریاستی قانون کے مطابق مذہبی مقامات کے نصف کلومیٹر کے دائرے تک شراب خانے کھولنے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور مايوسكي کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں ریستوران چل نہیں سکتے۔
دیکھا جائے تو اس شہر میں مسلم اور غیر مسلم برسوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، کئی دفعہ بے دلی سے ہی سہی لیکن ایک ہی ہوا میں سانس لیتے رہے ہیں۔
میں اپنے گھر کے اندر ہوتی ہوں، کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، ٹی وی چل رہا ہوتا ہے تب بھی اچانک اذان کی آواز گھر کے اندر تک پہنچنے لگتی ہے۔ یہ مجھے پسند نہیں ہے۔
سوزین ڈن
بنگلہ دیش سے برسوں پہلے یہاں آنے والے منظور احمد کہتے ہیں کہ وہ نیویارک چھوڑ کر یہاں آ گئے کیونکہ یہاں مسلمان بن کر رہنا آسان ہے۔ یہاں وہ ایک مقامی مسجد میں موذن ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میری اہلیہ اور بچے اسلامی لباس میں رہتے ہیں اور یہاں کوئی سوال نہیں کرتا۔ سکولوں میں بھی حلال کھانا دیا جاتا ہے۔‘
امریکہ میں ان دنوں اسلام سرخیوں میں ہے اور کسی بھی شدت پسندانہ حملے کے بعد اس پر بحث اور تیز ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں اور خاص کر انتخابی سال میں اس شہر کی ہوا کیا رخ اختیار کرے گی اسے بہت لوگ غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔
ماخذ
زیک ظفری فاروق سرور خان عثمان